گرجر (انگریزی Gurjar، ہندی गुर्जर، پنجابی گجر ، ہندوکو اور کشمیری گوجر ، ترک غزز، جارجین گرجی ، یونانی گرجارین ، ) گرجر ، گجر یا گوجر ہندوستان پاکستان اور افغانستان میں بڑی تعداد میں موجود ہیں اور ان کا ایک بڑا حصہ گوجری زبان بولتاہے ۔ تاریخ کے مستند ذرائع انھیں اس خطے کی سابق حکمران قوم کے طور پر تسلیم کرتے ہیں ۔ انڈیا میں صوبہ گجرات ، پاکستان کے شہر گجرات ، گجرانوالہ ، گجرخان ، گجر گڑھی سمیت ہزاروں مقامات گجر قوم کی اس خطہ میں قدیم موجودگی، ان کی تاریخ اور تہذیب اور حکمرانی کا منہ بولتا ثبوت ہیں ۔

گجر قدیم آریاؤں کے حکمران طبقہ کھشتری کے نام سے جانے جاتے تھے۔ مہابھارت میں میں گجر کا ذکر موجود ہے اور ویدوں میں بھی ذکر ملتا ہے۔ لفظ گرجر کے معنی سنسکرت میں دشمن کو تباہ کرنے والے کے ہیں ۔ اس سے یہ ثابت ہوتاہے گجر آریاؤں سے الگ نہیں ۔ حال ہی میں جینیٹک سائنسز اور تاریخی شواہد پر مبنی ایک کتاب "Forbearers of the Aryan Legacy: The Gurjars" شائع ہوئی ہے ۔ اس کے صفحہ 29 پر لکھا ہے :

Their Strong physique, fair skin tone, sharp features, long pointed nose and prominent R1a1 Genes put them very close to the ancient Aryans. They are divided in approximately 360 different clans such as Kusana, Khutana, Chauhan , Cheche, Bajjar, Baisle, Punwar, Tomar, Bhadana, Huns and Nagars to name a few. Most of their clans have ruled a large part of ancient and modern Aryavrata during the last 5 Millennia. It is a strictly endogamous tribe and follows clan exogamy (that is one of the notable features of this tribe which indicate their pure Aryan descent). When marrying, one has to spare at least 5 closely related clans to his own. This kind of strict clan exogamy can only be found among the Gurjars in the subcontinent and no other caste or tribe seems to follow this practice to such an extreme level.

[1]

قدیم گجر دیش ترمیم

راج ترنگنی کو ہند میں سب سے مستند تاریخ سمجھا جاتا ہے جو 1142ء میں پنڈت کلہن نے سنسکرت زبان میں تحریر کی۔اس میں مصنف نے لکھا کہ شنکر ورمن نے گجر بھومی پر حملہ کیا اور گوجر بادشاہ لکھن پال  نے شنکر ورمن کو موجودہ ٹیکسلا کا علاقہ دے دیا ۔  [2]یہ لکھن گجر راجا بھوجا (گرجر پرتیہار مہر بھوج) کا ماتحت راجا تھا۔راج ترنگنی کا مصنف ذات کا پنڈت تھا۔اس نے اس بات کی تصدیق کی کہ پنجاب ، سرحد اور کابل تک کا علاقہ گجر بھومی کہلاتا رہا ہے ۔ راج ترنگنی کا ترجمہ مسٹر اسٹین نے کیا اور پنجاب ، سرحد اور کابل کے تمام علاقوں کو گجر دیش قرار دیا ۔[3]

گجرات (انڈیا) ، گجرات ( پاکستان ) ، گجرانوالہ ، گجر خان ، گجر گڑھی ( مردان ) کھاریاں، راولپنڈی سمیت بے شمار مقامات جو اس علاقے میں گجر قوم اور اس کی گوتوں کے نام سے موسوم ہیں گجربھومی کی ہی باقیات ہیں ۔ انگریز مورخ سر ڈینزل ابٹسن  گجروں کا بہت مخالف رہا لیکن جب آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا کی رپورٹ آنا شروع ہو ئیں تو اسے بھی گلوشری ٹرائبس اینڈ کاسٹس پنجاب اینڈاین ڈبلیو ایف پی میں یہ لکھنا پڑا :

Recent investigation has shown that the Pratihar (Padhyar or Prihar) was really only a section of the Gujars and this fact raises a strong presumption that the other fire-born clans the Solanki, Panwar and Chauhan must also be of Gujar origin.  The Tunwars must be assigned a similar origin. The Gojar Empire was of great extent at the beginning of the 9th century. It included or dominated Bhoja (lower Himalyas) , Matsya ( Lahore area), Madr ( Sialkot area), Kuru ( Haryana), Yadi ( Attok and Hazara), Yavan ( Sibi Baluchistan and kira Kingdoms hilly area) Practicully the whole Panjab. The Gurjars gave dynasties to Kanoj, Ajmer and other States. Now it is undoubtedly true that the Gojar is one of the few great castes or races of Northern Sub-Continent.

پنڈت کلہن نے جس علاقے کو گجر بھومی قرار دیا  یہ کب سے گجر بھومی تھا اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ قدیم کتاب "پنچ تینتر " جو قبل مسیح میں لکھی گئی اس میں گرجارا دیشہ کا ذکر آیا ہے۔ جس کی حدود میں یہ جہلم اور گجرات کے علاقے بھی آتے ہیں۔مسٹر ویش راج بھاٹی نے اپنی کتاب " مریادا کی دیواریں " میں لکھا ہے کہ جب سکندر نے حملہ کیا تو مغربی پنجاب میں گجر رھتے تھے۔ سکندر کا مقابلہ راجا پورس سے ہوا ۔ پورس یونانی تلفظ ہے ۔ اصل لفظ " پوڑ " ہے۔ اور پوڑ گجر قوم کی گوت ہے ۔ آج بھی اس علاقے میں پوڑ گجروں کی کافی تعداد موجود ہے ۔ یونانی ذرائع کے مطابق سکندر اور پورس کے درمیان   جنگ جس مقام پر ہوئی تھی وہ دریائے جہلم کے کنارے ایک مقام تھا جس کو آج ٹبہ مونگ کہتے ہیں۔یہ علاقہ ضلع گجرات کا حصہ ہے ۔  مورخین کے مطابق اس وقت گجرات کی ریاست میں جہلم کا علاقہ ، کھاریاں ، سرائے عالمگیر اور گجرانوالہ سمیت دیگر کئی علاقے شامل تھے۔ انگریز مورخ جنرل کنگھم کی تحقیق کے مطابق گجرات شہر کی بنیاد 460 قبل مسیح میں گجرراجہ بچن پال نے رکھی ۔ اس راجا کی موت 425قم  میں ہوئی ۔ اس کے بعد رانی گجراں نے گجرات پر حکومت کی ۔ سکندر یونانی نے 323 قم میں راجا پورس سے مقابلہ کیا ۔ جس سے ثابت ہوتا ہے کہ سکندر کے حملہ کے وقت یہ علاقہ گجرات کہلاتا تھا ۔ 2010ء میں محمد احسان چھینہ نے ایک کتاب بعنوان" گجرات اور شاہدولہ ولی" لکھی جس میں اس نے لکھا کہ پورس راجا بچن پال کی اولاد میں سے تھا جو گجر راجا تھا اور رانی گجراں اس کی ملکہ تھی جس نے راجا بچن پال کے بعد گجرات پر حکومت کی ۔ رانی گجراں کے بعد پورس کی حکومت گجرات پر ہوئی ۔ کتاب ضلع گجرات کا مصنف ڈاکٹر احمد حسین احمد قریشی صفحہ 129،130 پر لکھتا ہے "گجرات شہر کے بارے بتایا جاتا ہے کہ یہ سکندر اعظم کے وقت بھی آباد تھا اور اسے " گجرات " کہتے تھے۔ فردوسی نے شاہنامہ میں لکھا ہے کہ سکندر کے حملہ ایران کے وقت ہخامشی بادشاہ داراسوم نے ھندی بادشاہ "فور" سے فوجی مدد طلب کی۔ پارسیوں کی یہ عادت تھی کہ وہ "پ" کو "ف" میں بدل کر بولتے اور لکھتے تھے ۔ جیسے پارس کو فارس ، پارسی کو فارسی وغیرہ ۔ اسی طرح انھوں نے پوڑ کو فور لکھا ۔ کتاب "خوتائے نامک " بذات خود ایک قدیم پہلوی کتاب ہے جو 600ء کے لگ بھگ لکھی گئی۔ اس میں پورس کے حوالے سے لکھا ہے کہ فور کہتا ہے کہ میں" فور" (پوڑ) ہوں اور فوروں ( پوڑوں) کا بیٹا ھوں۔ سنسکرت میں پور یا پوڑ کو پورو لکھا گیا ہے ۔ رگ وید 7.96.2 میں لکھا ہے کہ پورو ایک قبیلہ تھا جو سرسوتی دریا کے کنارے آباد تھا۔چینی مورخ ہیون تسانگ نے جہلم کو پاراوت یعنی پوڑوں کا علاقہ لکھا ہے ۔ رگ وید ( 2،21-2) میں بھی پاراوت کا ذکر آیا ہے۔ پنج ومش برھمن ( 11،14-9) میں بھی پاراوت کا لفظ آیا ہے۔ تاریخ پاکستان کا مصنف یحییٰ امجد صفحہ 96 پر لکھتا ہے کہ " پوڑ قبیلہ نہ صرف دوآبہ چچ میں آباد تھا بلکہ رچنا دوآب میں بھی پوڑوں ہی کا غلبہ تھا۔ راجا پورس کے ہاتھیوں کے سپہ سالار گجگاہیہ یعنی ہاتھی نشین کہلاتے تھے۔ گجگاہیہ قوم کے لوگ گجرات شہر میں آج بھی آباد اور پرانے باسی ہیں۔وراھمی ہیرا کی برہد سمہتا (26-27-4) نے پوڑوں کو ٹکشا سلا  (ٹیکسلا)اور پشلاوتی  (پشاور)کے لوگ بتایا ہے۔ ٹیکسلا اور پشاور شہر گجروں کے آباد کردہ ہیں۔ روزنامہ جنگ 1983ء میں چوہدری فضل الحق کا مضمون گواہی دیتاہے کہ مغربی پنجاب میں پہلے بھی اور اب بھی عام روایت ہے کہ پورس گجر تھا ۔

کشان سلطنت ترمیم

پہلی صدی عیسوی میں کسانہ گجروں کی عظیم الشان سلطنت کا ذکر ملتا ہے جسے کشان سلطنت کے نام سے تاریخ میں جانا جاتاہے ، کشان سلطنت میں چین کا موجودہ صوبہ سنگیانگ ، تاجکستان ، ترکمانستان اور آذربائیجان کے کچھ علاقے ، شمالی ایران ، افغانستان ، پاکستان ، کشمیر اور وسطی اور شمال مغربی ہندوستان کے علاقے شامل تھے ۔ اس کا نامور راجا کنشک تھا جس نے 22 مارچ 79ء کو ایک کیلنڈر جاری کیا ۔ اسی نسبت سے دنیا بھر کے گجر 22 مارچ کو انٹرنیشنل گجر ڈے مناتے ہیں ۔ کشان سلطنت وسط ایشیا سے لے کر گجرات ( انڈیا ) تک پھیلی ہوئی تھی ۔

گرجر دیش ترمیم

چوتھی صدی عیسوی میں کشان سلطنت کے زوال کے بعد گجر قوم کی مختلف ریاستیں وجود میں آئیں لیکن ان میں سب سے بڑی اور طاقتور ریاست گرجر دیش کے نام سے ہی قائم ہوئی جو 550 سے لے کر 13ویں صدی تک قائم رہی ۔ اس سلطنت کے حکمران گرجر پرتہار کہلائے ۔ برصغیر کی تاریخ کے کلاسیکل پیریڈ میں گرجر پرتہار حکمرانوں کو ایمپیریل پاور کی حیثیت حاصل تھی۔کے ایم منشی جو خود برہمن تھا اس نے اپنی کتاب Glory That Was Gurjara Desa میں لکھا ہے برصغیر کی تاریخ کا سب سے سنہرا دور گرجر دیش کا دور تھا ۔ [4]

گرجر دیش کے جنوب میں راشٹر کوٹا حکومت تھی جس کے راجا گوندا سوم (793ء تا 814ء ) نے اپنی یاداشت میں لکھا ہے اس کے دادا کی جنگ گرجردیش کے گجر حکمرانوں سے ہوئی تھی اس نے لکھا یہ گجر بادشاہ کھشتریوں میں اونچا درجہ رکھتے تھے ۔

1۔ ناگ بھٹ اول (730ء-760 ء) ترمیم

اس نے اپنا کنٹرول منڈور سے مشرق اور جنوب میں بڑھایا جس کے نتیجے میں پڑوسی ریاست مالوا کو گوالیار تک اور گجرات کو بھڑوچ کی بندرگاہ تک فتح کر لیا ۔ اس کے بعد اس نے مالوا کے شہر آوانتی کو اپنا دار الحکومت بنایا۔اسی دوران سندھ سے مسلسل عربوں کے حملے ہو رہے تھے لیکن ناگ بھٹ اول نے عربوں کو دریائے سندھ سے آگے نہیں بڑھنے دیا۔738ء میں سپہ سالار جنید کی قیادت میں ایک جنگ ہوئی لیکن انھوں نے ناک بھٹ سے بری طرح شکست کھائی ۔ کچھ عرصہ بعد مسلم سپہ سالار تمین نے پھر حملہ کیا ناگ بھٹ اول نے اس کو بھی شکست دے دی ۔

گوالیارکے قلعے سے برآمد ہونے والی تحریروں میں یہ لکھا ہوا ہے کہ ناگ بھٹ اول نے عربوں کی ایک بڑی فوج کو شکست دی تھی ۔ اس بڑی فوج میں 15000 گھڑسوار ، 5000 پیادہ ، 2000 اونٹ سواروں کے علاوہ بڑی تعداد میں محاصرہ آرٹلری بھی شامل تھی۔ اس کے علاوہ دمشق سے آنے والا شام کے گھڑسوار کا ایک دستہ بھی تھا ۔ مسلم فوج میں عرب دستے کے علاوہ سندھ کے ہندوؤں اور ترک باشندوں کے دستے بھی شامل تھے ۔

2۔ ناگ بھٹ دوم (805ء تا 833ء) ترمیم

اس نے بہار کو بھی پالا حکمرانوں سے چھین لیا اور وسطی ہندوستان کو بھی اپنی قلمرو میں شامل کر لیا ۔ ناگ بھٹ دوم نے قنوج کو دار الحکومت بنایا اور اس کے عہد میں گرجر پرتہار سلطنت جنوبی ایشیا کی طاقتور ترین سلطنت بن گئی ۔

3۔ رام بھدر ہ (833ء تا 836ء) ترمیم

ناگ بھٹ دوم کے بعد اس کے بیٹے رام بھدرنے حکومت سنبھالی ۔ لیکن صرف تین سال حکومت کرنے کے بعد اس نے عنان حکومت اپنے لائق اور فائق بیٹے مہیر بھوج کو دے دی ۔

4۔ مہر بھوج (836ء تا 886ء ) ترمیم

مہیر بھوج اور اس کے بیٹے مہیندر پال کے عہد میں گرجر پرتہار سلطنت کی سرحدیں مشرق میں بنگال اور مغرب میں دریائے سندھ تک پھیل گئیں ۔ جبکہ جنوب میں دریائے نربدا سے لے کر شمال میں ہمالیہ تک کے علاقے ان کی قلمرو میں آ گئے ۔ اس دور میں گرجر پرتہار سلطنت خوش حالی اور طاقت کے عروج تک پہنچی۔ اس دور کو گرجر پرتہار سلطنت کے عروج کا دور کہا جاتاہے اور مہیر بھوج کو تاریخ میں گرجر اعظم کہا گیا ہے۔اس عرصہ کے دوران امپیریل گرجر پرتہار خاندان نے آریا ورتہ کے مہاراجا دھیرج یعنی شہنشاوں کے شہنشاہ کا خطاب حاصل کیا۔عرب مورخ سلیمان نے اسی کا نقشہ کھینچتے ہوئے لکھا ہے کہ :

" یہ 851ء کی بات ہے ۔ میں نے دیکھا کہ گجر حکمران نے متعدد فوجیں رکھی ہوئی ہیں ۔ کسی دوسرے ہندوستانی شہزادے کے پاس اتنے گھڑ سوار نہیں ہیں جتنے اس گجر راجا کے پاس ہیں ۔ اس کے پاس بے شمار دولت ہے اور اس کے پاس بے شمار اونٹ اور گھوڑے ہیں ۔ "

اس نے یہ بھی لکھا کہ وہ عربوں سے بالکل بھی دوستی نہیں رکھتا لیکن اس کے باوجود وہ تسلیم کرتاہے کہ مسلمانوں کا سیاسی نظام سب سے بڑھ کر ہے ۔ عرب مورخیں گجروں کو اپنا دشمن قرار دے رہے تھے جبکہ دوسری جانب عرب سیاح اور تاجر انہی گجر بادشاہوں کی جن الفاظ میں تعریف کر رہے تھے وہ آج بھی عرب تاریخ میں محفوظ ہیں ۔ ایک اور عرب سیاح نے اپنے سفر نامہ میں لکھا ہے :

"اس سے ملحق الحدود ایک اور بادشاہ ہے جس کو گرجر بادشاہ کہا جاتا ہے اس کے ملک میں عدل اس قدر عام ہے کہ اگر سونا راستے میں ڈالا جائے تو اس کے عدل کی وجہ سے لوگوں کو یہ اندیشہ نہیں ہوتا کہ کوئی اس سونے کو اُٹھا لے گا ۔۔ عرب تجارت کے لیے اس کے پاس جاتے ہیں وہ ان پر احسان کرتاہے ، ان سے مال خریدتاہے ، اس کی رعایا اور عرب آپس میں سونے اور درہم میں لین دین کرتے ہیں۔۔۔۔۔۔ جب عرب ان سے خرید و فروخت کر چکتے ہیں تو بادشاہ سے التجا کرتے ہیں کہ ہمارے ساتھ کوئی بدرق (محافظ دستہ) بھیجا جائے جو ہمیں بحفاظت سرحد پار پہنچا دے لیکن بادشاہ کہتا ہے کہ میرے ملک میں کوئی چور نہیں ہے آپ بے فکر ہو کر جائیں، اگر آپ کے مال کو کوئی نقصان پہنچے تو آکر مجھ سے لے لیں۔میں آپ کا ضامن ہوں ۔ وہ بادشاہ بڑے تن و توش والا ہے ۔ اس کے ملحق الحدود بادشاہوں میں سے اس سے زیادہ کوئی بہادر نہیں۔وہ فنون حرب میں بڑا مدبر ہے "[5]

ھلال خیل ،، گجر قوم نہ صرف نسلی طور پر بلکہ وراثتی طور پر بھی آریائی روایات کی پاسدار تھی، اس کی اقدار ، اخلاق اور روایات کی دشمن بھی تعریف کرتے تھے۔ شاید یہی وجہ تھی کہ اسی دور میں عرب مورخ اور سیاح ابو جنید نے گجروں کی دلیری ، بے باکی ، بہادری ، اصول پسندی اور انسانیت دوستی کو دیکھتے ہوئے حسرت ظاہر کی تھی کہ " کاش میں بھی گجر ہوتا "

مغربی تاریخ دان John Keay اپنی کتاب The India میں لکھتا ہے کہ جسے آج راجستھان کہا جاتاہے یہ پہلے گجروں کے ملک کا حصہ ہوا کرتا تھا اور اس ملک کا نام گرجر دیش تھا ۔ یہاں کے گجروں کو پرتہار کہا جاتا تھا اور پرتہار ایک خطاب تھا جس کا مطلب تھا محافظ ۔[6]عرب تاریخوں میں بھی قنوج کے گہلوٹ اور گرجراترا (موجودہ راجستھان)کے چوہانوں کو گرجر لکھا گیا ہے ۔

ہرش وردھن (606ء تا 647ء)کے درباری شاعر بھان بھٹ نے اپنی کتاب میں ذکر کیا ہے کہ ہرش کے باپ کا گجروں کے ساتھ سخت مقابلہ رہتا تھا۔ اس کا اشارہ گرجر پرتہار کی طرف ہی تھا کیونکہ اس دور میں وہاں گرجر پرتہاروں کی ہی حکومت تھی ۔

چینی مورخ ہیون سانگ نے اپنے سفرنامہ میں لکھا کہ 641ء میں مالوا ، ولبھی پور ، آنند پور ، سوراستر ، قنوج اور اوگھالی پر گجروں کی حکومت تھی۔چینی مورخ ہیون سانگ کے مطابق ہندوستان میں گرجر سلطنت مشرق سے مغرب میں ہزاروں میل تک پھیلی ہوئی تھی جس کا دار الخلافہ ’’بھینمال‘‘تھا۔اس نے لکھا گجر دیش میں زمین کی پیداوار اور آبادی خوب ہے۔ لوگ دولت مند اور امیر ہیں ۔

گرجر دیش کے دور کے ٹمپل ، مجسمے ، قلعے ، کتبے ، سکے اور تحریری نسخے آج بھی اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسکو کے زیر تحویل عالمی ثقافتی ورثہ کا حصہ ہیں ۔ اس کے علاوہ آرکیا لوجیکل سروے آف انڈیا زیر اہتمام دریافت ہونے والے کتبے ، تحریریں ، سکے اور دیگر آثار قدیمہ گرجارا پرتہارا حکمرانوں گجر قوم سے ثابت کرتے ہیں ۔

ریاست کھوٹان ترمیم

کھٹانہ گجروں کی چینی ریاست جو تیسری صدی قبل مسیح سے 1006ء تک دنیا کے نقشے پر کھوٹان کے نام سے اپنی شہرت رکھتی تھی۔جس نے دنیا کی مشہور تجارتی شاہراہ ۔۔۔ شاہراہ ریشم کو سب سے پہلے تجارتی شااہراہ کے طور پر دنیا میں متعارف کروایا۔یہ ریاست اپنے دور میں ریشم ، پارچہ جات ، قالینوں ، قیمتی پتھروں ، کستوری ، ظروف اور قیمتی ہیرے جواہرات کی تجارت کا وسطی ایشیا میں سب سے اہم مرکز تھا ۔

کھوٹان کی ریاست چین کے موجودہ صوبہ سنکیانگ کے جنوبی حصے پر مشتمل تاریخ کی ایک اہم صنعتی ریاست تھی ۔ اس کے چاروں طرف طاقتور ہمسایہ ممالک تھے جیسے کشان سلطنت ، چین ، تبت اور ایک عرصہ کے لیے ژیانگو اور مغرب میں سوگڈیانا اور باختریا کی وسط ایشیائی ریاستیں تھیں۔کھوٹان کا دار الحکومت چین کے موجودہ تجارتی شہر ہوٹان کے مغرب میں واقع تھا۔کھوٹان کے باشندے گندھاری پراکرت اور سنسکرت سے ملتی جلتی انڈو آرین زبان بولتے تھے جو مقامی طور پر کھٹانی کہلاتی تھی ۔ کھٹانی زبان کووہاں دسویں صدی عیسوی تک سرکاری زبان کی حیثیت رہی اور اسے کھٹانہ حکمران انتظامی دستاویزات کے لیے استعمال کرتے تھے۔

کھوٹان کی ریتیلی زمینیں دریائے یورنگ کیش اور کارا کیش سے سیراب ہو کر بہت اچھی فیصلیں دیتی تھی۔اس وجہ سے زرعی پیداور میں اضافہ ہوا جس نے کھوٹان کو اناج کی فصلوں اور پھلوں کے لیے مشہور کر دیا۔ کھوٹان کے درالحکومت کے جنوب میں کونلون کی پہاڑیاں شہتوت کے درختوں سے ڈھکی رہتی تھیں جو ریشم کی پیداوار کا سب سے بڑا ذریعہ تھے۔اس کے علاوہ کھوٹان کے ریگستان زمرد ، ہیرے جواہرات اور قیمتی پتھروں سے مالا مال تھے۔یہاں تک کہ چین کے مشہور شانگ (ین) اور چاؤ خاندانوں کے مقبروں میں نصب قیمتی پتھروں کی نشان دہی بھی کھوٹان سے برآمد پتھروں کے طور پر کی جاتی ہے۔دور دور سے تاجر ان قیمتی پتھروں ، ہیرے جواہرات ، پارچہ جات ، ریشم اور کستوری کی تجارت کے لیے کھوٹان کا رخ کرتے جس کی وجہ سے کھوٹان کی ریاست وسط ایشیا کے ایک اہم تجارتی مرکز کی حیثیت حاصل کر گئی جس تک پہنچنے کے لیے ہندوستان ،خراسان ، فارس ، یونان ، شام ، مصر ، عرب اور افریقی ممالک کے تجارتی قافلوں نے جو راستہ اختیار کیا وہ بعد ازاں کھوٹان کی عمدہ ریشم کی نسبت سے شاہراہ ریشم کے نام سے دنیا میں مشہور ہوا جو آج بھی دنیا میں سلک روٹ کے نام سے مشہور ہے ۔

کھوٹان کا بانی ۔۔۔۔ کھٹانہ خاندان ترمیم

کھوٹان کا بانی کون تھا؟ اس کی شناخت کے کئی دستاویزی نمونے آج بھی دنیا میں موجود ہیں ۔ یہ چینی زائر سوآن زانگ کی یاداشتوں اور کھوٹان کی سرکاری دستاویزات کے تبتی ترجموں میں میسر ہیں۔آثار قدیمہ کے یہ تاریخی نمونے بتاتے ہیں کہ اس شہر کی بنیاد تیسری صدی قبل مسیح کے آس پاس اشوک کے دور حکومت میں ہندوستانیوں کے ایک گروہ نے رکھی تھی جو گجر قوم کی کھٹانہ شاخ سے تعلق رکھتے تھے ۔

آثار قدیمہ کے ایک نمونے کے مطابق قدیم ٹیکسلا میں ایک قبیلے کے امرا ء جو اپنا نسب ویسراوانا دیوتا سے جوڑتے تھے ،کہا جاتا ہے کہ انھوں نے اشوک (304قم تا 232قم )کے بیٹے کانولا کو اندھا کر دیا تھا۔جس کی سزا کے طور پر مورین شاہ نے ٹیکسلا کے ان امرا کو ہمالیہ کے شمال میں جلاوطن کر دیا ، جہاں وہ آباد ہوئے اس علاقے کا نام کھوٹان رکھا اور اپنے ایک ممبر کو بادشاہ منتخب کیا۔ٹیکسلا قدیمی طور پر گجر قوم کا مسکن رہا ہے ۔۔

1900 ء کی دہائی میں اورل اسٹین نے Niya (سنگیانگ کا ایک شہر)سے خاروشتی ( گندھاری ) رسم الخط میں لکھی ہوئی پراکرت دستاویزات دریافت کیں۔جن پر تحقیق نے یہ ثابت کیا کہ یہ لوگ ٹیکسلا کے ہندوستانی تارکین وطن تھے جنھوں نے اس علاقے کو فتح کرنے کے بعد وہاں اپنی نوآبادی قائم کی اور اس کا نام کھوٹان رکھا۔یاد رہے کہ پراکرت کا استعمال کشان سلطنت کی گندھارا تہذیب میں ہی ہوتا تھا۔گندھارا کے پورے علاقے میں آج بھی کھٹانہ گجروں کی بہت بڑی تعداد موجود ہے ۔

کھٹانی دستاویزات کے مطابق دوسری صدی قبل مسیح میں کھوٹان کے ایک کھٹانہ بادشاہ نے جنوبی ایشیا کی کشان سلطنت کے مشہور حکمران کنشک کو ہندوستان کی مشرقی ریاستوں میں سے ایک Sket(ایودھیا)کو فتح کرنے میں مدد دی ۔

کھوٹان نے پہلی صدی عیسوی میں اپنی طاقت سے کام لینا شروع کیاجب ایک پڑوسی ریاست یارقند نے جارحیت کا ارتکاب کیا۔25ء میں کھوٹانی جنرل زیمو با نے یارقندکے خلاف بغاوت کا آغاز کیا ۔ زیمو با کی موت پر اس کے بڑے بھائی کے بیٹے گوانگڈے نے اقتدار سنبھالا اور 61ء میں یارقند کو شکست دے کر یارقند اور کاشغر سمیت 13ریاستوں کو اپنا مطیع بنا لیا ۔ جس کے بعد کھوٹان کا تجارتی رابطہ وسط ایشیا کی دیگر ریاستوں کے علاوہ جنوبی ایشیا ، مشرق وسطی ٰ کی ریاستوں ، یونان اور دیگر مغربی ریاستوں ، شام ، عرب اور افریقی ریاستوں سے قائم ہو ا جس کے بعد تاریخی شاہراہ ریشم نے جنم لیا ۔ اس کے بعد کھوٹان نے بہت تیزی سے ترقی کی اور بہت جلد دنیا میں ایک اہم تجارتی و صنعتی مرکز کی حیثیت حاصل کرلی ۔ یہی وجہ ہے کہ ریاست کھوٹان کے ایریا سے جو آثار قدیمہ دریافت ہوئے ان میں دنیا کے مشہور تاریخی نمونے بھی شامل ہیں ۔ جیساکہ کھوٹان کے مختلف مقامات سے دریافت ہونے والے ہیلینسٹک(سکندراعظم سے قلوپطرہ کے دور حکومت تک کے ) فن پاروں سے بھی ظاہر ہوتاہے۔ان میں سے ایک رنگین اون سے بنا ہوا منقش یونانی پردہ ہے جو 1983-84کے دوران ہوٹان سے 30کلومیٹر مشرق سے دریافت ہوا ۔ اس پردے پر یونانی دیوتا ہرمس کی تصویر منقش ہے ۔ اسی طرح شاہراہ ریشم پرہی پائے جانے والے دوسری صدی قبل مسیح کے ایک اور شہر لولان کے کھنڈر سے ایک اور یونانی فن پارہ 1915ء میں دریافت ہوا جس پر Pegasusکا عکس منقش ہے جو قدیم یونانی تصورات میں مقدس براق کی حیثیت رکھتا تھا۔اسی طرح مٹی کی بنی ہوئی قدیم یونانی و مصری صراحیاں بھی ملی ہیں ۔

پہلی صدی عیسوی سے لے کر 7ویں صدی عیسوی تک مختلف کھٹانہ ، ہن ، ساکا اور تانگ خاندانوں نے کھوٹان پر حکومت کی ۔ 792ء میں تبت نے کھوٹان پر اپنا تسلط قائم کر لیا لیکن 851ء میں کھوٹان نے دوبارہ آزادیحاصلکرلی ۔

کھوٹان پر ترک (ایغور) اسلامی یلغار ترمیم

کاشغر کے مشرق میں اسلامی فتوحات کا آغاز 934 ء میں قاراخانی سلطان ستوق بگھرا خان کے اسلام قبول کرنے سے ہوا تھا۔ ستوق بگھرا خان اور بعد میں اس کے بیٹے موسیٰ نے کھوٹان کو فتح کرنے کی طویل کوشش کی۔جس کے نتیجے میں اسلامی کاشغر اور بدھ کھوٹان کے مابین ایک طویل جنگ کا آغاز ہوا۔ یہاں تک کہ ستوق بگھرا خان کا پوتا علی ارسلان بھی اس جنگ کے دوران مارا گیا تھااور کھوٹان نے 970ء میں کاشغر پر قبضہ کر لیا۔چینی کتابوں کے مطابق ، کھوٹان کے بادشاہ نے کاشغر سے پکڑے گئے ایک ناچنے والے ہاتھی کو چینی دربار میں تحفہ کے طور پر پیش کیا ۔

تقریباً پون صدی کی مسلسل جنگ کے بعد بالآخر1006 ء میں ، کاشغر کے مسلمان کارا خانی حکمران یوسف قادر خان نے کھوٹان پر فتح حاصل کی۔یوں کھوٹان کی 13سو سالہ کھٹانہ ریاست دنیا کے نقشے سے مٹ گئی لیکن اس نے دنیا میں وہ عظیم یادگار چھوڑی جسے رہتی دنیا تک یاد رکھا جائے گا اور وہ عظیم یادگار ہے : شاہراہ ریشم جو آج بھی دنیا میں سلک روٹ کے نام سے اپنا وہ منفرد مقام اور شہرت رکھتی ہے جو شاید ہی دنیا کی کسی دوسری تجارتی شاہراہ کو حاصل ہو ۔

11 ویں صدی عیسوی میں ایک کاشغری مصنف نے اپنی خود نوشت میں لکھا کہ کھوٹان کے باشندے ابھی تک اپنی کھٹانی زبان بولتے ہیں وہ ترک زبان کو زیادہ نہیں سمجھتے ۔

1271-75ء کے درمیان جب مارکو پولو نے کھوٹان کا دورہ کیا تو اس نے واپسی میں لکھا کہ کھوٹان کے تمام باشندے اسلام کے پیروکار ہیں ۔

کابل شاہی سلطنت ترمیم

کھٹانہ گجروں کی چینی ریاست کھوٹان کے زوال کے دور میں کابل سے لاہور تک ایک ریاست کابل شاہی ابھری جسے ہندو شاہی ریاست بھی کہا جاتاہے ۔ سنسکرت کے سب سے مقبول مورخ پنڈت کلہن نے اپنی تصنیف راج ترنگنی میں راجے جے پال کے خاندان کو کھٹانہ لکھا ہے ۔ کھٹانہ گجر قوم کی ایک بڑی نامور گوت ہے ۔ راجا جے پال کھٹانہ کے خاندان نے لاہور سے کابل تک حکومت کی اس کی حکومت کو محمود غزنوی نے ختم کیا۔اسی طرح کابل اور لاہور کے آخری ہندو راجا بھی گجر تھے جن میں سے راجا جے پال مشہور راجا تھا جس کا مقابلہ محمود غزنوی کے ساتھ ہوا ۔ پنڈت کلہن نے راجا جے پال کے خاندان کو کھٹانہ گجر لکھا ہے ۔

دہلی شہر کی بنیاد ترمیم

جہاں آج بھارت کا دار الحکومت دہلی واقع ہے وہاں کسی زمانے میں ایک بہت بڑا اور گھنا جنگل ہوا کرتا تھا ۔ مہابھارت کے زمانے میں اس جنگل کو جلا کر یہاں اندرپرستھ شہر کی بنیاد رکھی گئی ۔ اندرپرستھ پر چوہان گجروں کی حکومت تھی۔کافی زمانے بعد یہ علاقہ موریا سلطنت کا حصہ بن گیا ۔ موریا سلطنت کے شہنشاہ اشوک(235-273قم) کی ایک تحریر اسی علاقے سے 1996ء میں ملی۔اسی طرح مختلف ادوار میں یہاں مختلف بستیاں قائم ہوتی رہیں ۔ آثار قدیمہ کے مطابق دہلی کے آس پاس 8 قلعے درہافت ہو چکے ہیں جن میں سے 5 دہلی کے جنوبی علاقے میں واقعہ ہیں۔8 ویں صدی عیسوی میں یہاں تومر ( تنوار) گجروں کی حکومت قائم ہو گئی ۔ اننگ پال تومر گجروں کا ہی راجا تھاجس نے 736ء میں دریائے جمنا کے کنارے ایک قلعہ تعمیر کروایا جسے قلعہ لال کوٹ کا نام دیا گیا۔ تنوار گجروں نے یہاں 12ویں صدی عیسوی تک حکومت کی ۔ اس دور کے جو سکے وہاں سے دریافت ہوئے ہیں ان میں دہلی وال لکھا ہوا ملتاہے ۔ جس سے ظاہر ہوتاہے کہ تنوار گجروں کے دور حکومت میں ہی قلعہ لال کوٹ کے باہر آبادی نے پھیل کر ایک شہر کی صورت اختیار کی اور اسے دہلی وال کا نام دیا گیا ۔ جو بعد ازاں اختصار کے ساتھ صرف " دہلی " کہلایا جانے لگا۔قلعہ لال کوٹ تومر گجروں کا مرکز رہا ۔

1178ء میں پرتھوی راج چوہان نے قلعہ لال کوٹ کو فتح کرکے دہلی کو اپنی سلطنت میں شامل کر لیا ۔ اور قلعہ لال کوٹ کو قلعہ رائے پتھورا کا نام دیا۔پرتھوی راج چوہان کے درباری شاعر چند بردائی کی ہندی تحریر پرتھوی راسو میں تومر بادشاہ اننگ پال کو دہلی کا بانی بتایا گیا ہے۔دہلی اور آس پاس کے علاقوں میں آج بھی گجر بڑی تعداد میں آباد ہیں اور گوجری زبان بولتے ہیں ۔ دہلی اور میرٹھ کے گجروں نے 10 مئی 1857ء کو انگریزوں کے خلاف جنگ آزادی شروع کی تھی ۔

چوہان سلطنت ترمیم

چوہان سلطنت ہندوستان میں گجروں کی آخری سب سے بڑی اور مضبوط ریاست تھی ۔ اس کے آخری بادشاہ پرتھوی راج چوہان نے 1191ء میں مشہور ترک بادشاہ شہاب الدین غوری کو ترائن کی لڑائی میں شکست دی تھی ۔ لیکن ایک سال بعد ہندوستانی راجوں کی آپس کی چپقلش اور غداری کی وجہ سے شہاب الدین غوری پرتھوی راج چوہان کو شکست دینے میں کامیاب ہو گیا جس کے نتیجہ میں دہلی اور اجمیر میں قائم چوہان کا خاتمہ ہو گیا ۔ تاہم تاریخ میں آج بھی چوہان سلطنت زندہ ہے ۔

چوہان سلطنت کی بنیاد 911ء میں گرجر دتی دیونرائن چوہان نے شمالی گجرات کے ایک علاقہ میں رکھی تھی جو بعد ازاں اجمیر کہلایا ۔ یہ پورا علاقہ گجر ات کہلاتا تھا ۔ انگریزی دور میں راجپوتوں کی حمایت حاصل ہونے کے بعد انگریزوں نے گجرات کے اس علاقہ کو راجپوتانہ کا نام دیا اور بھارت کے قیام کے بعد یہ علاقہ راجستھان کہلایا ۔ اجمیر اس علاقہ کے جنوب مشرق میں واقعہ ہے ۔ چوہان سلطنت کی بنیاد رکھنے والے دیونرائن چوہان گرجر کو ہندوؤں میں دیوتا کی حیثیت حاصل ہے اور اس کی پوجا کی جاتی ہے ۔ خود دیونرائن چوہان کی لکھی ہوئی ایک نظم میں اس کا باپ سوائی بھوج ان 24 گجر بھائیوں میں سے ایک تھا جو ایک جنگ میں بہادری سے لڑتے ہوئے مارے گئے تھے ۔

1150ء سے 1164ء تک چوہان سلطنت پر وسالدیو چوہان نے حکومت کی اور چوہان سلطنت کو مضبوط و مستحکم کیا ۔

پرتھوی راج چوہان سوم نے 1178ء سے 1192ء تک چوہان سلطنت پر حکومت کی اور دہلی سمیت کئی علاقوں کو فتح کرکے چوہان سلطنت کا دائرہ دہلی ، ہریانہ ، مدھیا پردیش اور اترپردیش تک بڑھایا ۔ پرتھوی راج چوہان 1166ء میں گجرات میں پیدا ہوا ۔ اس کے باپ کا نام سومیشور تھا اور اس کی ماں کا نام کرپورہ دیوی تھا جو کلاچوری شہزادی تھی ۔ پرتھوی راج دوم کی وفات کے بعد جب سومیشور اجمیر کا حکمران بنا تو اس وقت ان کا خاندان گجرات سے اجمیر منتقل ہو گیا ۔ پرتھوی راج کا باپ سومیشور بھی پرتھوی راج راسو میں گرجر ہی کہلاتا تھا۔

بھارت اور پاکستان میں آج بھی چوہانوں کی بہت بڑی تعداد آباد ہے ۔ پاکستان کے چوہان زیادہ تر مسلمان ہیں ۔ جیسا کہ معروف پاکستانی سیاست دان فیاض الحسن چوہان ، انجینئر افتخار احمد چوہان ، مشہور مورخ اور تاریخ گرجر کے مولف رانا علی حسن چوہان جیسی شخصیت شامل ہیں ۔ یہ تمام شخصیات خود کو گجر مانتی ہیں ۔ رانا علی حسن چوہان نے مشہور تاریخ گرجر لکھی ہے جو پانچ جلدوں پر مشتمل ہے ۔ وہ اپنا شجرہ نسب 27 ویں پشت میں جاکر پرتھوی راج چوہان سے ملاتے ہیں ۔

گجر قوم کی آخری ریاست : سمٹھار ترمیم

ریاست سمٹھار گجر قوم کی آخری ریاست جو 1972ء تک قائم رہی ۔ ریاست سمٹھار وسطی ہندوستان میں گوالیار کے مشرق میں واقع ایک ریاست تھی ۔ جس کی بنیاد چندرابھان سنگھ گوجر اور اس کے پوتے مدن سنگھ گوجر نے 1740ء میں رکھی تھی۔ 1947ء تک اس گوجر ریاست پر 9 گوجر راجوں اور ایک گجر رانی نے حکومت کی ۔

1947ء میں آخری کھٹانہ گوجر بادشاہ چرن سنگھ جودیو نے بطور نیم خود مختار ریاست انڈیا کے ساتھ الحاق کیا ۔ لیکن بعد ازاں 1972ء میں یہ ریاست مکمل طور پر بھارت میں ضم کر لی گئی۔یہ قلعہ انہی کھٹانہ گوجر بادشاہوں کی یاد گار ہے ۔ اس حکمران خاندان کا تعلق بنیادی طور پر گجردیش (موجودہ  راجستھان ) کے کھٹانہ گجروں سے تھا جہاں گجر دیش کے نام سے گجر قوم کی ایک بڑی ریاست 5ویں صدی عیسوی سے لے کر 13ویں صدی عیسوی تک شان و شوکت کے ساتھ قائم رہی ۔

  1. "Forbearers of the Aryan Legacy: The Gurjars"۔ بھارت 
  2. راج ترنگنی ، مصنف پنڈت کلہن 
  3. (راج ترنگنی باب 5 صفحہ 205 ، ترجمہ مسٹر سٹین) 
  4. Glory That Was Gurjara Desa 
  5. کتاب " الاعلاق النفسیہ" جلد 7 ، صفحہ 134، 135۔ 
  6. The India by John Keay