گجر
گُرجر ،گُجر، گُوجر (سنسکرت: گرجرہ/گرجرا)[4] گوجر ایک ہند-آریائی[5][6] قبائلی نسل ہے، جو بنیادی طور پر بھارت، پاکستان اور افغانستان میں سکونت پذیر ہے، جو اندرونی طور پر مختلف قبیلچوں میں تقسیم ہے۔[7] یہ روایتی طور پر زراعت اور زمینداری کی سرگرمیوں میں ملوث تھے اور انہوں نے ایک بڑا متضاد گروہ تشکیل دیا۔ گرجروں کا تاریخی کردار معاشرے میں کافی متنوع رہا ہے؛ ایک سرے پر وہ کئی سلطنتوں اور شاہی خاندانوں کے بانی رہے ہیں اور دوسرے سرے پر، کچھ اب بھی خانہ بدوش ہیں جن کی اپنی کوئی زمین نہیں ہے۔[8]
گجر / گُوجر | |
---|---|
جنوبی ایشیا میں گجر آبادی کی تقسیم | |
کل آبادی | |
تقریبا 150 تا 200 ملین | |
گنجان آبادی والے علاقے | |
بھارت | 139,300,000+ (10% ملک کی کل آبادی کا)[1] |
پاکستان | 45,040,000+ (20% ملک کی کل آبادی کا)[1][2] |
افغانستان | 1,992,000+ (5% ملک کی کل آبادی کا)[3] |
زبانیں | |
گوجری • گجراتی • ہندی • کشمیری • پنجابی • اردو • پشتو • ہریانوی • سندھی • راجستھانی • بلوچی • پہاڑی • بھوجپوری • مراٹھی | |
مذہب | |
ہندو مت • اسلام • سکھ مت | |
متعلقہ نسلی گروہ | |
جاٹ • راجپوت • آہیر اور دیگر ہند آریائی لوگ |
گجر برصغیر میں زمانہ قدیم سے آباد ہیں۔ جن کا ذکر مہابھارت اور ویدوں میں بھی ملتا ہے۔ گجر زمانہ قدیم میں کھشتری اور آریا کے نام سے جانے جاتے تھے۔[1] ان کی بہادری اور شجاعت کی وجہ سے گرجر کا خطاب ملا جس کے معنی دشمن کو نیست و نابود کرنے والا ہے ان کی جسمانی خصوصیات ظاہر کرتی ہیں کہ یہ خالص ہند آریائی نسل سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہاں سے یہ قوم دنیا کے دیگر حصوں میں پھیلی۔ یورپ میں گرجستان آباد کیا اور چین میں ریاست کھوٹان اس طرح روس میں چیچنیا اور دیگر کئی ملکوں میں صدیوں تک حکومت کی۔ یورپ سے گجر قوم کے کچھ قبیلے واپس وسطی ایشیا اور جنوبی ایشیا کی طرف پانچویں اور چھٹی صدی عیسوی میں واپس آئے اور یہاں کے مقامی یوچی گجر اور دیگر اقوام سے حکومت چھین لی یہ لوگ سفید ہن گجر کہلاتے تھے اور انھوں نے راجپوتانہ کا بڑا حصہ فتح کر لیا اور کئی صدیوں تک برصغیر کی تاریخ میں اہم کردار ادا کرتے رہے۔ ڈی آر بھنڈارکر نے ثابت کیا ہے کہ سفید ہن گجر شمالی ہند میں 550 عیسوی کے قریب داخل ہوئے تھے۔ ان کا ذکر سب سے پہلے پانا کی کتاب ’ہرش چرت‘ میں آیا ہے۔
لفظ" گجر" کی اصطلاح
’’گجر‘‘ جو وقت اور لسانی تغیرات کی وجہ سے سنسکرت لفظ "گرجر" کی تبدیل شدہ شکل ہے۔ پنڈت رادھا کانت کی مرتب شدہ سنسکرت ڈکشنری (شکبادہ 1181) میں اس کی اس طرح وضاحت کی گئی: گر+ جار، 'گر' کا مطلب ہے 'دشمن' اور 'جار' کا مطلب ہے 'تباہ کنندہ'۔ لفظ "گجر" کا مطلب ہے۔ "دشمن کو تباہ کرنے والا"۔ لفظ "گرجر" ایک جنگجو قوم کی خصوصیات کی پشین گوئی کرتا ہے۔
سنسکرت نژاد کے علاوہ بھی مورخین نے گجر لفظ کی اور بھی اصطلاحات نکالی ہیں جن میں درج ذیل قابل ذکر ہیں۔ جنرل کننگھم اور کچھ تاریخ دانوں کے مطابق لفظ "گجر" راجہ کنشک کے رباط نوشتوں سے دریافت ہونیوالے لفظ گوزور (Gusur)کا معرب ہے، جس کا مطلب ہے"اعلی خاندان کا فرد"۔ ڈاکٹر جاوید راہی کے مطابق "گجر" وسطی ایشیائی ترک نژاد لفظ (göçer) سے نکلا ہے، جس کا مطلب خانہ بدوش ہے۔ ڈاکٹر ہوتھی کے مطابق جارجیا جسے فارسی اور عربی میں گرجی اور گرجستان کہا جاتا تھا۔ گرجر لفظ گرجستان سے نکلا ہے، جس کا مطلب ہے "گرجستان کا رہائشی"۔ رانا علی حسن چوھان نے ’تاریخ گوجر‘ میں لکھا ہے کہ رامائین میں گوجر کے معنی غازی کے آئے ہیں اور یہ کھشتری ہیں جو بعد میں گوجر کہلانے لگے۔ برطانوی سرکاری عہدے دار ایم کمپیل اور سکاٹ کیمرون لیوی کے مطابق گجر "خزر ترک" ہیں جو ہند آریائی علاقے میں بسنے کے بعد گجر بن گئے۔ بعض مورخین کے مطابق خراسان میں بسنے والے اوغوز ترک جنہیں غز یا غزر بھی کہا جاتا تھا۔ یہ نہ صرف بہترین لڑاکے بلکہ خانہ بدوش اور گلہ بان بھی تھے۔ غالب امکان یہی ہے کہ غرز ہند آریائی لہجہ میں گجر ہو گیا۔ کیوں کہ ہند آریائی زبان میں ’غ‘ ’گ‘ سے اور ’ز‘ ’ج‘ سے بدل جاتا ہے اور گجر کا معرب گوجر ہے۔
گجروں کا ارتقا
گجروں کی چند ہزار سالوں پر محیط ایک طویل اور بھرپور تاریخ ہے اور ان کے ارتقا کو قدیم زمانے تک کا پتہ لگایا جا سکتا ہے۔ اس مضمون میں، ہم گجروں کے ابتدائی دور سے لے کر آج تک کے ارتقا پر بات کریں گے۔
قدیم ماخذ: گجروں کے بارے میں اکثر مورخین اس بات پر متفق ہیں کہ ان کی ابتدا وسطی ایشیائی خطے سے ہوئی ہے اور یہ برصغیر پاک و ہند میں ہجرت کرنے والے ابتدائی ہند-یورپی قبائل میں سے ایک تھے۔ ان کا ذکر قدیم ہندو صحیفوں کے ساتھ ساتھ یونانی مورخ ہیروڈوٹس کے کاموں میں بھی ملتا ہے۔ گوجروں کے بارے میں بھی کہا جاتا ہے کہ انھوں نے ہندوستان میں بدھ مت کے پھیلاؤ میں اہم کردار ادا کیا ہے، کیونکہ وہ مذہب کے ابتدائی پیروکاروں میں سے تھے۔
قرون وسطی کا دور: قرون وسطی کے دور میں، گجروں کو مضبوط جنگجو کے طور پر جانا جاتا تھا اور اکثر مختلف ریاستوں کے ذریعہ اتحادیوں کے طور پر ان کی تلاش کی جاتی تھی۔ انھوں نے شمالی ہندوستان میں کئی طاقتور سلطنتیں قائم کیں، جیسے کہ گجر پرتیہار، جنھوں نے برصغیر ایک بڑے حصے پر حکومت کی۔ گجروں نے حملہ آور مسلم فوجوں کے خلاف مزاحمت میں بھی کلیدی کردار ادا کیا اور شمالی ہندوستان میں کئی ہندو ریاستیں قائم کرنے میں مدد کی۔
برطانوی نوآبادیاتی حکمرانی: برطانوی نوآبادیاتی حکمرانی کے دوران، گجروں کو "مارشل ریس" کے طور پر درجہ بندی کیا گیا تھا اور انھیں میں برطانوی ہندوستانی فوج میں بھرتی کیا گیا تھا۔ گجروں نے اس سے انھیں زیادہ پہچان اور حیثیت حاصل کرنے میں مدد ملی، اس کے برعکس بہت سے گجروں نے برطانوی فوجوں کے خلاف بھرپور مزاحمت بھی کی اس کی وجہ سے انھیں اپنی زمینوں اور علاقوں سے ہاتھ دھونا پڑا۔ پھر انھیں بہت ساری پابندیوں اور امتیازی قوانین کا سامنا کرنا پڑا۔
آزادی کے بعد: 1947 میں ہندوستان کی آزادی کے بعد، گرجروں کو کئی چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑا، جن میں تعلیم اور روزگار کے محدود مواقع بھی شامل ہیں۔ ان چیلنجوں کے باوجود، انھوں نے اپنی ثقافتی روایات کو برقرار رکھا ہے اور زراعت، سیاست اور فوج جیسے شعبوں میں اہم شراکت کی ہے۔
عصری دور: حالیہ برسوں میں، گُجر ایک الگ قبیلے کے طور پر پہچان اور تعلیمی اداروں، سرکاری ملازمتوں، سیاست، کھیلوں، عسکری اداروں، فوڈ بزنس، مذہب جیسے پیشوں میں سرگرم عمل ہیں۔ آخر میں، گجروں کا ارتقا ان کی لچک اور موافقت کا ثبوت ہے اور ان کا بھرپور ثقافتی ورثہ اور تاریخ برادری کی شناخت کو تشکیل دینے میں اہم کردار ادا کرتی رہتی ہے۔ چیلنجوں کا سامنا کرنے کے باوجود، گجروں نے اپنی منفرد ثقافتی روایات کو برقرار رکھا ہے اور برصغیر پاک و ہند کی ترقی میں اہم کردار ادا کرتے رہتے ہیں۔
گجروں کا ماخذ
محمد عبد الملک نے ’شاہان گوجر‘ میں لکھا ہے کہ دوسرے ممالک میں اس قوم کو خزر، جزر، جندر اور گنور بھی کہا گیا ہے۔[9] برصغیر میں یہ پہلے گرجر کی صورت پھر گوجر ہو گیا۔ یہ لوگ گرجستان سے آئے تھے۔ بحیرہ خزر کا نام شاید خزر پڑھ گیا کہ اس کے ارد گرد خزر یعنی گوجر آباد تھے۔ جو سھتین قبایل کی نسل سے ہیں ۔ شاہانِ گوجر میں اگنی کل کی چاروں قوموں چوہان، چالوکیہ، پڑھیار اور پنوار کا ذکر گوجروں کے ضمن میں کیا ہے۔
علی حسن چوہان کی 'تاریخ گجر' میں سورج بنسی، چندر بنسی، چوہان، چالوکیہ، پڑھیار، پنوار اور راٹھوروں کو بھی گوجر کہا گیا ہے۔[10] مشہور تاریخ دان وی اے سمتھ اپنی کتاب میں لکھتے ہیں چوہان، سولنکی، پڑھیار، پنوار، چندیل اور تنوار اصل میں گجروں کے ہی قبائل ہیں جو بعد میں دوسری قوموں میں بھی شامل ہوئے۔ جلال الدین اکبر کے دور میں گجروں نے تباہ شدہ گجرات شہر کی تنظیم نو کی۔ جو نویں صدی عیسوی میں گجر راجا ایلخان کی سلطنت کا مرکزی طاقت تھا۔
گجروں کی جغرافیائی تقسیم
بھارت میں گجر زیادہ تر ریاست گجرات، راجستھان، ہریانہ، مہاراشٹرا، مدھیہ پردیش، اتر پردیش، اتراکھنڈ کے گڑھوال اور کماؤن ڈویژن، پنجاب کے میدانی علاقوں، ہماچل پردیش، لداخ اور جموں و کشمیر جیسے ہمالیائی اور پہاڑی علاقوں میں مرتکز ہیں۔ ہندوستان ٹائمز کے مطابق جہاں ان کی آبادی ملک کی آبادی کا 10 فیصد ہے۔[1]
پاکستان میں گجر تقریبا پورے ملک میں ہی پائے جاتے ہیں جن میں زیادہ تر صوبہ پنجاب، آزاد کشمیر، خیبر پختونخوا، گلگت بلتستان اور سندھ میں آباد ہیں اور کچھ بلوچستان میں بھی پائے جاتے ہیں۔ ہندوستان ٹائمز اور دوسرے ذرائع کے مطابق وہ پاکستان کی کل آبادی کا 20 فیصد ہیں۔[1] بنیادی طور پر شمالی پنجاب کے شہروں گوجرانوالہ، گجرات، گوجر خان، جہلم، سرگودھا، شیخوپورہ، لاہور، قصور، منڈی بہاؤالدین، سیالکوٹ، نارووال، راولپنڈی اور فیصل آباد کے اضلاع میں ان کی کافی گھنی آبادیاں ہیں، جبکہ آزاد کشمیر کے تمام اضلاع اور خیبرپختونخوا کی ہری پور ہزارہ ڈویژن میں بھی گجروں کی گنجان آبادیاں ہیں۔[11] گجر خیبر پختونخوا کی دوسری اور پنجاب کی تیسری بڑی برادری ہے۔[12]
افغانستان میں گجر زیادہ تر صوبہ کاپیسا، بغلان، بلخ، قندوز، تخار، بدخشان، نورستان، لغمان، ننگرہار اور خوست میں پائے جاتے ہیں۔ جہاں ان کی آبادی ملک کی کل آبادی کا 5 فیصد ہے۔[3]
گجروں کی تاریخ
گوجروں کی آبادی کا دور دور تک منتشر ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ ان کی فرمانروائی کا دائرہ کس قدر وسیع تھا۔ گوجر بیشتر گلہ بانوں کی ایک قوم تھی جو جنگ و پیکار کی دلدادہ تھی اور آج کل بھی گوجروں میں یہ رجحانات پائے جاتے ہیں۔ یہ مستقل مزاج زراعت کاروں کی حثیت سے شہرت کے مالک ہیں۔ تاہم انھوں نے عمومی حثیت سے اقامت کی زندگی اختیار کرلی ہے۔ ہند کے انتہاہی شمالی مغربی حصہ خاص کر کانگرہ اور سنجھال کے پہاڑوں کے بیرونی کناروں تا حال گوجر خانہ بدوش چرواہوں اور گلہ بانوں کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ ان کے نام پر شمالی مغربی برصغیر میں بہت سی بستیاں، قبضے اور شہر آباد ہوئے جو اب تک موجود ہیں۔
ابتدائی تاریخ
گجر شناخت کی تاریخ میں اہم نکتہ اکثر قرون وسطی (570 عیسوی) کے دوران موجودہ راجستھان میں ایک گرجر سلطنت کے ظہور سے ملتا ہے۔ گوجروں نے اپنی ریاست کوہ آبو کے قریب بھٹکال میں قائم کی تھی۔ اس خاندان کی ایک اور شاخ بروچ نے ایک اور ریاست قائم کی تھی جو ان کے نام سے بروچ کہلائی۔ ایک اور شاخ اونتی کے نام سے موسوم ہوئی ہے۔ اس خاندان نے عربوں کو جو گوجروں کے علاقہ تاراج کر رہے تھے روکا۔ ان دونوں خاندانوں میں بالادستی کے لیے جنگ ہوئی۔[13] جس میں اونتی خاندان کو کامیابی ہوئی اور ان کو اپنے اپنے طاقتور پڑوسییوں راشٹر کوٹوں اور پالوں سے جنگیں کرنی پڑیں۔ اونتی راجا ناگاہ بھٹ دوم (800ء تا 825ء) نے مونگیر کے مقام پر دھرم پال کو شکست دی۔ اس نے کاٹھیاوار، مالوہ اور راجپوتانہ میں کامیاب لڑائیاں لڑیں۔ اس کا بیٹا بھوج ایک کامیاب اور قابل راجا تھا۔ شروع میں اس نے پالوں اور راشٹر کوٹوں سے شکست کھائی۔ مگر بالاآخر اس نے اپنے دشمنوں کو ہرا کر اپنے دشمنوں کو ہرا کر کھوئے ہوئے علاقے دوبارہ حاصل کرلیے۔
بروچ کے دار الحکومت قنوج پر گوجروں کی شاخ پرتی ہاروں کا قبضہ ہو گیا تھا۔ مگر راجا یشودومن سے قبل کی تاریخ کا علم نہیں ہے۔ یشودرمن کشمیر کے راجا للیتا کے ہاتھوں شکست کھا کر مارا گیا۔ نویں صدی کے شروع میں بنگال کے راجا دھرم پال نے قنوج کے راجا کو تخت پر سے اتار کر اپنی پسند کے آدمی کو تخت پر بٹھا دیا۔ اس کو تقریباً 816ء میں ناگابھٹ دوم نے نکال باہر کیا۔ اس کے بیٹے بھوج نے قنوج کو اپنا پایا تخت بنایا۔ اس ایک طویل عرصہ (840ء تا 890ء) تک ایک وسیع علاقے پر حکومت کی۔ اس کا بیٹا مہندر پال (890ء تا 908ء) اپنے باپ کی وسیع مملکت کو برقرار رکھنے میں کامیاب ہو گیا۔ مگر اس کے بعد اس ریاست کو زوال آگیا اور اس کا بیٹا مہی پال اندر سوم کے ہاتھوں جو دکن کے راشترکوٹیہ خاندان سے تعلق رکھتا تھا شکست کھا گیا اور درلحکومت پر بھی اندر سوم کا قبضہ ہو گیا۔ مہی پال نے اگرچہ قنوج پر دوبارہ قبضہ کر لیا لیکن وہ ریاست کے شیرازے کو بکھرنے سے نہیں بچا سکا۔ پڑھیاروں کی ایک ریاست رجپوتانہ میں مندوری یا مندر کے مقام پر تھی، جس کو راٹھوروں نے چھین لی تھی۔ عبد المک نے گوجروں کا خزر قوم کی باقیات ہونے کا دعویٰ محض اس وجہ سے کیا ہے کہ پاکستان کے شمالی حصہ یعنی شمالی پنجاب سرحد اور کشمیر کے گوجروں کا کہنا ہے کہ وہ ترکی النسل ہیں۔
خزر جو ایک ترکی قوم تھی، جس نے نوشیروان عادل سے کچھ عرصہ پہلے عروج حاصل کر لیا تھا اور غالباََ یہی ترک تھے، جن کے خلاف دربند کی سدیں تعمیر ہوئیں۔ خزر نے ترکی خانہ بدوش سلطنت کی روایات کو قائم رکھا۔ قباد کی پہلی تخت بشینی کے وقت خزر قبیلے نے ایران پر یورشیں شروع کر دیں۔ قباد نے خزر حملہ آورں کا مقابلہ کیا اور انھیں شکست دے کر ملک سے باہر نکالا۔
بحیرہ خزر کے مشرقی علاقوں میں ساسانیوں نے اپنے ترک ہمسایوں کے خلاف مدافعتی قلعے تعمیر کیے۔ صوبہ جرجان کی حفاظت کے لیے آجری سد بنائی گئی۔ لیکن یہ ترکوں کے فاتحانہ حملوں کی روک تھام نہ کرسکیں۔ جرجان اور طبرستان کے درمیانی سرحد پر ایک اور اس لیے دیوار تعمیر کی گئی تھی کہ صوبہ جرجان ہاتھ سے نکل گیا تھا۔ نوشیروان نے533ء میں قیصر روم سے ایک معاہدہ کر لیا۔ اس معاہدہ کے تحت رومی حکومت نے ایک بڑی رقم دینے کا وعدہ کیا، جس کے بدلے نوشیرواں نے دربند اور کوہ کاف کے دوسرے قلعوں کی حفاظت کی ذمہ داری لی۔ نوشیروان عادل (531 تا 579) ساسانی حکمران نے مغربی ترکوں سے جن کا حکمران ایل خان تھا دوستانہ تعلقات قائم کیے اور ان کی مدد سے افغانستان میں ہنوں کو شکست دی اور اس کے بعد خزر قبائل پر فوج کشی کی اور ان کی طاقت کو پارہ پارہ کر دیا۔ خزر قوم تاریخ کے صفحات سے غائب ہو گئی۔ اس سے بھی ترکوں کی طاقت میں خاطر اضافہ ہوا اور افغانستان میں ہنوں کے خالی کردہ علاقوں پر ترک براجمان ہو گئے۔ یہی وجہ ہے تھی جس کے سبب ترکوں اور نوشیروان میں اختلاف پیدا ہو گیا۔
بہر حال گوجروں کے ترکی النسل ہونے میں تو ہمیں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ لیکن اس پر اختلاف ہے کہ گوجر خزر النسل ہیں۔ کیوں کہ ترکوں کی مغربی سلطنت جس کی علمبرداری افغانستان کے علاقوں پر بھی تھی وہ خزروں کی دشمن تھی اس لیے خزر قوم کا برصغیر کی طرف آنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ہے۔
جو ترک قبائل ساسانی سرحدوں کے قریبی ہمسائے تھے۔ ان میں ایک قبیلہ غز تھا اور اسی نسبت سے ترک قبائل کو غز بھی کہا جاتا تھا۔ یہ قبیلہ غز کے علاوہ غزر بھی پکارا جاتا تھا اور یہ کلمہ ترکوں کے ناموں میں بھی آیا ہے۔ مثلاً غزر الدین مشہورخلجی التتمش کے دور میں گذرا ہے۔ غرز جو ترک تھے ہنوں کی شکست کے بعدبرصغیر میں داخل ہوئے۔ یہ نہ صرف بہترین لڑاکے، خانہ بدوش اور گلہ بان تھے۔ غالب امکان یہی ہے کہ غرز ہند آریائی لہجہ میں گجر ہو گیا۔ کیوں کہ ہند آریا میں ’غ‘ ’گ‘ سے اور ’ز‘ ’ج‘ سے بدل جاتا ہے اور گجر کا معرب گوجر ہے۔
گجروں کی ثقافت
گجروں کے پاس ایک بھرپور ثقافتی ورثہ اور روایات ہیں جو نسل در نسل منتقل ہوتی رہی ہیں۔ گجر ثقافت کے کچھ اہم پہلوؤں مدرج ذیل میں شامل ہیں:
خاندانی اقدار
خاندان کی اقدار ثقافت، مذہب اور ذاتی تجربات جیسے بہت سے عوامل سے تشکیل پاتی ہیں۔ گجر خاندان کی مخصوص اقدار اس بات پر منحصر ہوتی ہیں کہ وہ کہاں رہتے ہیں اور وہ کس ثقافتی اور مذہبی پس منظر سے آتے ہیں۔ تاہم، عام طور پر گجر برادری کے لوگ خاندانی اتحاد، بزرگوں اور خواتین کے احترام اور ثقافتی اور مذہبی روایات کے تحفظ پر بہت زور دیتے ہیں۔ تعلیم کو بھی اکثر اہمیت دی جاتی ہے اور والدین اکثر اپنے بچوں کی تعلیمی اور پیشہ ورانہ کامیابی کو ترجیح دیتے ہیں۔ گجروں میں برادری کا مضبوط احساس پایا جاتا ہے۔ کچھ اور اہم خصوصیات جو ان میں پائی جاتی ہیں وہ یہ کہ بہت جذباتی، ضدی اور لڑاکے ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ، بہت سے گجر خاندانوں میں وفاداری، ایمانداری اور محنت بھی عام طور پر قدر کی جاتی ہے۔ مہمان نوازی اور سخاوت کی اہمیت بھی ایک قدر مشترک ہے اور گھر میں مہمانوں کے ساتھ اکثر بڑے احترام سے پیش آتے ہیں اور گرمجوشی سے مہمان نوازی کی جاتی ہے۔ یہ نوٹ کرنا ضروری ہے کہ یہ اقدار اور روایات گرجر برادری کے مختلف خاندانوں اور افراد کے درمیان بہت زیادہ مختلف ہو سکتی ہیں اور یہ وقت کے ساتھ ساتھ تیار بھی ہو سکتی ہیں۔
پکوان
گجر پکوان ایک روایتی ہندوستانی کھانے ہیں جو نسل در نسل منتقل ہوتا رہے ہیں اور اپنے منفرد ذائقوں اور خوشبوؤں کے لیے جانے جاتے ہیں۔ پکوان کی خصوصیات اس میں مصالحے، جڑی بوٹیوں اور دودھ کی دیسی اور قدرتی مصنوعات کے استعمال سے ہوتی ہے۔ یہاں کچھ مشہور گجر کھانوں کی فہرست ہے
- دال بٹی چورما: ایک روایتی گجر ڈش ہے جو تین اہم اجزاء سے بنتی ہے: دال ، بٹی (گول روٹی) اور چورما (پسی ہوئی روٹی اور شکر کا مکس)۔ دال عام طور پر مسالوں کے ساتھ پکی ہوئی مختلف دالوں کا مرکب ہوتی ہے اور نرم بٹی کے ساتھ پیش کی جاتی ہے، جو پورے گندم کے آٹے اور گھی (واضح مکھن) سے بنتی ہے۔ چورما بٹی کو کچل کر، اس میں شکر، گھی اور بعض اوقات خشک میوہ جات ملا کر بنایا جاتا ہے اور اسے دال کے ساتھ میٹھا بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ مسالیدار دال، نرم اور تیز بھٹی اور میٹھا چورما کا امتزاج ایک لذیذ اور اطمینان بخش کھانا بناتا ہے۔
- گٹے کی سبزی: چنے کے آٹے کے پکوڑوں سے بنی ایک مشہور ڈش جو مسالا دار دہی کی چٹنی میں ابال کر بنائی جاتی ہے۔
- کیر سانگری: کیر اور سانگری پھلیاں سے تیار کردہ ایک سبزی خور پکوان، جسے مصالحے کے ساتھ پکایا جاتا ہے اور روٹی یا باجرہ کی روٹی کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے
- بیسن کے گٹے: چنے کے آٹے کے پکوڑی سے بنی ایک ڈش جسے ٹماٹر، دہی اور مسالوں سے بنا مسالے دار گریوی میں ابال کر تیار کیا جاتا ہے۔
- آلو بھجیا: آلو سے تیار کردہ ایک ڈش، جسے مصالحے کے ساتھ پکایا جاتا ہے اور روٹی یا باجرے کی روٹی کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے۔
- کچری کی سبزی: کچری کی سبزی سے تیار کی جانے والی ایک ڈش، جسے مصالحے کے ساتھ پکایا جاتا ہے اور روٹی یا باجرے کی روٹی کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے۔
- رابڑی: گاڑھے دودھ سے بنی ایک میٹھی ڈش اور الائچی اور زعفران کے ساتھ ذائقہ دار۔
- گھیور: ایک میٹھی ڈش جسے ہم مقصدی آٹے، سوجی اور گھی سے بنا کر تلی ہوئی اور ربڑی کے ساتھ پیش کی جاتی ہے۔
- پنی: ایک میٹھی ڈش جو پورے گندم کے آٹے، گھی اور گڑ سے بنی ہوتی ہے، جسے چھوٹی گیندوں کی شکل دی جاتی ہے اور اسے میٹھے کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔
- مالپوا: ایک میٹھی ڈش جسے تمام مقصد کے آٹے، دودھ اور چینی کے بلے سے بنایا جاتا ہے، اسے تلی ہوئی اور ربڑی کے ساتھ پیش کی جاتی ہے۔
- آچار گوشت: بھیڑ یا بکرے کے ساتھ تیار کردہ ایک مسالیدار گوشت کا پکوان، جس کا ذائقہ اچار کے مصالحے کے ساتھ ہوتا ہے۔
- ساگ گوشت: ایک گوشت کا پکوان جسے بھیڑ یا بکرے کے ساتھ بنایا جاتا ہے اور پالک اور مسالوں کے آمیزے سے پکایا جاتا ہے۔
- دہی بھلہ: مسالا دار دہی میں بھگو کر دال کے پکوڑی سے بنا ایک مشہور ناشتا۔
- پیش کڑی: ایک روایتی پکوان ہے جو ابلے ہوئے چاولوں کے پانی سے تیار کیا جاتا ہے اس میں مسالا جات اور دیسی اشیاء کا تڑکا لگا کر ایک مزیدار سی کڑی بنتی ہے۔ جسے چاولوں کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے۔
- شکر مکھنی رول: ایک لذت افزوں میٹھی ڈش ہے گندم کی روٹی، شکر، مکھن اور خشک میوہ جات سے بنائی جاتی ہے۔ ان سب آشیا کو روٹی پر پھیلا کر رول کیا جاتا ہے
یہ پکوان ان بہت سے لذیذ پکوانوں میں سے صرف چند ہیں جو گجر کھانوں کا حصہ ہیں۔ فہرست مکمل نہیں ہے، کیونکہ کھانا کافی متنوع ہیں اور ہر وقت نئی ترکیبیوں اور کھانا پکانے کی تکنیکوں کے ساتھ تیار ہوتا رہتا ہے۔
روایتی لباس
گجروں کا روایتی لباس علاقے اور جنس کے لحاظ سے مختلف ہوتا ہے۔ تاہم، ان کے روایتی لباس میں کچھ عام عناصر شامل ہیں۔
مردوں کے لیے:
- کُرتا / قمیض: "ایک لمبی قمیض جو عام طور پر سوتی یا ریشم سے بنی ہوتی ہے اور پاجامہ، ڈھیلے فٹنگ شلوار یا دھوتی کے ساتھ پہنی جاتی ہے۔ شلوار قمیض عام طور پر کاٹن، بوسکی، کھدر اور لٹھا کے بنائے ہوئے پسند کیے جاتے ہیں"
- پگڑی: کپڑے کا ایک لمبا ٹکڑا جو سر کے گرد مختلف انداز میں لپیٹا جاتا ہے۔ علاقے اور ثقافتی روایت کے لحاظ سے پگڑی کا رنگ اور انداز مختلف ہو سکتا ہے۔
- واسکٹ: بغیر کالر والی، بٹن والی جیکٹ جو عام طور پر کرتا کے اوپر پہنی جاتی ہے۔
- شال: اون کی سادہ چادر جو دائیں بازو کے نیچے سے گزار کر بائیں کندھے اوپر عزت اور شان و شوکت کی علامت کے طور پر اوڑھی جاتی ہے۔
- کھسہ اور کھیڑی:ایک قسم کے پیچیدہ اور خوبصورت کڑھائ والے جوتے جو چمڑے اور مختلف اجزاء سے بنائے جاتے ہیں اور عام طور پر گجر پہنتے ہیں۔ شادی کے ملبوسات میں دولہا کی کمربند کے ساتھ خوبصورت ڈیزائن شدہ نیام میں بند تلوار لٹکانے کا بھی رواج ہے۔
خواتین کے لیے:
- کُرتی: ایک لمبی، ڈھیلی ڈھالی قمیض جو کُرتے سے ملتی جلتی ہے، لیکن اکثر پیچیدہ کڑھائی اور دیدہ زیب چیزوں سے مزین ہوتی ہے۔
- لہنگا: ایک لمبی اسکرٹ جو کرتی کے ساتھ پہنی جاتی ہے۔ جو ٹخنوں تک گرتا ہے اور عام طور پر ہلکے سوتی یا ریشم کے کپڑے سے بنایا جاتا ہے۔ یہ چمکدار رنگ کا ہے اور پیچیدہ کڑھائی، آئینے کے کام اور موتیوں کے کام سے بہت زیادہ مزین ہے۔
- چوریدار: ایک طرح کا فٹنگ والا پاجامہ جو لہنگا کے نیچے پہنا جاتا ہے، جو پہننے والے کے لیے آرام دہ اور پرسکون فٹ فراہم کرتا ہے۔
- دوپٹہ: ایک لمبا اسکارف جو اکثر شائستگی اور حیا کی علامت کے طور پر سر اور کندھوں پر لپٹا ہوتا ہے۔
- ان روایتی لباس کے علاوہ، گجر خواتین اپنے لباس کی تکمیل کے لیے زیورات، جیسے بالیاں، ہار، نتھنی، انگھوٹی، بریسلیٹ اور پازیب بھی پہنی ہیں۔ یہ زیورات اکثر سونے یا چاندی سے بنے ہوئے انتہائی آرائشی ہوتے ہیں، جس میں پیچیدہ ڈیزائن اور قیمتی پتھر شامل ہوتے ہیں۔شادی کے ملبوسات میں دلہن کی کمربند کے ساتھ مقفل شدہ چاقو لٹکانے کا بھی رواج ہے۔
برصغیر کے شمالی علاقوں میں پائے جانے والے قبائلی گجر خواتین ہلکے سوتی یا ریشم سے بنے لمبے، بہتے ہوئے کپڑے پہنتی ہیں۔یہ کپڑے عام طور پر چمکدار رنگ کے ہوتے ہیں اور پیچیدہ کڑھائی، موتیوں کے کام یا دیگر زیورات سے سجے ہوتے ہیں۔ ٹھنڈی پہاڑی ہوا میں گرم رہنے کے لیے، خواتین اون یا دیگر گرم مواد سے بنی جیکٹس یا شالیں بھی پہنتی ہیں۔ قبائلی خواتین گھریلو سلی ہوئی گول ٹوپیاں پہنتی ہیں جسے "پٹکا" بھی کہا جاتا ہے ، یہ پٹکا عام طور پر چمکدار رنگ کے یا پیٹرن والے تانے بانے سے بنائے جاتے ہیں اور انھیں پیچیدہ ڈیزائنوں یا ٹیسلوں سے سجایا جا سکتا ہے جسے کپڑے کے ایک لمبے ٹکڑے کے ساتھ جوڑا جاتا ہے جسے "مینڈیان" کہتے ہیں۔ ان ملبوسات کی تکمیل اور خوبصورتی کو مزید بڑھانے کیلیِے قبائلی گجر خواتین بھاری اور بڑے زیورات زیب تن کرتی ہیں جو روایتی انداز میں عموما چاندی کے بنے ہوتے ہیں۔ ان کے ملبوسات بھرپور اور دلکش طرز زندگی کا خوبصورت مظہر ہیں۔
یہ بات قابل غور ہے کہ یہ روایتی لباس ضروری نہیں کہ روزانہ کی بنیاد پر پہنا جائے اور اکثر خاص مواقع جیسے شادیوں اور مذہبی تقریبات کے لیے مخصوص ہوتے ہیں۔ عام طور پر، گجروں کا روایتی لباس کمیونٹی کی ثقافت اور اقدار کی عکاسی کرتا ہے، بشمول شائستگی اور بزرگوں کا احترام۔
رہن سہن
گجروں کی طرز زندگی ان کے مقام اور سماجی حیثیت کے لحاظ سے مختلف ہوتی ہے۔ عام طور پر، گجر جو دیہی علاقوں میں رہتے ہیں ان کا ذریعہ معاش گاؤں میں بسنے والی دوسری اقوام کی طرح زراعت اور مویشی مثلا گائے، بھینس، بکری جیسے جانور پالنا اور انھیں فروخت کرنا ہے۔ وہ ڈیری فارمنگ، زراعت کی مصنوعات مثلا آٹا، چاول وغیرہ کے کاروبار میں بھی مشغول ہیں اور مقامی بازاروں اور نزدیکی شہروں میں ان مصنوعات کو فروخت کرتے ہیں۔ دیہی علاقوں میں ان کا رہن سہن بہت سادہ، فعال، روایتی اور زرعی نوعیت کا عکاس ہوتا ہے۔ دیہی علاقوں میں، گجر گھر اکثر مٹی یا اینٹوں سے بنے ہوتے ہیں اور ان پر، لکڑی، لوہے، مٹی، کانے اور کھجلی یا ٹین کی چھتیں ہوتی ہیں۔ وہ عام طور پر ایک یا دو منزلہ اونچے ہوتے ہیں اور سامنے ایک بڑا سا صحن ہوتا ہے۔ گھروں کو اکثر چمکدار رنگ کے قالینوں اور ٹیکسٹائل سے سجایا جاتا ہے اور بعض اوقات پیچیدہ نقش و نگار اور لکڑی کے کام کی خصوصیات ہوتی ہیں۔ اب چونکہ جدید ٹیکنالوجی نے دیہی طرز زندگی کو بھی متاثر کیا ہے اس لیے اب گجروں کے اینٹوں اور سیمنٹ سے بنے جدید طرز کے گھر بھی پائے جاتے ہیں۔ دیہی علاقوں کی سطح پر ان کا بہت مضبوط سیاسی اور سماجی رتبہ ہوتا ہے جو انھیں ممتاز رکھتا ہے۔ وہ گاؤں کے معاملات سلجھانے میں بڑا کردار ادا کرتے ہیں۔
شہری علاقوں میں، گجر پیشے لحاظ سے بہت زیادہ متنوع ہو سکتے ہیں، بشمول مزدوری، کھیلوں، سیاست، مذہب، مختلف کاروبار کی ملکیت(جس میں خوراک کا کاروبار سرفہرست ہے) اور سرکاری ملازمتیں(جس میں پولیس اور فوج سرفہرست ہیں)۔ گجر فطرتی طور پر نوکری کی بجائے ذاتی کاروبار کو زیادہ ترجیح دیتے ہیں۔ حالیہ برسوں میں، شہروں کی ترقی اور خوش حالی میں اضافہ کے ساتھ، شہروں میں گجروں کے اینٹوں اور کنکریٹ سے بنے مزید جدید اور فرنشڈ گھر پائے جاتے ہیں۔ ان گھروں میں بجلی اور بہتا ہوا پانی ہوتا ہے اور یہ جدید سہولیات جیسے ایئر کنڈیشنگ اور ٹیلی ویژن سے لیس ہوتے ہیں۔ تاہم، وہ اب بھی اپنی ثقافتی جڑوں سے مضبوط روابط برقرار رکھتے ہیں اور روایتی رسوم و رواج اور عقائد پر عمل پیرا ہیں۔
جنوبی ایشیا کے شمالی علاقہ جات میں بسنے والے قبائلی گجر جو خانہ بدوشوں چرواہوں کی طرح زندگی بسر کرتے ہیں۔وہ جانوروں (بھیڑ، بکری، بھینس اور گائے) اور ان کی ڈیری مصنوعات کو فروخت کر کے اپنا گذر بسر کرتے ہیں۔ان کے گھر روایتی خیموں کی طرح ہوتے جو کپڑے یا کینوس سے بنے ہوتے ہیں اور ان کو آسانی سے جمع اور جدا کرنے کے لیے ڈیزائن کیا جاتا ہے تاکہ گجر چرواہے اپنے جانوروں کے ریوڑ کے ساتھ سفر کرتے وقت اپنے گھر ان کے ساتھ منتقل کر سکیں۔ گجر خیموں کے اندرونی حصے میں عام طور پر سونے کی جگہ، کھانا پکانے کی جگہ اور سامان اور سامان رکھنے کی جگہ ہوتی ہے۔ خیموں کو عام طور پر روایتی نمونوں اور ڈیزائنوں سے سجایا جاتا ہے اور یہ گجر ثقافت اور ورثے کا ایک اہم حصہ ہیں۔ ان کے سادہ ڈیزائن کے باوجود، گجر خیمے خانہ بدوش طرز زندگی کی ضروریات کے لیے موزوں ہیں، جو گجروں کے سفر کے دوران ایک آرام دہ اور فعال گھر فراہم کرتی ہیں۔اس بات سے قطع نظر کہ وہ جہاں بھی رہتے ہیں، گجر اپنے قریبی برادری کے رشتوں اور مضبوط سماجی ڈھانچے کے لیے جانے جاتے ہیں۔ وہ خاندان، برادری اور اپنے گھروں کو بہت اہمیت دیتے ہیں اور مہمان نوازی اور بزرگوں کا احترام جیسی روایتی اقدار کو بہت زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔
تہوار
گجروں کا ثقافتی اور مذہبی پس منظر کا متنوع ہے اور وہ سال بھر میں کئی تہوار مناتے ہیں۔ یہ تہوار خاندان اور برادری کے افراد کے لیے اکٹھے ہونے اور منانے کا موقع ہوتے ہیں۔ کچھ مذہبی تہوار، کچھ علاقائی اور کچھ ان کے اپنے ثقافتی تہوار ہیں۔گجروں کی طرف سے منائے جانے والے چند بڑے تہواروں کی یہ ہیں۔ اسلامی تہوار میں عیدالفطر، عیدالاضحٰی، عید میلادالنبی، یوم عاشورہ، شب برات، شب معراج اور ہندو تہوار میں تیج تہوار، ہولی، دیوالی، ناگ پنچمی، رکشا بندھن، نوراتری، جنم اشتامی شامل ہیں۔ مسلم گجر اسلامی تہوار اور ہندو گجر ہندوانہ تہوار مناتے ہیں۔ علاقائی اور گجر تہوار جو گجر بڑے جوش و خروش سے مناتے ہیں ان میں بسنت، بیساکھی، لوہڑی، تییاں، جشن بہاراں، نوروز، بین الاقوامی گجر ڈے، مہر بھوج جیانتی، پرتھوی راج چوہان جیانتی وغیرہ شامل ہیں۔ یہ گجر برادری کے منائے جانے والے بہت سے تہواروں میں سے چند ایک ہیں۔ صحیح تقریبات اور روایات علاقے سے دوسرے علاقے اور خاندان سے دوسرے خاندان میں مختلف ہو سکتی ہیں، کیونکہ کمیونٹی متنوع اور وسیع ہے۔
موسیقی اور رقص
گجروں کی موسیقی اور رقص کی ایک بھرپور روایت ہے، جو ان کے ثقافتی ورثے کا ایک اہم حصہ ہیں اور کمیونٹی کی سماجی اور ثقافتی زندگی میں اہم کردار ادا کرتے رہتے ہیں۔گجر لوک موسیقی روایتی آلات جیسے ڈھول (ایک دو سر والا ڈھول)، سارنگی (ایک جھکا ہوا تار والا آلہ)، منجیرا (چھوٹے جھانجھوں کا جوڑا) اور ہارمونیم (کی بورڈ کا ایک آلہ) کے استعمال سے نمایاں ہے۔ موسیقی عام طور پر فطرت میں عقیدت مند ہوتی ہے اور اسے مذہبی اور ثقافتی تہواروں، شادیوں اور دیگر خاص مواقع کے دوران پیش کیا جاتا ہے۔گجر رقص لوک رقص کی ایک متحرک اور پُرجوش شکل ہے جو مرد اور عورت دونوں کرتے ہیں۔ سب سے زیادہ مقبول گجر رقص گھومر ہے، جو ایک روایتی لوک رقص ہے جو خواتین کی طرف سے سرکلر شکل میں، موسیقی اور گانے کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے۔ دیگر مقبول گجر رقص میں بھنگڑا، گِدّھا، ککلی، کالبیلیا بھوائی، دف، رسیا اور وغیرہ وغیرہ شامل ہیں۔مجموعی طور پر، گجر موسیقی اور رقص گجر برادری کے شاندار ثقافتی ورثے کے تحفظ اور فروغ میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ وہ لوگوں کو اکٹھا کرتے ہیں، ثقافتی روایات کو برقرار رکھنے میں مدد کرتے ہیں اور جذبات اور خیالات کے اظہار کا ذریعہ فراہم کرتے ہیں۔
دستکاری
گوجر ثقافت بہت لاجواب اور متنوع ہے اور یہ کمیونٹی کی طرف سے تیار کردہ روایتی دستکاری میں جھلکتی ہے۔ گجر خواتین دستکاری میں اپنے پیچیدہ ڈیزائنوں، روشن رنگوں اور مضبوط ثقافتی ورثے کے لیے مشہور ہیں۔ گجر ثقافت میں، دستکاری کمیونٹی کے روایتی طرز زندگی کو محفوظ رکھنے اور اسے نسل در نسل منتقل کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ دستکاری گجر ثقافتی تقریبات کا ایک لازمی حصہ ہیں اور اکثر تہواروں اور تقریبات کے دوران گھروں اور کپڑوں کو سجانے کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ گجر برادری مختلف قسم کے دستکاریوں میں انتہائی مہارت رکھتی ہے، بشمول کڑھائی، موتیوں کا کام، قالین بُنائی اور چمڑے کے سامان۔ یہ روایتی دستکاری اکثر والدین سے بچوں کو منتقل کر دی جاتی ہے، جو کمیونٹی کے ثقافتی ورثے کے تسلسل کو یقینی بناتی ہے۔ گجر دستکاری میں استعمال ہونے والے پیچیدہ ڈیزائن اور روشن رنگ فطرت کے ساتھ ساتھ کمیونٹی کے خانہ بدوش طرز زندگی سے متاثر ہیں۔ پیٹرن اکثر عناصر جیسے درختوں، پھولوں اور جانوروں کے ساتھ ساتھ روزمرہ کی زندگی کے مناظر کو بھی دکھاتے ہیں۔ مجموعی طور پر، گجر دستکاری کمیونٹی کے ثقافتی ورثے کا ایک اہم حصہ ہیں اور کاریگروں کے لیے آمدنی کا ذریعہ ہیں۔ ان کی خوبصورتی، معیار اور ثقافتی اہمیت کی وجہ سے ان کی بڑے پیمانے پر تلاش کی جاتی ہے اور گوجر برادری اور دوسرے لوگ جو روایتی فنون اور دستکاری کی قدر کرتے ہیں دونوں کی طرف سے ان کی تعریف کی جاتی ہے۔
زبان
گجر لسانی اعتبار سے بہت زیادہ متنوع ہیں۔ اگرچہ وہ جس علاقے اور ملک رہتے ہیں وہیں کی زبان بولتے ہیں، گجروں کی اپنی ایک الگ زبان بھی ہے، جسے گوجری کے نام سے جانا جاتا ہے۔ گرجری یا گوجری ایک ہند آریائی زبان ہے جسے برصغیر کے شمالی علاقہ جات میں بسنے والے قیام پزیر اور خانہ بدوش گجر، آرائیں اور راجپوت بولتے ہیں۔ گرجری کو ایک وقت میں صدیوں تک ہندوستانی کی سرکاری زبان کا درجہ حاصل رہا ہے اور اس کا ایک بھرپور تاریخ اور ثقافتی ورثہ ہے۔ جس نے دوسری علاقائی زبانوں جن میں ہریانوی، میواتی، راجستھانی، گجراتی، پنجابی، سندھی، مارواڑی، ہندی، اردو جیسی زبانیں شامل ہیں، پر اپنے انمٹ نقوش چھوڑے ہیں۔ اسی لیے ان علاقوں میں قیام پزیر گجر ان زبانوں کو ہی اپنی زبان مانتے ہیں۔ تاہم، اس میں متعدد منفرد خصوصیات اور خصوصیات بھی ہیں جو اسے دیگر شمالی ہندوستانی زبانوں سے ممتاز کرتی ہیں۔
گُرجری کا گجر برادری کے ادب پر محدود اثر پڑا ہے، کیونکہ زبان میں اچھی طرح سے ترقی یافتہ تحریری روایت نہیں ہے۔ تاہم، یہ اب بھی کمیونٹی کے ثقافتی ورثے کا ایک اہم حصہ ہے اور اسے زبانی کہانی سنانے اور زبانی اظہار کی دیگر شکلوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔ حالیہ برسوں میں گُرجری کے تحفظ اور فروغ کے لیے کچھ کوششیں کی گئی ہیں، بشمول ٹیکنالوجی اور سوشل میڈیا کے استعمال کے ذریعے۔ مثال کے طور پر، کچھ تنظیمیں زبان سیکھنے اور سکھانے کے لیے وسائل پیدا کرنے کے لیے کام کر رہی ہیں، جیسے آڈیو اور ویڈیو ریکارڈنگ، ٹیکسٹ میٹریل اور تعلیمی پروگرام۔ ان کوششوں کے باوجود، گُرجری کا استعمال کم ہو رہا ہے، خاص طور پر نوجوان نسلوں میں جو ہندی، اردو یا انگریزی جیسی وسیع پیمانے پر استعمال ہونے والی زبانیں بولتے ہیں۔ اس کی وجہ سے زبان کے مستقبل اور گجر ثقافتی شناخت میں اس کے کردار کے بارے میں خدشات پیدا ہوئے ہیں۔ خلاصہ یہ کہ گوجری نے گرجر برادری کی ادبی روایت پر محدود اثر ڈالا ہے، لیکن یہ ان کے ثقافتی ورثے کا ایک اہم حصہ ہے اور اسے محفوظ رکھنے اور فروغ دینے کے قابل ہے۔
مذہب
مذہب کا کسی بھی قوم کی طرز زندگی اور ثقافت پر بڑا گہرا اثر پڑتا ہے۔ گجر کئی مذاہب کی پیروی کے لیے جانے جاتے ہیں، جن میں ہندومت، اسلام، سکھ مت اور بدھ مت شامل ہیں۔ بھارت میں گجروں کی اکثریت ہندو ہے اور وہ ہندو رسم و رواج کی پیروی کرتے ہیں۔ ہندو مذہب کا ان کی ثقافت پر خاصا اثر پڑا ہے اور وہ ہندو تہواروں جیسے ہولی اور دیوالی کو مناتے ہیں۔پاکستان میں، گجروں کی ایک قابل ذکر تعداد اسلام کی پیروی کرتی ہے اور وہ عید الفطر اور عید الاضحی جیسے مسلمانوں کے مذہبی طریقوں اور تہواروں کا مشاہدہ کرتے ہیں۔ پاکستان میں گجروں کی ثقافت کی تشکیل میں اسلام نے اہم کردار ادا کیا ہے اور وہ اسلامی رسوم و رواج کی پیروی کرتے ہیں۔ہندوستان اور پاکستان میں گجروں کی ایک اقلیت سکھ اور بدھ مت کی پیروی کرتی ہے اور ان مذاہب نے ان کی ثقافت اور طرز زندگی کو بھی متاثر کیا ہے۔آخر میں، گجروں کے پیروی کرنے والے مختلف مذاہب نے ان کے عقائد، طریقوں، رسوم و رواج اور روایات کو تشکیل دیتے ہوئے ان کی ثقافت پر گہرا اثر ڈالا ہے۔ گوجر برادری کے اندر متعدد مذاہب کا بقائے باہمی ہندوستان، پاکستان اور افغانستان کے متنوع ثقافتی ورثے کی عکاسی کرتا ہے۔مجموعی طور پر، گجر برادری کا ایک بھرپور اور متنوع ثقافتی ورثہ ہے جو ان کی شناخت کا ایک اہم حصہ ہیں۔
گجروں کے جسمانی خدوخال
گجر قوم کی جسمانی خصوصیات ہندوستان میں وارد ہونیوالے آریائی اور سیتھین قبائل سے کافی مماثلت رکھتی ہے جس کی تفصیل کچھ یوں ہے اور یاد رہے سیتھین بھی اریائی نسل (ایرانی) سے تعلق رکھتے تھے.
آنکھیں: سائز کے اعتبار سے بڑی اور ہلکی سی گہری ہوتی ہیں اور رنگ کے لحاظ سے کالی، بھوری، نیلی، سبز اور سرمئی ہوتی ہیں
ناک: عموما اونچی، لمبی اور متوسط درجے کی ہوتی ہے، موٹی اور تیکھی دونوں ہی پائی جاتی ہے
بال: اکثر سیدھے اور کالے رنگ کے ہوتے ہیں۔ شمالی علاقہ جات میں رہنے والے گجروں میں بھورے اور گہرے بھورے رنگ کے بھی بال پائے جاتے ہیں
رنگت: کے اعتبار سے گجر سفید، گندمی اور سانولا تینوں رنگ کے ہی پائے جاتے ہیں
جسامت: گجر جسامت کے اعتبار سے بہت مضبوط، لمبے، چوڑے اور جوان ہوتے ہیں۔ اسی لیے باڈی بلڈنگ، ریسلنگ اور کشتی کے کھیلوں میں کافی زیادہ تعداد میں پائے جاتے ہیں۔
گجروں کی سلطنتیں
گجروں کے القابات
گجر قوم سے تعلق رکھنے والے حضرات مندرجہ ذیل میں دیے گئے القابات استعمال کرتے ہیں ان میں سے اکثر دوسری برادریوں کے لوگ بھی استعمال کرتے ہیں۔ واضح رہے نیچے دیے گئے القابات صرف ٹائٹلز ہیں کوئی قوم یا برادری نہیں۔
گجروں کے قبائل
گجر شخصیات
مزید دیکھیے
حوالہ جات
- ^ ا ب پ ت ٹ Correspondent HT (Jun 03, 2007)۔ "Who are the Gujjars?"۔ Hindustan Times۔ Hindustan Times۔ اخذ شدہ بتاریخ November 26, 2022
- ↑ Sial Ali (May 20, 2016)۔ "History of Gujjar Caste in Pakistan"۔ HE۔ he.com.pk۔ اخذ شدہ بتاریخ November 26, 2022
- ^ ا ب Pajhwok Afghan News (4 جنوری 2021)۔ "Govt has long ignored our problems, needs: Gujars"۔ Pajhwok Afghan News۔ Pajhwok.com۔ اخذ شدہ بتاریخ 27 نومبر 2022
- ↑ Shail Mayaram (2017)۔ ""The Story of the Gujars""۔ In Vijaya Ramaswamy (ed.). Migrations in Medieval and Early Colonial India.: 67 – Taylor & Francis سے
- ↑ کلبھوشن واریکو (2000)۔ گجرز آف جموں اینڈ کشمیر۔ اندرا گاندھی راشٹریا مانو سنگرالیہ۔ صفحہ: 8
- ↑ اُوپیندرا ٹھاکر (1974)۔ سم آسپیکٹس آف ایشیئنٹ انڈین ہسٹری اینڈ کلچر۔ ابھینو پبلیکیشنز۔ صفحہ: 80
- ↑ احمد غزالی (1987)۔ ساندل بار: وسطی پنجاب کہ کہانی لوک روایات کی زبانی۔ فیروز سنز۔ صفحہ: 127۔ ISBN 9789690008060
- ↑ Shail Mayaram (2017)۔ ""The Story of the Gujars""۔ In Vijaya Ramaswamy (ed.). Migrations in Medieval and Early Colonial India.: 67 – Taylor & Francis سے
- ↑ https://www.flickr.com/photos/78799742@N05/14727529361/in/photostream
- ↑ https://www.flickr.com/photos/78799742@N05/14544134410/in/photostream
- ↑ "گجر آبادی"
- ↑ "پنجاب میں آبادی"
- ↑ https://books.google.com.pk/books?id=K7ZZzk8cXh8C&pg=PA9&redir_esc=y
- گوجر۔ معارف اسلامیہ
- ڈاکٹر معین الدین، عہد قدیم اور سلطنت دہلی
- حسن علی چوہان، تاریخ گوجر
- نور الدین جہانگیر، تزک جہانگیری
- جیمزٹاڈ۔ تاریخ راجستان جلد اول
- ڈاکٹر معین الدین، اقدیم مشرق جلد دؤم
- گجر قبائل، کامران اعظم سوہدروی