*سید جلال بابا رحمت اللہ علیہ عرف  کنڈاو بابا جدون کی تاریخی پس منظر؛*

جب پشاور میں دلہ زاکوں نے گلگیانو سے لڑائی شروع کی اس وقت گلگیانو قبیلے نے شکست کھائی اس کی شکست کھانے پر ملک احمد اپنے قوم اور قبیلوں کو اتحاد کے لیے اس بات پر متفق کیاکہ ہم ایک فیصلہ کن جنگ دلہ زاکو سے لڑیں گے یہ فیصلہ انہوں نے اس لیے کیا کہ یوسفزی دلہ زاکو سے تنگ ائے تھے پھر ملک احمد نے سب یوسف زئی, مندڑ, گلگیانی, مہمند زئی, اتمان خیل, اور گدون کو اکٹھا  کر کے ایک  بڑا لشکر بنا کر کاٹلنگ اور شہباز گھڑی کی درمیان لڑائی کے لیے اتارا اور اور دلہ ذاک بھی کئی عرصے سے جنگ کی تیاریوں میں مشغول تھے جب انہیں پتہ چلا پھر لڑائی شروع ہو گئی یہ جنگ اخون درویزہ کے دور میں ہوئی اور اخون درویزہ نے کہا کہ سب سے پہلے علی اسماعیل کے بیٹے شیرین کو میدان میں جنگ کے لیے نکالے اس کے مقابلے میں دلہ زاک کا بیٹا زنگی نکلا ۔شیرین نے دلزاق کا بیٹا زنگی کو قتل کیا۔اور اس کے بعد سب قبیلوں کے درمیان لڑائی شروع ہوئی ایک زبردست جنگ ہوا اس کے بعد دلازاک اور اس کے ساتھی قبیلوں نے ڈر کی وجہ سے میدان چھوڑا۔یوسف زئی اور جدونوں نے دلہ زاکو کا راستہ بن کیا ۔یہ جنگ 1525 میں لڑا گیا تھا اس بڑے جنگ کے بعد یوسف زئی  جدونوں اور اتحادی قبیلوں نے سوات پر قبضہ کرنے کا فیصلہ کیا۔

*_ٹاپک  2*_

*سوات پر جدون اور یوسفزو کا قبضہ*

جب سواتی قوم کو پتہ چلا کہ یوسفزی اور جدون ہم پر حملہ کریں گے تو سواتی قوم  جدونوں اور یوسفزو کے حملے سے خوفزدہ تھے اور ہر وقت تیار رہتے تھے۔ سلطان اویس اس  دور سواتیوں کا حکمران تھا پھر انہوں نے ملک احمد کی بہن سے شادی کی۔ تاکہ جدونوں اور یوسفزو کے حملے سے محفوظ رہیں۔وہی ہمارے رشتہ دار ہوں گے اور حملہ نہیں کرے گا۔کچھ عرصہ بعد ملک احمد کی بہن مر گئی۔رشتہ ٹوٹنے پر سلطان اویس کو ڈر پیدا ہوا ۔اس کے بعد سلطان اویس نے اپنے سواتی لشکر کو محاذوں پر تقسیم کیے۔مور درہ نامی علاقے پر بندے کھڑے کیے اور کچھ لشکر ملاکنڈ پر ڈیرہ کیا۔جدونوں اور یوسفزو نے اپنا لشکر راتوں رات ملاکنڈ بھیجا اور وہاں سے جنگ شروع ہو کر سواتی لوگوں نے ملاکنڈ چھوڑا یوسفزو اور جدونوں نے ملاکنڈ سے جنگ شروع کر کے سوات پہنچ گئے۔سواتیوں نے بھرپور مقابلہ کرنے کے بعد جنگ ہارا اور سوات کو چھوڑ دیا یوسفزو اور جدونوں نے پورے سوات پر قبضہ کیا یوسفزو اور جدونوں نے پورے سوات پر قبضہ کیا اور سوات کے اس پاس کے علاقے پورن، چکیسر ،مانگا،  الپوری، کانا،شانگلہ ٹاپ کہ علاقے قبضہ کیا۔ باجوڑوں کے لشکر کو شکست دے کر ارنگ برنگ کے علاقے ان تر ناؤگئ قبضہ کیے۔یہ ایسا دور تھا کہ طاقتور قبیلے کمزور قبیلوں کے علاقوں کو چھین لیتے تھے۔

*ٹاپک* 3

*شیخ ملی کے نام ایک مشہور اصلاح تقسیم ارضی*

مندنڑ قبیلے میں ایک شخص *"شیخ ملی"* کے نام سے مشہور ایک پرہیزگار بہادر اور نڈر انسان تھا. یہ ایک ایسا فرد تھا کہ مخلوق خدا کی ہر ایک بھلائی اور اصلاح میں ہر وقت پیش پیش تھے ۔انہوں نے علاقوں کی تقسیم کا بندوبست شروع کیا تھا۔تقسیم ارضی یا تقسیم علاقہ ایک ایسا شخص کرسکتا ہے جو بڑا مفکر، قبائلیوں کے مزاج سے باخبر اور جغرافیہ جانتے ہوں شیخ ملی ان تمام میں مہارت رکھتا تھا ۔یہ کام ایسے ہوشیاری،قابلیت،دانایئ سے طے  پایا۔کہ اس وقت کے انسانوں کا عقل دنگ رہ گیا۔کوئی انسان تقسیم کو دیکھتے ہی حیران رہ جاتے تھے شیخ ملی نے ارضی تقسیم کچھ اس طرح کیا۔جس میں قبیلے اپس میں لڑ جاتے تو اس کے درمیان والی جگہ یا ارضی استانہ دار کو بطور سیری  دے دی۔یہ سیری ہے اس لیے دی گئی کہ ائندہ ان قبیلوں کے درمیان جھگڑا ختم ہو جائے۔اور ائندہ لڑائی کا نوبت نہ اجائے دوادہ کے نام پہ یہ علاقہ گلگیانوں کو دے دی ہشنغر  والی علاقہ ممندوں کو دے دی۔ارنگ برنگ کا علاقہ اتمان خیل کو دے دی قطب والی علاقہ  جدونوں کو دے دیا۔سوات سرسبز علاقہ یوسفزو اور مندڑوں کو دے دیا۔شیخ ملی اور ملک احمد دونوں مندنڑ قبیلے سے تعلق رکھتے تھے ۔اس کی ان علاقائی تقسیم میں کوئی رد بدل نہیں ائی۔شیخ ملی اور ملک احمد نے تقسیم کے وقت یہ بھی واضح کیا یہ  اے ہم قبیلوں اپ جب ایک دوسرے کے ساتھ لڑ جاتے ہو تو اپ لوگوں کی اپس میں صلح استانہ دار کی ذمہ داری ہوگی۔مثلا لڑائی جھگڑا،علاقائی تقسیم،ایک دوسرے کے درمیان اخوت اور بھائی چارہ قائم نہ کرنا مسافروں اور فقیروں کو ٹھکانہ نہ دینا وغیرہ ان جیسا مسائل استانہ دار جدونوں کی ذمہ داری ہوگی ان باتوں پر تمام قبیلے بخوشی راضی ہو گئے جو علاقہ اس وقت تک تقسیم نہیں ہوئے تھے ان علاقوں پر لڑائی جھگڑا جاری تھی۔

ٹاپک 4

*مشہور جہاد اخون درویزہ کے زیر نگرانی*

اس وقت اخون بابا رحمۃ اللہ علیہ نے اسی جنجو قبیلوں میں حافظ بابا رحمت اللہ علیہ اور کنڈاو بابا رحمت اللہ علیہ کو سارے قبیلوں کے سپہ سالار بنائیں کنڈاو بابا علیہ رحمت اور حافظ بابا علیہ رحمت ساری یوسفزی، مندنڑ، مہمند زئی ،اتمان خیل،اور جدون گدون قبائل کو اکٹھا کر کے ایک یادگار اصلاحی تقریر کی اور فرمایا اور فرمایا کہ ہم جہاد رضائے الہی کی خوشنودی کے لیے کرتے ہیں کسی بھی زمینی لالچ یا ذاتی مفاد کے لیے نہیں کرتے۔ اخون بابا رحمت اللہ علیہ نے اپنے لشکر کا سپہ سالار مشہور زمانہ کرامت سید جلال بابا جدون  عرف کنڈاو بابا کو غوربند نامی علاقہ بھیجا جب وہ  غوربن گیا تو وہاں پہ اس کا ملاقات  مدیخیل یوسفزوں سے ہوا۔اور انہوں نے اس کو اصلاحی دعوت دے کر مدیخیل یوسفزی میں شامل ہو کر ایک لشکر تیار ہوا۔مشترکہ طور پر دعوت چلائی ۔پھر وہاں کے باشندوں نے سید جلال  عرف کنڈاو بابا کی اصلاحی دعوت دیکھ کر زڑہ نامی علاقہ میں سیریاں  دے دی۔لیکن کنڈاو بابا نے لینے سے انکار کردیا۔اپنے ساتھیوں سمیت واپس ا کر خون درویزہ نے  اس کو پورن جانے کا حکم دیا پورن جانے کے وقت ان کے ساتھ بابوزئ شامل تھے۔اور انہوں نے دعوت اسلام اور اصلاح کی تبلیغ شروع کی جو سکھ اور ہندو مسلمان ہوتے تھے ان کو کلمہ پڑھاتے سچا مسلمان بن جاتے۔ پھر انکار کی صورت میں وطن چھوڑنے پر مجبور ہوتے ہیں اسی طرح حافظ بابا اور کنڈاو بابا اور ان کے اتحادی یوسفزیوں میں اخون بابا کے کہنے پر کٹکوڑ شواوو چکیسر اور ڈوما کا قلعہ فتح کرنے کا حکم دیا ان علاقوں پر جہاد کرتے ہوئے افراد یا تو اسلام میں داخل ہوتے یا یہاں کے رہنے والے ہندو سکھ اور فرنگی وطن چھوڑنے پر مجبور ہو کر چلے جاتے تھے

اس وقت ان سب لشکروں کا سپہ سالار سید جلال جدون اور عرف کنڈاو بابا اور اسماعیل عرف حافظ بابا تھے۔انہوں نے اپنے لشکر کے ذریعے ایسے علاقے، بستیاں اور محلے جن کے نام اج تک ساری دنیا میں مشہور ہے۔

ٹاپک 5

*1541 عیسوی کی روشنی میں کٹکوڑ کی تاریخی پس منظر*

اس دور میں "کٹکوڑ" کیکوڑ کے نام سے مشہور تھا۔اس علاقے کے کچھ نام ہندو کے ناموں سے مشہور ہے۔مثلا رام جانے میں "رام جان" جو پنڈت رہتا تھا۔اس کے نام سے رام جانے مشہور ہے۔اس دور میں ہندو اپنی سنسکرت زبان میں  رام سے "اللہ"سردار اور جان سے جہانوں کا خالق سردار کے معنی ہے۔ان ہندو کا بڑا سردار پنڈت تھا جو یہاں رہتا تھا۔اس کے علاوہ بوڑے،کونڑ،بامپوڑ،دکن،کوٹ وغیرہ اور پیغلوکی  ایک مادہ کے نام سے مشہور تھی۔اخون درویزہ بابا کے پیروکاروں نے پورے کٹکوڑ پر دعوت اسلام اور اصلاحی دعوت چلا کر ان میں سے چند ہندوں  اور سکھوں نے اسلام قبول کر کے مسلمان ہو گئے۔اور جنہوں نے اسلام قبول نہیں کیا وہ وطن چھوڑنے اور بھاگ جانے پر مجبور ہو گئے۔اس وقت میں کٹکوڑ میں جو مسلمان ہوئے ہیں وہ یہ ہے۔اکثر محققین کی تحقیق اور تشخیص کا دعویٰ ہے۔کہ وہ مکڑا خیل قوم کے نام سے مشہور ہے۔بعض کا کہنا ہے کہ وہ "کسان خیل" یا "کٹان خیل" کے نام سے مشہور ہے۔اسماعیل عرف حافظ بابا نے ایک کتاب لکھا تھا۔جہاد کے نام سے اس سے یہ اندازہ لگایا گیا ہے۔کہ کٹان خیل قوم یہاں کے  رہنے والے تھے اور مسلمان ہوئے تھے۔باقی سب قبائل1845 عیسوی کے درمیان مختلف مقامات سے ہجرت کر کے یا رسی وطن کو چھوڑ کے یہاں اباد ہوئے ہیں۔یہی پورا علاقہ ان مشہور اولیاء کرام اور خاص کر کٹکوڑ اخون درویزہ بابا کے کہنے پر اسماعیل عرف حافظ بابا اور سید جلال عرف کنڈو بابا کے ہاں تو ہندوں اور سکھوں سے ازاد کیے۔1845 عیسوی کے بعد یہاں زرگر، ڈس خیل،جولاخیل،اینگر،گجر،کوہستانی،کسان خیل،کٹان خیل،ابا خیل،عظمت خیل،حیا خیل،غورہ خیل،بارہ خیل،خدوخیل،گندوڑی یا کندرزی،ستلوڑی،بنوڑی،میاں،ملا،اور سیدان نئے زندگی بسر کرنا اور رہائش پذیری اختیار کیا۔1550 عیسوی سے یہاں یوسفزو کے کچھ قبیلے جدون گدون اور آستانہ دار سے یہاں رہائش پذیر تھے ۔

یہ اخون درویزہ رحمت اللہ علیہ کا دور تھا اکثر یہ قبائل ایک دوسرے سے لڑتے جھگڑتے اور زمینی لالچ کی وجہ سے یا ذاتی مقاصد کے لیے یا خانی فقیری کی تضاد میں تھے۔ تو اسماعیل عرف حافظ بابا اور سید جلال عرف کنڈو بابا نے خون بابا کے حکم سے پہلے شواوں میں دعوت اسلام چلایا وہاں کے بعض لوگوں نے  تو اسلام قبول کیا اور بعض وطن چھوڑ کر چلے گئے۔ان میں جو لوگ رہ گئے وہ "سٹارہ" یا"خٹارہ"کے نام سے مسلمان ہوئے یہ سٹارہ یا خٹارہ شواوو کے پرانے باشندہ تھے۔شواؤں میں بھی بعض نام پرانے ناموں سے یاد کیے جاتے ہیں۔ ان میں سے "انڑا موڑا" مشہور جگہ ہے۔اور بہرام کونڈ وغیرہ بھی یاد کیا جاتا ہے۔پھر ان کا لشکر چکیسر جا کر وہاں کے اس پاس علاقے کے لوگوں کو اسلام کی دعوت دی تو وہیں بھی بعض نے اسلام قبول کیا اور بعض وطن چھوڑنے پر مجبور ہو گئے۔وہاں کے چند نام ہندو اور سکھوں کے ناموں سے منسوب ہے۔ایک مشہور پہاڑ جس کا نام "بہن شاہ" ہے۔اس پہاڑ کا یہ نام اس لیے رکھا گیا کہ وہاں ایک بادشاہ اور اس کی بہن رہتی تھی۔اسی وجہ سے اس پہاڑ کا نام بھی بہن شاہ رکھا گیا۔ایک اور جگہ کا نام سیکھنی تھی۔اور یہ نام سکھ بادشاہ کے بہن کا نام تھا۔اس لیے یہ رکھا گیا۔وہاں پر بھی ان دونوں اولیاء کرام نے دعوت اسلام چلایا اور  تبلیغ کا دعوت چلایا کافی علاقے فتح کیے لوگوں میں اثر اور سروغ پیدا کرنے کی وجہ وہاں کے لوگوں نے بھی ان کو زمین بطور سیریاں دینے کی پیشکش کی۔لیکن دونوں نے لینے سے صاف انکار کیا۔

ٹاپک 6

*(4) مشہور ڈوما قلعہ کی فتح :-*

ان فتوحات کے بعد آخون بابا نے اپنا لشکر اسماعیل عرف حافظ بابا اور سید جلال عرف کھنڈاؤ با با کی سربراہی میں چکیسر سے روانہ کیا. ڈوما قلعہ تک جتنے بھی علاقے تھے سب فتح یاب کیئے ان سب فتوحات میں ڈوما " قلعہ کی فتح بہت ہی خطرناک موڑ پیش کرتی تھی۔  اس لئے کہ یہ ڈوما نام کافر نے بنائی تھی اور ہندوں ،سکھوں کا کمانڈ یہاں سے ہوتا تھا۔ اس وجہ

سے اس کا ختم کرنا  بہت ہی کھٹن تھا۔ آخر کار وہ قلعہ بھی اللہ کی مدد اور ان اولیائے کرام کی کوششوں سے فتح ہوا ۔ آخون با با نے اپنے دونوں سپہ سالاروں اسماعیل عرف حافظ بابا اور سید جلال عرف کھنڈاؤ بابا  کے لشکروں کو اکھٹے کر کے اللہ تعالٰی کا شکریہ ادا کیا۔ ڈوما کی قلعہ فتح کرنے کے بعد اخون با با نے اپنے سارے لشکر اور سپہ سالاروں کو اکھٹے کرکے ایک اصلاحی تقریر کی اور علاقوں کی تقسیم شروع کیں۔ اسی دوران ایک شخص نے کہا کہ پیچھے علاقے جو فتح یاب ہوئے تھے. وہی علاقوں پر دوبارہ کافر لوگ اثر انداز ہونے لگے ہیں۔ اخون درویزہ بابا نے غصہ ہو کر کہا کہ ابھی مجھے واپس جانے کے لیے مشکلات کا سامنا ہے لیکن میں صبح انشاءاللہ اسماعیل اور جلال اپنے کچھ  اور لوگوں کے ہمراہ بھیجوں گا۔وہ وہی علاقوں سے کافر بھگائیں گے۔اور ان کو یہ حکم دوں گا کہ کٹکوڑ میں ایک دفعہ پھر جہاد کر کے ٹھہر جاؤ۔اس لیے کہ اس علاقے میں ہندو راجاؤں کا ایک چھوٹا سا مندر تھا رام جان نام کے اس وقت کے ہندو کا مقدس مقام تھا۔اس میں وہ اپنے راموں کی عبادت کرتے تھے ۔جب مسلمانوں نے پھر بھاگ جانے پر مجبور کیے تو جب پھر بھی ان کو موقع مل جاتا۔واپس ا کر مسلمانوں سے لڑتے جھگڑتے تھے۔اور کئی قسم کے ظلم کرتے تھے۔اخون درویزہ بابا نے ان کو بھی یہ  بتایا کہ جب اپ رام جان  پہنچیں گے تو یہ رام گاہ مسمار کر کے بگاڑ دے اور یہاں پر نماز پڑھنے کے لیے اگر مسجد تعمیر کرنا مشکل ہو تو نماز کی نیت سے پتھریں سیدھا قبلہ کی رخ رکھیں۔

ٹاپک 7

*شیرشاہ سوری کے برصغیر پر تاریخی منظر*

جب ہم تاریخ کی روشنی دیکھتے ہیں تو 1500 عیسوی وہ دور تھا۔جس دور میں شیرشاہ سوری پورے برصغیر پر بادشاہ تھا۔اور سوریوں کی بادشاہی کا یہ دور ہر پشتون کے لیے سنہری اور فخر کا دور تھا۔ اور جو پشتون قبیلہ جدھر جاتا تھا جا سکتا اور اپنی خود مختار زندگی بسر کرتا تھا۔ لشکر کشی کرتا تھا۔علاقوں پر قبضہ کرتے تھے۔اور گاؤں محلہ فتح کرتے تھے۔اور وہاں مقیم ہوتے ۔کوئی رضائے الہی اور  کلمہ توحید پہنچانے کے لیے جہاد کرتے تھیں۔اور سب پشتون مسلمانوں کا راج تھا۔ہر پشتون کا راج ہندو اور سکھوں پر چلتی تھی۔شیرشاہ سوری  ایک مسلمان بہادر اور عظیم لیڈر تھا۔اس لیے ان کو کفر سے نفرت اور اسلام پھیلانے سے محبت تھا۔انہوں نے ہندوں مرہٹوں،سکوں اور مغلوں کو لاٹھیوں کے ذریعے مسلمان کرتے تھے۔جو مسلمان ہوتا اس سے پیار محبت کرتا۔جو مسلمان نہ ہوتے اس سے لڑتے تھے۔اس سختی کے باوجود ہندوں اور سکھوں نے شیرشاہ سوری کی ایمانداری اور بہادری پر فخر کرتے تھے۔شیرشاہ سوری کے بعد برصغیر میں ایسے مواقع مسلمان پختونوں کو نہیں ملا۔جو سوری خاندان کے دور میں ملا تھا ۔برصغیر میں شیرشاہ سوری خاندان کے یادگار بادشاہی کی تاریخی دور 1539 عیسوی ہے۔شیر شاہ سوری نے 4 سال حکومت کی۔اور سوری خاندان نے برصغیر پر 18 سال حکومت کی۔سوری دور حکومت 1539 سے لے کر 1557 عیسوی تک تھا ۔

ٹاپک 8

*تاریخی مشاہیرو کی قبریں جائے مسکن*

1.ملک احمد (مندڑ) کا روضہ مبارک اللہ ڈنڈ سوات میں ہے۔

2. شیخ ملی کا قبر غوربند میں ہے۔

3.سید جلال عرف کنڈو بابا اور اسماعیل عرف  حافظ بابا دونوں کی قبریں ایک ہی جگہ کٹکوڑ  اور شواوو کے سرحد جو کہ اج کل وہ قبرستان کھنڈو بابا کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔وہیں یہ دونوں اولیاء کرام مدفون ہیں۔

ٹاپک 9

*کنڈاو بابا اور حافظ بابا کی ان ناموں کی وجہ تسمیہ*

یہ اخون بابا کے علاوہ کئی اور جنگوں میں مختلف قبلوں کے ساتھ لڑتے تھے۔اور بہت سے قبیلے ان کے ساتھ شریک تھے۔مثلا یوسفزئی،مندڑ،گلگیانی،مہمند،اتمان خیل اور جدون یا گدون کہ بہت سے جنگجو قبیلے ان قائدین کے اتحادی تھے۔جب یہ دونوں  اخون بابا کے لشکر میں شریک ہوئے۔تو ان دونوں کا ایک ایسا مزاج تھا۔کہ باقی لشکر ان کو دیکھ کر حیران ہوتے تھے۔سید جلال جدون کا کردار ایسا تھا۔کہ جب جنگ میں مشکل محاذ ہوتا تو سید جلال جدون اگے جاتا تھا۔محاذ پر کھڑا ہر دشمن کا مقابلہ کرتا تھا۔پشتو زبان میں کھنڈاؤ ایک ایسے محاز کو کہتے ہیں۔کہ جس پر راستہ تنگ ہو یا تو بڑے پہاڑوں کے درمیان تنگ درہ ہو اس کو کھنڈاؤ کہا جاتا ہے اور یہ اکثر اس جگہوں پر کھڑا ہوتا جہاں دشمن انے کے امکانات زیادہ تھے ۔وہاں پر عام ادمی کھڑا نہیں ہو سکتا۔ہمیشہ کے لیے سید  جلال جدون وہ  کنڈاو سنبھال لیتا۔اس لیے اخون بابا نے اس کو کئی ناموں سے پکارا۔جو یہ ہے سید، پیر،استانہ دار اور کنڈاو بابا زیادہ مشہور ہیں۔اس کا صاف معنی یہ ہے کہ سخت محاذ کا دادا۔

اصل نام سید جلال جدون تھا لقب کے دو مشہور ناموں سے یاد کیے جاتے تھے۔استانہ دار کا مطلب ہے امن کا گہوارا یا امن کا گھر۔استانہ دار فارسی زبان کا لفظ ہے۔اور اس کے بے شمار معنی ہیں۔استانہ دار کے گھر سے عام گھر مراد نہیں بلکہ وہ  گھر مراد ہے جس کے دروازے پر ہر قسم اور ہر وقت سائلان کھڑے اور حاضر ہوتے ہیں۔اور یہ ان گھروں سے ان لوگوں کے رہن سہن اور کھانے پینے کے اشیاء ملتے ہیں۔ان کے گھروں اور لوگوں میں یہ بات بھی فخر سے واضح ہے۔کہ یہ ایک ایسے افراد کے مددگار حمایتی بنے جاتے ہیں جو ہر قسم بے یارو مددگار بے اسرا بغیر اولاد لاوارث زندگی بسر کررہے ہیں۔ان افراد کی طرف سے ان لوگوں کا قابل برداشت مدد فراہم کی جاتی ہے۔ان جدونوں کا یہ بھی ایک قابل فخر بات ہے۔کہ یہ بگڑے ہوئے خاندانوں کے درمیان اصلاح و مشورہ کرتے ہیں۔پرانے سے پرانا دشمنی بھی بھائی چارے اور دوستی میں تبدیل کرتے ہیں۔زمینی فساد یا تقسیم کے فیصلوں میں بھی یہی لوگ دوسروں سے اگے ہوتے ہیں۔یہی روایات ان لوگوں میں اباد و اجداد سے ارہی ہیں۔

ٹاپک 10

*سید جلال عرف کنڈاو بابا اور اسماعیل عرف حافظ بابا کا ابائی وطن اور قومیت (نیشنلٹی)*

سید جلال سید جلال عرف کنڈاو بابا کا تعلق گدون نامی جگہ کے دو مشہور زمانہ بزرگ سالار اور منصور جو کہ دونوں سگے بھائی تھے۔ان سے ہے۔وہ دونوں اب بھی سالار اور منصور کے نام سے پکارے جاتے ہیں۔اصل میں یہ فرقوں کے نام نہیں ہیں بلکہ انسانوں کے نام ہیں بہرحال خاص مشہور زمانہ کنڈاو بابا کا تعلق سالار خاندان سے تھا۔اور اب تک وہ نسل در نسل چلتے ارہے ہیں۔پھر ان دونوں سے بہت سے ذیلی شاخیں ہیں۔لیکن کنڈاو بابا کا خاندان عیسی خیل خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔اس کے اباد و اجداد گدون میں گندف نامی جگہ میں رہتے تھے۔ ان لوگوں کا ابائی وطن گندف ہے۔انہوں نے بشمول ایک لوہار اور جیولر سمیت یہ اپنا ابائی وطن دین اسلام کی خاطر چھوڑ کر اشاعت اسلام اور اصلاح مسلمان مختلف علاقوں میں جہاد اور دعوت اسلام کرتے ہوئے اخون بابا کے لشکر میں شامل ہوئے۔پہلے پہل جس طرح کے گزر ہوا ہے انہوں نے اپنا تشکیل الپوری، بیلے بابا پھر وہاں اپنا شہرت اور کرامت نہ بتانے کی وجہ سے کیونکہ کرامت اور شہرت بتانا ان لوگوں کی پیشہ اور پسند نہیں تھا۔اس لیے وہی مقامات چھوڑ کر جانا "کیکوڑ" کا تھا۔لیکن راستے میں اسی وقت ان علاقوں کٹکوڑ، شواوو اور اس کے مضافات میں ظلم اور بربریت کا چرچا تھا۔اپنے رہنما اخون بابا کے کہنے پر یہاں اپنا جدوجہد جاری رکھا۔اللہ کے فضل و کرم سے یہاں اسلام کا ظہور ہوا۔اسلام پھیلایا اور کافروں کو یہاں سے بھگایا۔دونوں مشہور اولیاء اللہ کٹکوڑ اور شواوو کہ سرحد میں دفن ہے دونوں کے قبریں ایک ہی قبرستان میں ہیں۔ان کے باقی ماندہ خاندان جو کہ مختلف پشتوں تک جا پہنچتی ہے۔اسی وقت سے استانہ دار خاندان کی حیثیت سے یاد کیے جاتے ہیں۔کیونکہ گدون نامی جگہ سے ائے ہیں اسلیے کٹکوڑ  گاؤں سے ان لوگوں کا اغاز ہوا۔وہ گدونی  کے نام سے مشہور ہے۔یارہے اخون بابا قوم سے یوسفزی تھا ۔

ٹاپک 11

*کٹکوڑ میں ان جدونوں ، گدونوں استانہ دار کی رہائش پذیری اور پھر تبادلہ، کرگردگی*

مشہور زمانہ کرامت و صاحب کشف سید جلال عرف کنڈاو بابا کی نسل نے گدونی نامی جگہ سے اغاز کیا۔تین چار مشہور پشت ہستیاں ایک ہی جگہ گزرے ہیں۔ان جدون فریق کے سید جلال عرف کنڈاو بابا کہ جو صاف پہلے سے چلے ارہے تھے۔بغیر جہاد کے تو وہی تمام ان خاندان میں بدرجہ اتم پائے جاتے تھے ۔مثلا مہمان نوازی،جرگہ ،معاہدہ،بے اسر لوگوں کی حمایت،اور ان کے ساتھ ہاتھ بٹانا،عام انسانوں کو دینی تربیت،اللہ تعالی سے لوگوں کے لیے دعائیں مانگنا،عام خاص لوگوں کی ضروریات پوری کرنا،بے سایہ کو مناسب سایہ دینا،لوگوں کے لیے عدل و انصاف کے ساتھ فیصلے کرنا،نیز جو پرانے صفات خصلتیں ان خاندان کو گزشتہ خاندان سے ملے تھے۔سارے کے سارے پر پابندی سے زندگی گزارنا تھا ۔اس کے بعد پھر ایک ہی گاؤں میں اکٹھا رہنا نصیب نہیں ہوا یہ بھی یاد رہے کہ یہ گدونی نامی جائیداد اس میں جو ابھی رہتے ہے صرف اس کا تھا۔بعد میں اس سے کچھ خاندان مختلف محلوں کو چلے گئے مثلا ماموں،سلیمان بانڈا،باغیچہ وغیرہ کو تشریف لے گئے۔پورے خاندان کے مشہور ہستیوں سے اللہ کے حکم بطور امانت کرامت مختلف تاریخیں  یاداشت بطور نمونے سنہرے الفاظ لکھنے کے قابل ہے۔سید جلال عرف کنڈاو بابا سے بھی یہ بات عام چلی ائی تھی۔کہ میرے کرامت کے بعد ہر پشت میں ایک صاحب کشف و کرامت ساتویں پشت تک ضرور ہوگا۔اور یہ سلسلہ بالکل سچ ثابت ہوا۔بعض پشت کو صاحب کرامت محنت کے ذریعے اور بعض پشت کو خداداد کی طرف سے کرامت اور کشف ملتے تھے۔خداداد کشف و کرامت میں مشہور زمانہ ولی محمد انور ولد عتیق شاہ جو کہ مجذوب بابا کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔اپ کا اصل نام مذکورہ تھا۔البتہ لقب اور مشہور مجذوب بابا کے نام سے تھا۔اپ نے  بھی ایک ایسا مشہور صاحب کشف و کرامت کا تاریخ پورے ضلع سوات میں رقم کر رکھا تھا۔جو کہ تا قیامت زندہ و تایندہ  رہے گا۔

ٹاپک 12

*مجذوب لفظ کے معنی اور مراد*

محمد انور بابا کا لقب "مجذوب" تھا۔

جن کے معنی ہیں اللہ کا پیارا،محبت اور الفت میں ڈوبے ہوئے کے ہیں ۔وجہ وضاحت یہ تھی کہ اپ نے وفات تک زیادہ تر عمر خاموشی اور عبادت میں گزارتے تھے۔پہلے پہل اپ بہت سادہ زندگی بسر کرتے  تھے۔کرامت،کشف کے اثرات پوشیدہ چھپے ہوئے رکھتے تھے۔لیکن اس وقت کے ایک مشہور زمانہ ولی کرامت، صاحب کشف اور عالم جس کا تعلق کانا نامی جگہ سے تھا۔ جو بعد میں پیر اباد میں تبدیل ہوا۔پیر صاحب کے نام سے تھا ۔اس نے مجذوب بابا کی کرامت مزید چھپا رکھنا برداشت نہیں کیا۔اور یہاں کا کٹکوڑ اکر  مجذوب بابا سے کہا کہ اپنا کرامت پوشیدہ مد رکھنا۔لوگ بعض حالتوں میں نقصان اٹھا رہے ہیں۔پیر صاحب نے ان کے کرامت لوگوں کے سامنے ظاہر کر دیے۔اور اللہ تعالی کے حکم پر لوگوں کے مسائل حل کرنے کے لیے دونوں نے اپنے مابین علاقے تقسیم کیے۔دونوں کے درباروں میں ہر وقت ہجوم جوق در جوق انا جانا شروع ہوا۔بنڑخوڑگی بطور حد برید مقرر ہوا ۔

وہاں سے کٹکوڑ تک لوگ مجذوب بابا کے دربار میں حاضر ہوتے تھے۔اور وہاں سے اس سائیڈ والے بندے پیر صاحب کے دربار میں حاضری دیتے تھے۔دونوں اللہ تعالی کے نیک اور شریف بندے تھے۔اللہ تعالی سے لوگوں کی ضروریات کے لیے دعائیں مانگتے تھے۔اللہ تعالی نے تمام سائلوں کے شرعی حاجات،مقاصد،اور ضروریات اپنے حکم پر پورا کرتے تھے۔جیسا کہ یہی دنیا عارضی ہے۔یہاں سے پناہ ہونا ہے۔تو پہلے وہ مشہور زمانہ کرامت و کشف پیر صاحب نے اس دنیا سے کوچ کر گئے۔تو پھر دونوں تقسیموں کا حاضری مجذوب بابا کے دربار میں ہوتا تھا۔یہ سلسلہ کئی ٹھوس سالوں تک رہا۔اخر کار کچھ سالوں بعد مجذوب بابا بھی اس دنیا سے رحلت کر گئے۔اپنے ہاتھوں سے تعمیر کیا ہوا مسجد بھی "مجذوب بابا" کے نام سے منسوب ہے۔اسی مسجد کے قریب سپرد خاک کر دیا گیا۔

لیکن اللہ کے فضل و کرم اور اولیاء اللہ کی دعاؤں سے اب بھی وہ تمام صفات اور خصوصیات بدرجہ اولیٰ اسی جدون عیسی خیل فرق بہ مشہور استانہ دار میں جاری و ساری ہے۔جو کہ ان کو ورثے میں ملی تھیں۔اور انشاءاللہ تا قیامت جاری و ساری رہے گی.

*انشاءاللہ*[1]




ڈاؤنلوڈ

ترمیم

اس سافٹ ویئر کے ڈاؤنلوڈ کا مکمل طریقہ اس صفحہآرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ kiwix.org (Error: unknown archive URL) پر موجود ہے اور یہیں سے ڈاؤنلوڈ بھی کیا جا سکتا ہے۔
فی الوقت اردو ویکیپیڈیا کا حجم 935 ایم بی ہے، جبکہ انگریزی ویکیپیڈیا (بلاتصویر) کا حجم 18 جی بی ہے۔

خصوصیات

ترمیم
  1. بغیر انٹرنیٹ رابطہ کے تلاش کی سہولت دستیاب ہے۔
  2. کمپیوٹر کے اکثر اشتغالی نظام مائیکروسافٹ ونڈوز، لینکس، میک وغیرہ پر بخوبی کام کرتا ہے۔
  3. بطور PDF مضامین محفوظ کیے جا سکتے ہیں۔

خطا یا اضافہ

ترمیم

لإضافة أي نوع من التهديد أو الراحة إلى البرنامج، باللغة الإنجليزية هنا[مردہ ربط] يمكن تقديم الطلب۔

بیرونی روابط

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم
  1. خان علی (ڈایری)۔ جدونوں کی تاریخ اور فتوحات۔ پشاور: جدون رایٹر۔ صفحہ: 16۔ ISBN سلطانی تاریخ جدون تأكد من صحة |isbn= القيمة: invalid character (معاونت)