گوادر کی خریداری یا گوادر کا حصول مملکت پاکستان کی طرف سے سنہ 1958ء میں گوادر کے علاقے کا سلطنت اومان سے رقم کے عوض حصول تھا۔ پاکستان نے ساڑھے پانچ ارب روپے (موجودہ حساب سے دو ارب امریکی ڈالر) کے عوض، ساحل بلوچستان کے ساتھ 15,210 مربع کلومیٹر کی گوادر کی ساحلی پٹی سلطنت اومان سے خریدی۔ یہ تمام رقم سر آغا خان سوم نے پاکستان کی طرف سے ادا کی تھی۔

گوادر کی مصنوعی سیارچہ سے تصویر

یہ سودا اس وقت کے وزیر اعظم پاکستان، فیروز خان نون اور سلطنت اومان کے سلطان، سعید بن تیمور کی کوششوں سے طے ہوا اور پاکستان 8 ستمبر، 1958ء کو یہ علاقہ خریدنے میں کامیاب ہوا اور 8 دسمبر، 1958ء کو گوادر کا علاقہ سرکاری طور پر مملکت پاکستان کا حصہ بن گیا.[1][2]

پاکستان کی طرف منتقلی

ترمیم

7 ستمبر، 1958ء کو وزیر اعظم پاکستان فیروز خان نون نے ریڈیو پاکستان پر درج ذیل اعلان کیا:

"حکومت پاکستان نے ایک اعلامیہ جاری کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ گوادر کی بندرگاہ اور اس کے اندرونی علاقوں کی انتظامیہ جو سنہ 1784ء سے مسقط اور عمان کے سلطان کے قبضے میں تھی، آج پاکستان نے مکمل خود مختار حقوق کے ساتھ اپنے قبضے میں لے لیا ہے۔ گوادر کے لوگ پاکستان کے لوگوں میں شامل ہو گئے ہیں اور پورا گوادر اب اسلامی جمہوریہ پاکستان کا حصہ بن گیا ہے۔ میں جانتا ہوں کہ گوادر میں رہنے والوں سمیت پورے پاکستان کے عوام نے اس اعلان کو انتہائی مسرت کے ساتھ سنا ہے۔ میں گوادر کے باشندوں کو جمہوریہ پاکستان میں خوش آمدید کہتا ہوں اور میں انھیں یقین دلانا چاہتا ہوں کہ وہ مذہب، ذات پات یا عقیدے سے بالاتر ہو کر تمام پاکستانی شہریوں کے ساتھ مساوی حقوق اور مراعات حاصل کریں گے۔ اس جمہوریہ کی شان اور خوش حالی جس سے اب ان کا تعلق ہے، میں برابر کے حصہ دار ہوں گے. گوادر کے باسی جن میں زیادہ تر کا تعلق بہادر بلوچ برادری سے ہے، کا پاکستان سے قریبی نسلی تعلق ہے اور ریاست پاکستان سے الحاق  ان کی سیاسی خواہشات کا حقیقی مظہر ہے۔ میں اس موقع پر پاکستان کے عوام اور حکومت کی طرف سے برطانیہ میں ملکہ محترمہ کی حکومت کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں کہ ان کی مدد اور تعاون کے لیے جس کی وجہ سے مسقط اور عمان کے سلطان کے ساتھ، گوادر میں ان کے حقوق کی منتقلی کے لیے ہمارے مذاکرات کامیاب ہوئے۔"[3]

حوالا جات

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم
  1. "Who do we thank for Gwadar?"۔ Daily Times (بزبان انگریزی)۔ 2018-05-22۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 دسمبر 2022 
  2. "Economic & Strategic Significance of Gwadar Port"۔ Daily Times (بزبان انگریزی)۔ 2020-11-30۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 دسمبر 2022 
  3. Rafaqat, Hussain. "Gwadar in Historical Perspective" (PDF). MUSLIM Institute.