گوادر

بلوچستان، پاکستان کا بندرگاہی شہر

گوادر شہر پاکستان کے جنوب مغرب میں صوبہ بلوچستان میں واقع ہے۔ یہ شہر اپنے خاص محل وقوع کی وجہ سے پہچانا جاتا ہے۔ گوادر دنیا کے سب سے بڑے بحری تجارتی راستے پر واقع اور دنیا کی جدید ترین بندرگاہ کے باعث عالمی سطح پر جانا جاتا ہے۔ 60 کلومیٹر طویل ساحلی پٹی والے شہرِ گوادر اکیسویں صدی کی ضرورتوں سے آراستہ جدید بندر گاہ ہے اور اس کی اہمیت روز بروز بڑھتی جا رہی ہے۔ آنے والے وقت میں گوادر نہ صرف پاکستان بلکہ چین، افغانستان اور وسط ایشیاء کے ممالک کی بحری تجارت کا زیادہ دارومدار اسی بندر گاہ پر ہو گا۔


Gwádar
شہر
گوادر
گوادر
متناسقات: 25°07′35″N 62°19′21″E / 25.12639°N 62.32250°E / 25.12639; 62.32250
صوبہ بلوچستان
ضلعضلع گوادر
آبادی (خانہ و مردم شماری پاکستان 2017ء - وقتی)[1]
 • کل8.8 لاکھ
منطقۂ وقتپاکستان کا معیاری وقت (UTC+5)
فہرست پاکستان کے ڈائلنگ کوڈ086
تعداد قصبہ1
تعداد یونین کونسلیں5
ویب سائٹGwadar Development Authority – GDA

اشتقاقیات

ترمیم

گوادر دراصل بلوچی زبان کے دو الفاظ سے گوات یعنی "کھلی ہوا " اور در کا مطلب" دروازہ" سے بنا ہے یعنی گواتدر (ہوا کا دروازہ)۔ پھر یہ بگڑ کر گوادر بن گیا ۔

تاریخ

ترمیم

گوادر اور اس کے گرد و نواح کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ یہ علاقہ وادی کلانچ اور وادی دشت بھی کہلاتا ہے اس کا زیادہ رقبہ بے آباد اور بنجر ہے۔ یہ مکران کی تاریخ میں ہمیشہ سے ہی خاص اہمیت کا حامل رہا ہے۔ تاریخ کی ایک روایت کے مطابق حضرت داؤد علیہ السلام کے زمانے میں جب قحط پڑا تو وادی سینا سے بہت سے افراد کوچ کر کے وادی مکران کے علاقے میں آ گئے۔ مکران کا یہ علاقہ ہزاروں سال تک ایران کا حصہ رہا ۔ یہ علاقہ ایرانی بادشاہ کیکاؤس اور افراسیاب کے دور میں بھی ایران کی عملداری میں تھا۔ 325 قبل مسیح میں سکندر اعظم جب برصغیر سے واپس یونان جا رہا تھا تو اس نے یہ علاقہ اتفاقاً دریافت کیا اس کی بحری فوج کے سپہ سالار Admiral Nearchos نے اپنے جہاز اس کی بندر گاہ پر لنگر انداز کیے اور اپنی یادداشتوں میں اس علاقے کے اہم شہروں کو قلمات ،گوادر، پشوکان اور چابہار کے ناموں سے لکھا ہے۔ اہم سمندری راستے پر واقع ہونے کی وجہ سے سکندر اعظم نے اس علاقے کو فتح کر کے اپنے ایک جنرل Seleukos Nikator کو یہاں کا حکمران بنا دیا جو 303 قبل مسیح تک حکومت کرتا رہا۔303 ق م میں برصغیر کے حکمران چندر گپت نے حملہ کر کے یونانی جنرل سے یہ علاقہ چھین لیا اور اپنی حکومت میں شامل کر لیا مگر 100سال بعد 202 ق م میں پھر یہاں کی حکمرانی ایران کے بادشاہوں کے پاس چلی گئی۔ 711عیسوی میں مسلمان جرنیل محمد بن قاسم نے یہ علاقہ فتح کر لیا۔ ہندوستان کے مغل بادشاہوں کے زمانے میں یہ علاقہ مغلیہ سلطنت کا حصہ رہا جب کہ 16 ویں صدی میں پرتگیزیوں نے مکران کے متعدد علاقوں جن میں یہ علاقہ بھی شامل تھا پر قبضہ کر لیا۔ 1581ء میں پرتگیزیوں نے اس علاقے کے دو اہم تجارتی شہروں پسنی اور گوادر کو جلا دیا۔ یہ علاقہ متعدد مقامی حکمرانوں کے درمیان میں بھی تختہ مشق بنا رہا اور کبھی اس پر بلیدی حکمران رہے تو کبھی رندوں کو حکومت ملی کبھی ملک حکمران بن گئے تو کبھی گچ کیوں نے اس پر قبضہ کر لیا۔ مگر اہم حکمرانوں میں بلیدی اورگچکی قبیلے ہی رہے ہیں۔ بلیدی خاندان کو اس وقت بہت پزیرائی ملی جب انھوں نے ذکری فرقے کو اپنالیا اگرچہ گچ کی بھی ذکری فرقے سے ہی تعلق رکھتے تھے۔ 1740ء تک بلیدی حکومت کرتے رہے ان کے بعد گچ کیوں کی ایک عرصہ تک حکمرانی رہی مگر خاندانی اختلافات کی وجہ سے جب یہ کمزور پڑے تو خان قلات میر نصیر خان اول نے کئی مرتبہ ان پر چڑھائی کی جس کے نتیجے میں ان دونوں نے اس علاقے اور یہاں سے ہونے والی آمدن کو آپس میں تقسیم کر لیا۔ 1775ء کے قریب مسقط کے حکمرانوں نے وسط ایشیاء کے ممالک سے تجارت کے لیے اس علاقے کو مستعار لے لیا اور گوادر کی بندر گاہ کو عرب علاقوں سے وسط ایشیاء کے ممالک کی تجارت کے لیے استعمال کرنے لگے جن میں زیادہ تر ہاتھی دانت اور اس کی مصنوعات، گرم مصالحے، اونی لباس اور افریقی غلاموں کی تجارت ہوتی۔

 
اورماڑہ، ضلع گوادر کا ساحلِ سمندر

عمان میں شمولیت

ترمیم
گوادر
1783–1958
حیثیتعمانی سمندر پار ملکیت
دار الحکومتگوادر
عمومی زبانیںبلوچی زبان
سلطان 
• 1783
سلطان بن احمد (اول)
• 1932
سعید بن تیمور (آخر)
ولی 
تاریخ 
• 
1783
• 
1958
کرنسیعمانی ریال
پاکستانی روپیہ
ماقبل
مابعد
  خان قلات
صوبہ بلوچستان  
موجودہ حصہبلوچستان (خطہ)، پاکستان

1783ء میں مسقط کے بادشاہ کا اپنے بھائی سعد سلطان سے جھگڑا ہو گیاجس پر سعد سلطان نے خان آف قلات میر نصیر خان کو خط لکھا جس میں اس نے یہاں آنے کی خواہش ظاہر کی چنانچہ خان نے نہ صرف سلطان کو فوری طور پر آ جانے کو کہا بلکہ گوادر کا علاقہ اور وہاں کی آمدن بھی لا محدود وقت کے لیے سلطان کے نام کر دی۔ جس کے بعد سلطان نے گوادر میں آ کر رہائش اختیار کر لی۔1797ء میں سلطان واپس مسقط چلا گیا اور وہاں اپنی کھوئی ہوئی حکومت حاصل کر لی۔ 1804ء میں سلطان کی وفات کے بعد اس کے بیٹے حکمران بن گئے تو اس دور میں بلیدیوں نے ایک بار پھر گوادر پر قبضہ کر لیا جس پر مسقط سے فوجوں نے آ کر اس علاقے کو بلیدیوں سے واگزار کروایا۔ 1838 ء کی پہلی افغان جنگ میں برطانیہ کی توجہ اس علاقہ پر ہوئی تو بعد میں1861ء میں برطانوی فوج نے میجر گولڈ سمتھ کی نگرانی آکر اس علاقے پر قبضہ کر لیا اور 1863ء میں گوادر میں اپنا ایک اسسٹنٹ پولیٹیکل ایجنٹ مقرر کر دیا چنانچہ ہندوستان میں برطانیہ کی برٹش انڈیا اسٹیم نیویگیشن کمپنی کے جہازوں نے گوادر اور پسنی کی بندر گاہوں کو استعمال کرنا شروع کر دیا۔ 1863ء میں گوادر میں پہلا تار گھر (ٹیلی گرام آفس )قائم ہوا جبکہ پسنی میں بھی تار گھر بنایا گیا۔ 1894ء کو گوادر میں پہلا پوسٹ آفس کھلا جبکہ 1903ء کو پسنی اور 1904ء کو اورماڑہ میں ڈاک خانے قائم کیے گئے۔ 1947ء میں جب برصغیر کی تقسیم ہوئی اور بھارت اور پاکستان کے نام سے دو بڑی ریاستیں معرض وجود میں آئیں تو گوادر اور اس کے گرد و نواح کے علاوہ یہ علاقہ قلات میں شامل تھا۔

 
گوادر اور اس سے ملحقہ علاقہ انتہائی خوبصورت ہے۔ زیر نظر تصویر میں مکران کوسٹل ہائی وے پہاڑی علاقے میں گزرتی دکھائی دے رہی ہے۔

پاکستان میں شمولیت

ترمیم

8 ستمبر 1958ء کو پاکستان نے گوادر کو عمان سے ساڑھے پانچ ارب روپے میں خرید لیا جس کے ساتھ ہی گوادر کے عرب دور کا سورج غروب ہو گیا۔

1955ء میں اس علاقے کو مکران ضلع بنا دیا گیا تھا، 1958ء میں مسقط نے 10 ملین ڈالرز کے عوض گوادر اور اس کے گرد و نواح کا علاقہ واپس پاکستان کو دے دیا جس پر پاکستان کی حکومت نے گوادر کو تحصیل کو درجہ دے کر اسے ضلع مکران میں شامل کر دیا۔ یکم جولائی 1970ء کو جب ون یونٹ کا خاتمہ ہوا اور بلوچستان بھی ایک صوبے کی حیثیت اختیار کر گیا تو مکران کو بھی ضلعی اختیار مل گئے۔ 1977ء میں مکران کو ڈویژن کا درجہ دے دیا گیا اور یکم جولائی 1977ء کو تربت، پنجگور اور گوادر تین اضلاع بنا دیے گئے ۔

آج کا گوادر

ترمیم
 
گوادر محل وقوع کے اعتبار سے انتہائی اہم جگہ پر واقع ہے

گوادر کا موجودہ شہر ایک چھوٹا سا شہر ہے جس کی آبادی سرکاری اعداد و شمار کے مطابق نصف لاکھ جبکہ آزاد ذرائع کے مطابق ایک لاکھ افراد پر مشتمل ہے۔ اس شہر کو سمندر نے تین طرف سے اپنے گھیرے میں لیا ہوا ہے اور ہر وقت سمندری ہوائیں چلتی رہتی ہیں جس کی وجہ سے یہ ایک خوبصورت اوردلفریب منظر پیش کرتا ہے ویسے بھی گوادرکے معنی "ہوا کا دروازہ" ہے۔گوا کے معنی ہوا اور در کا مطلب دروازہ ہے۔ گہرے سمندر کے علاوہ شہر کے ارد گرد مٹی کی بلند بالا چٹانیں موجود ہیں۔ اس شہر کے باسیوں کا زیادہ تر گذر بسر مچھلی کے شکار پر ہوتا ہے اور دیگر اقتصادی اور معاشی ضرورتیں ہمسایہ ممالک ایران، متحدہ عرب امارات اور اومان سے پوری ہوتی ہیں۔

گوادر شہر مستقبل میں ایک بین الاقوامی شہر کی حیثیت اختیار کر جائے گااور نہ صرف بلوچستان بلکہ پاکستان کا اقتصادی لحاظ سے ایک اہم شہر بن جائے گا اور یہاں کی بندرگاہ پاکستان کے علاوہ چین، افغانستان، وسط ایشیاء کے ممالک تاجکستان، قازقستان، آذربائیجان، ازبکستان، ترکمانستان اور دیگر روسی ریاستوں کے استعمال میں آئے گی جس سے پاکستان کو بیش بہا محصول ملے گا۔گوادر کی بڑھتی ہوئی اہمیت کی وجہ سے اب لوگوں کی توجہ اس طرف ہو چکی ہے چنانچہ ایسے میں بے شمار فراڈیوں اور دھوکے بازوں نے بھی جعلی اور دو نمبر رہائشی سکیموں اور دیگر کالونیوں کی آڑ میں لوگوں کو لوٹنا شروع کر رکھا ہے کیونکہ پاکستان کے دیگر شہروں سے تعلق رکھنے والے افراد گوادر کی اصل صورت حال سے بے خبر ہونے کی وجہ سے ان فراڈیوں کی چکنی چپڑی باتوں اور دلفریب اشتہارات کی وجہ سے ان کے جال میں پھنس کر اپنی جمع پونجی سے محروم ہو رہے ہیں جبکہ یہاں ایسی سکیمیں جن کو گوادر دویلپمنٹ اتھارٹی نے این او سی بھی جاری کر رکھی ہیں مگر ان کی ابھی ابتدا بھی نہیں ہو سکی اور وہ اپنے پوسٹروں اور پمفلٹوں پر دوبئی اور ہانگ کانگ کے مناظر اور عمارتیں دکھا کر لوگوں کو بے وقوف بنا رہے ہیں ویسے بھی گوادر میں پینے کے پانی کی کمی، سیوریج کے نظام کی عدم دستیابی اور دیگر عمارتی سامان کی عدم موجودگی کی وجہ سے نہ صرف پرائیویٹ سیکٹر بلکہ سرکاری سیکٹر میں بھی کوئی خاص کام شروع نہیں ہو سکا ماسوائے سی پورٹ اور چند ایک عمارتیں جن میں پرل کانٹی نینٹل اور دیگر منصوبوں کے جن پر کام مکمل ہو چکا ہے۔ جبکہ موجودہ گوادر شہر میں ٹوٹی ہوئی سڑکیں، چھوٹی چھوٹی تنگ گلیاں اور بازاروں میں گندگی کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں ۔

گوادر ڈویلپمنٹ اتھارٹی ایک چیئرمین، ڈائریکٹر جنرل اور گورننگ باڈی جس میں دو وفاقی وزیر ،ایک صوبائی وزیر ،ڈسٹرکٹ ناظم اور ایڈیشنل چیف سیکرٹری ہوتے ہیں پر مشتمل ایک ادارہ ہے۔ جی ڈی اے کے ماسٹر پلان کے مطابق گوادر شہر کا علاقہ موجودہ پوری گوادر تحصیل کے برابر ہے اور شہر کی بڑی سڑکیں 200فٹ چوڑی اور چار لین پر مشتمل ہو نگی جبکہ ان سڑکوں کے دونوں جانب 2/2لین کی سروس روڈ ہو گی اور شہر کے مین روڈ کا نام جناح ایونیو رکھا گیا ہے جو تقریباً14کلو میٹر طویل ہے اور اسی طرح بلوچستان براڈوے بھی200فٹ چوڑی اور سروس روڈ پر مشتمل ہو گی اور اس کی لمبائی تقریباً60کلو میٹر ہے جبکہ سمندر کے ساتھ ساتھ تقریباً24کلو میٹر سڑک تعمیر ہو گی اور جو چوڑائی کے لحاظ سے جناح ایونیو کی ماند ہو گی۔ یہ سڑکیں نہ صرف ایشیاءبلکہ یورپ کے بہت سے ممالک کے شہروں سے بھی بڑی سڑکیں ہو ں گی۔ اب تک ترقیاتی کاموں پر تقریباً60سے70ملین روپے خرچ ہو چکے ہیں اور وقت کے ساتھ ساتھ یہ اخراجات بھی بڑھتے چلے جائیں گے۔ شہر میں ترقیاتی کاموں میں تاخیر اور سستی کی سب سے اہم وجہ میٹریل کا دور دراز علاقوں سے لایا جا ناہے جیسے ریت 135کلو میٹر سے لایا جاتا ہے جبکہ سیمنٹ اور سریا وغیرہ 800کلو میٹر دور کراچی سے لایا جاتا ہے۔ موجودہ گوادر شہر صرف 800میٹر لمباہے جبکہ ماسٹر پلان کے مطابق آنے والے دنوں میں گوادر تقریباً40کلومیٹر عریض اور60کلو میٹر طویل ہو گا۔ اب تک جی ڈی اے نے قانون کے مطابق رہائشی، انڈسٹریل اور کمرشل نوعیت کی30 سے زائد سکیموں کے این او سی جاری کیے ہیں جبکہ سرکاری سکیمیں اس وقت 2ہیں جن میں سنگار ہاؤسنگ سکیم جو تقریباً 13کلو میٹر لمبی اور4.5کلو میٹر چوڑی سمندر میں مٹی کی پہاڑی پر ہے جبکہ دوسری سرکاری سکیم نیو ٹاؤن کے نام سے ہو گی جس کے 4فیز ہو ں گے اور اس میں 120گز سے 2000گز کے پلاٹ ہو ں گے۔ گوادر فری پورٹ نہیں بلکہ ٹیکس فری زون شہر ہو گا۔ جی ڈی اے نے این او سی جاری کرتے وقت پرائیویٹ اداروں کو اس بات کا پابند کیا ہے کہ وہ اپنی اپنی سکیموں میں پینے کے پانی کا انتظام کریں گے اور سمندر کا پانی صاف کرنے کے پلانٹ لگائیں گے جبکہ سیوریج کے پانی کے نکاس کا بھی ایسا انتظام کیا جا رہا ہے کہ گندا پانی سمندر میں شامل ہو کر اسے آلودہ نہ کرے اور کراچی جیسی صورت حال پیدا نہ ہو اور اس مقصد کے لیے ہر پرائیویٹ سکیم کو بھی پابند کیا ہے کہ وہ سیوریج کے پانی کو صاف کرنے کے ٹریٹمنٹ اور ری سائیکلنگ پلانٹ لگائیں اور اس پانی کو گرین بیلٹ اور پارکوں میں استعمال کیا جائے۔ اب گوادر شہر میں آکڑہ ڈیم سے پینے کا پانی آتا ہے جو 45ہزار کی آبادی کے لیے کافی تھا مگر اب آبادی میں اضافہ کی وجہ سے پانی کا مسئلہ پیدا ہو گیا اور موجودہ پانی کی مقدار کم پڑ گئی کیونکہ اب گوادر کی آبادی ایک لاکھ کے لگ بھگ ہے اور آنے والے دنوں میں اس میں اضافہ ہوتا چلا جائے گا جس کے لیے میرانی ڈیم کے منصوبے پر کام ہو رہا ہے مگر یہ گوادر سے 120کلو میٹر دور ہے جہاں سے پانی لانا بہت مشکل کام ہو گا جبکہ میرانی ڈیم کے پانی کا سردیوں کی بارشوں پر منحصر ہے اور جیسا کہ اکثر ہوتا ہے کہ کئی کئی سال بارشیں نہیں ہوتی تو ڈیم میں پانی بھی نہیں آئے گا لہذا یہ کہا جائے تو درست ہو گا کہ گوادر میں اصل مسئلہ پانی کا ہی ہو گا جو ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔

پاکستان کے صوبہ بلوچستان کا ساحلی قصبہ گوادر اور اس سے ملحقہ علاقہ 1958 میں حکومت پاکستان نے سلطنتِ اومان سے خریدا تھا۔

اس ساحلی علاقے کی ایک بڑی بندرگاہ بننے کی قدرتی صلاحیت اس سے پہلے ہی سامنے آ چکی تھی جب 1954 میں امریکی جیالوجیکل سروے نے گوادر کو ڈیپ سی پورٹ کے لیے بہترین مقام قرار دیا تھا۔

اس کے بعد سے گوادر کو بندرگاہ کے طور پر ترقی دینے کی باتیں تو ہوتی رہیں لیکن اس پر عملی کام کئی دہائیوں بعد سنہ 2002 میں شروع ہوا۔

اس وقت کے فوجی صدر جنرل پرویز مشرف نے گوادر میں بندرگاہ کی تعمیر کے کام کا افتتاح کیا اور 24 کروڑ ڈالر کی لاگت سے یہ منصوبہ 2007 میں مکمل ہو گیا۔

حکومت نے اس نئی نویلی بندرگاہ کو چلانے کا ٹھیکا سنگاپور کی ایک کمپنی کو بین الاقوامی بولی کے بعد دے دیا۔

گوادر کی بندرگاہ پہلی بار تنازع اور شکوک و شبہات کی زد میں اس وقت آئی جب 2013 میں حکومت پاکستان نے اس بندرگاہ کو چلانے کا ٹھیکا سنگاپور کی کمپنی سے لے کر ایک چینی کمپنی کے حوالے کر دیا۔

ماہرین اس معاملے کی شفافیت پر آج بھی سوال اٹھاتے ہیں۔

یہ وہ دور تھا جب پاکستان میں بڑے پیمانے پر چینی سرمایہ کاری کی باتیں سامنے آنے لگیں۔

اسی دوران نواز شریف کی سربراہی میں بننے والی حکومت نے اعلان کیا کہ چینی حکومت نے پاکستان میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کا ارادہ ظاہر کیا ہے۔

اس منصوبے کو چین پاکستان اقتصادی راہداری کا نام دیا گیا جو بنیادی طور پر خنجراب کے راستے چین کو گوادر کی بندرگاہ سے ملانے کا منصوبہ ہے۔

اس معاہدے پر 2015 میں دستخط ہوئے اور اس وقت معلوم ہوا کہ اس منصوبے میں سڑکیں، ریلوے لائن، بجلی کے منصوبوں کے علاوہ متعدد ترقیاتی منصوبے شامل ہیں۔

چونکہ یہ راہداری گوادر سے شروع ہوتی ہے (یا ختم ہوتی ہے) اس لیے گوادر اور اس کی بندرگاہ کو اس سارے منصوبے میں مرکزی اہمیت حاصل ہے۔

سی پیک کے تحت گوادر میں ابتدائی طور پر یعنی 2017 تک ایک ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی جائے گی جس سے یہاں بندرگاہ کو توسیع دینے کے علاوہ متعدد ترقیاتی منصوبے شروع کیے جا چکے ہیں۔

جہاں حکومت گوادر کے لیے تجویز کردہ ترقیاتی منصوبوں پر فخر کا اظہار کرتی ہے، وہیں بلوچستان سے تعلق رکھنے والی بعض سیاسی جماعتیں اور شخصیات اس منصوبے پر اعتراض بھی کرتی ہیں کہ بلوچستان اور گوادر کے عوام کو اس منصوبے میں ان کا جائز حق نہیں دیا جا رہا۔

جدید بندرگاہ

ترمیم
 
گوادر مکران کوسٹل ہائی وے کے ذریعے کراچی اور بلوچستان کے دیگر ساحلی شہروں سے منسلک ہے

فیلڈ مارشل ایوب خان کے دور میں ہی گوادر میں جدید بندرگاہ بنانے کا منصوبہ بن گیا تھا مگرفنڈ کی کمی اور دیگر ملکی اور بین الااقوامی معاملات اور سیاسی مصلحتوں کی وجہ اس کی تعمیر کاکام شروع نہ ہو سکا۔ مگر جب امریکہ نے طالبان حکومت کے خاتمے کے لیے افغانستان پر حملہ کیا تو اس کے بعد ابھی چار ماہ بھی نہیں گذرے تھے کہ پاکستان اور چین نے مل کر گوادر میں اکیسویں صدی کی ضروتوں کے مطابق بندرگاہ بنانی شروع کر دی۔ چینیوں کے اس شہر میں داخلے کے ساتھ ہی شہر کی اہمیت یکدم کئی گنا بڑھ گئی اور مستقبل کا بین الاقوامی شہر اور فری ٹیکس زون کا اعلان ہوتے ہی ملک بھرکے سرمایہ دار اور دولت مند کھربوں روپے لے کر اس شہر میں پہنچ گئے اور زمینوں کو خرید نے کے لیے مقامی شہریوں کو ان کے منہ مانگے روپے دینے شروع کر دیے جس کی وجہ سے دو سو روپے کرایہ کی دکان تیس ہزار روپے تک ہو گئی اور تیس ہزار روپے فی ایکڑ زمین کی قیمت دو سے تین کروڑ روپے تک پہنچ گئی چنانچہ گوادر کا عام شہری جو چند ایکڑ کا مالک تھا دیکھتے ہی دیکھتے کروڑ پتی اورارب پتی بن گیاچنانچہ اب شہر میں بے شمار چمکتی دمکتی اور قیمتی گاڑیوں کی بھرمار ہو گئی ہے جس کی وجہ سے چھوٹی اور تنگ سڑکیں مزید سکڑ گئیں۔ شہر کے تقریباً تمام بے روز گار افراد نے پراپرٹی ڈیلر کے دفتر کھول لیے جبکہ دوسرے شہروں سے آئے ہوئے افراد نے پراپرٹی کو منافع بخش کاروبار سمجھتے ہوئے بڑے بڑے ادارے قائم کر لیے۔ شہر کی ابتر حالت کو بہتر بنانے اور منظم کرنے کے لیے حکومت نے 2003ء میں گوادر ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے نام سے ایک ادارہ بنایا جس کا قانون بلوچستان کی صوبائی اسمبلی نے 2002ء میں منظور کیا تھامگر نومولود ادارہ تاحال شہر کی حالت کو سدھارنے میں کامیاب نہ ہو سکا ۔

بندر گاہ خلیج فارس، بحیرہ عرب، بحر ہند، خلیج بنگال اور اسی سمندری پٹی میں واقع تمام بندرگاہوں سے زیادہ گہری بندر گاہ ہو گی اور اس میں بڑے بڑے کارگو بحری جہاز باآسانی لنگر انداز ہو سکیں گے۔ جن میں ڈھائی لاکھ ٹن وزنی جہاز تک شامل ہیں۔ اس بندر گاہ کے ذریعے نہ صرف پاکستان بلکہ افغانستان، چین اور وسط ایشیاء کی تمام ریاستوں کی تجارت ہوگی۔ بندر گاہ کی گہرائی 14.5 میٹر ہوگی یہ ایک بڑی ،وسیع اور محفوظ بندر گاہ ہے۔ اس کی اہمیت کے پیش نظر بہت سے ممالک کی اس پر نظریں ہیں۔ بندرگاہ کا ایک فیز مکمل ہو چکا ہے جس میں 3 برتھ اور ایک ریمپ شامل ہے۔ ریمپ پر Ro-Ro جہاز لنگر انداز ہو سکیں گے جبکہ 5 عدد فکس کرینیں اور 2 عدد موبائل کرینیں جبکہ ایک R T G کرین آپریشنل حالت میں لگ چکی ہیں۔ ایک برتھ کی لمبائی 600 میٹر ہے جس پر بیک وقت کئی جہاز کھڑے ہو سکیں گے جبکہ دوسرے فیز میں 10 برتھوں کی تعمیر ہو گی۔ بندر گاہ چلانے کے لیے تمام بنیادی سامان اور آلات بھی لگ چکے ہیں مگر یہاں پر کام اس لیے نہیں ہو رہا کہ دوسرے علاقوں جیسے وسط ایشیاءکے ممالک کے لیے رابطہ سڑکیں موجود نہیں ہیں اور اس مقصد کے لیے کئی بین الاقفوامی معیار کی س‍ڑکیں بنوائی جا رہی ہیں مثلاً M8 کی تعمیر پر کام شروع ہو چکا ہے جو تقریباً 892 کلومیٹر طویل موٹروے ہوگی جو گوادر کو تربت، آواران، خضدار اور رٹوڈیرو سے ملائی گی جو پھر ایم 7، ایم 6 اور انڈس ہائی وے کے ذریعے گوادر کا چین کے ساتھ زمینی راستہ قائم کرنے میں مددگار ثابت ہو گی۔ اس کے علاوہ گوادر کو ایران اور افغانستان کے ساتھ ملانے کے لیے بھی سڑکوں کا جال بچھایا جا رہا ہے۔

آب و ہوا

ترمیم
آب ہوا معلومات برائے گوادر، پاکستان
مہینا جنوری فروری مارچ اپریل مئی جون جولائی اگست ستمبر اکتوبر نومبر دسمبر سال
بلند ترین °س (°ف) 31.1
(88)
33.0
(91.4)
40.5
(104.9)
44.7
(112.5)
45.7
(114.3)
48
(118)
42.5
(108.5)
39.5
(103.1)
41.1
(106)
41.0
(105.8)
37
(99)
33.1
(91.6)
48.0
(118.4)
اوسط بلند °س (°ف) 24.1
(75.4)
25
(77)
28
(82)
31.9
(89.4)
34.2
(93.6)
34
(93)
32.5
(90.5)
31.5
(88.7)
31.5
(88.7)
32
(90)
29
(84)
25
(77)
29.89
(85.8)
اوسط کم °س (°ف) 13.8
(56.8)
15.1
(59.2)
18.4
(65.1)
21.7
(71.1)
24.9
(76.8)
26.9
(80.4)
26.9
(80.4)
25.8
(78.4)
24.4
(75.9)
21.7
(71.1)
18.0
(64.4)
15.1
(59.2)
21.05
(69.89)
ریکارڈ کم °س (°ف) 2.3
(36.1)
1.3
(34.3)
8.0
(46.4)
12.5
(54.5)
15.5
(59.9)
20.0
(68)
20.8
(69.4)
20.5
(68.9)
18.0
(64.4)
13.0
(55.4)
5.5
(41.9)
0.5
(32.9)
0.5
(32.9)
اوسط عمل ترسیب مم (انچ) 25.9
(1.02)
22.7
(0.894)
13.4
(0.528)
4.9
(0.193)
0.1
(0.004)
2.4
(0.094)
6.6
(0.26)
2.8
(0.11)
0.2
(0.008)
0.9
(0.035)
3.7
(0.146)
21.6
(0.85)
89.8
(3.535)
ماخذ: [3]

مزید دیکھیے

ترمیم

بیرونی روابط

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم
  1. "POPULATION OF MAJOR CITIES CENSUS – 2017 [PDF]" (PDF)۔ Pakistan Bureau of Statistics۔ 29 اگست 2017 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 30 اگست 2017 
  2. p.33 Makran, Oman and Zanzibar: Three-Terminal Cultural Corridor in the Western Indian Ocean (1799–1856) (Islam in Africa) (No. 3) آئی ایس بی این 978-9004137806
  3. http://www.pakmet.com.pk/cdpc/Climate/Jiwani_Climate_Data.txt