گہری شام کی بیلیں
’’ گہری شام کی بیلیں‘‘ اردو کے ممتاز اُستاد شاعر جناب یزدانی جالندھری کے صاحبزادے حامد یزدانی کا دوسرا اُردو شعری مجموعہ ہے جسے 2007 میں ادارہ الاشراق لاہور پاکستان نے آغا نثار کے بنائے سرورق کے ساتھ شائع کیا۔
اس مجموعہ میں حامد یزدانی کی ’’ ابھی اک خواب رہتا ہے‘‘ کے بعد کی نظمیں اور غزلیں شامل ہیں جن میں سے اکثر یورپ کے مختلف شہروں میں کہی گئی ہیں۔ اس کتاب کا پیش لفظ معروف شاعر اور نقاد ڈاکٹر خورشید رضوی نے جبکہ اس کا فلیپ ڈاکٹر ضیا الحسن نے تحریر کیا ہے۔
ڈاکٹر خورشید رضوی کے الفاظ میں: ’’ حامد کے ہاں جذبہ، تجربہ اور کرافٹ سب یکجان ہو کر ایسی برجستگی پیدا کرتا ہے کہ شعر سیدھا دل میں اُتر جانے اور ضرب المثل کی سی شان اختیار کر جانے کی صلاحیت پیدا کرلیتا ہے‘‘۔
ڈاکٹر ضیا الحسن ، حامد کی شاعری کو تخلیقی حُسن سے معمور منفرد شاعری قرار دیتے ہوئے انھیں عہدِ حاضر کے اہم شعرا میں شمار کرتے ہیں۔
منتخب تخلیقات:
پیاری امی کے نام ( ایک نظم )
یاد پے ،
ان دنوں
کھیلنے کو کھلونے کچھ اتنے زیادہ نہ ہوتے تھے ،
بس تیری اک نرم مسکان سے
کھیلتے کھیلتے
میرا بچپن سنہری ھوا
جانے کیوں
مجھ کو لگتا ہے ، میں آج بھی تیری انگلی پکڑ کر ہی چلتا ہوں
لمحہ لمحہ بدلتی ہوئی زندگی کو
ترے خواب آنچل میں
چھپ چھپ کے تکتا ہوں
حیرت سے آنکھیں جھپکتا ہوں
میں آج بھی ...!
--------
حامد یزدانی
( نظمیہ انتساب)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
غزل
تنِ خاکی پرِ کاہِ بیاباں جان رکھا تھا
اِسی مشکل کو ہم نے عمر بھر آسان رکھا تھا
نگاہوں میں دہکتے موسموں کی راکھ اڑتی ہے
وہ منظر کیا ہوئے جن میں گلِ پیمان رکھا تھا
بہت سادہ سی اک دیوار تھی دیوارِ ہستی بھی
مِرے ہونے کی حیرت نے مجھے حیران رکھا تھا
اور اب دیکھیں تو گہری شام کی بیلیں سی پھیلی ہیں
ابھی اس کارنس پر دھوپ سا گلدان رکھا تھا
کچھ ایسا بوجھ تھا حامد مِری آنکھیں نہ کھلتی تھیں
کہ آنکھوں پر کسی کے خواب کا احسان رکھا تھا
حامد یزدانی
سیاح
..........
کس قدر شور ہے!
راکھ ہوتی ہوئی خامشی ٹوٹتی ہی نہیں
ریزہ ریزہ بکھرتی ہوئی سوچ ہوتے ہوئے، آگ کے پیڑ
کاغذ کے دونوں طرف
صف بہ صف جل رہے ہیں مگر
پھیکے پھیکے منقش جھروکوں سے نیچے لپکتی ہوئی شام
اس شہر کا رنگ ہے
سیدھی سادی محبت کی ٹوٹی ہوئی چوکھٹیں
ریزہ ریزہ بکھرتی ہوئی سوچ کی ٹکڑیاں
گھر کے دروازے پر
کوڑے کرکٹ کے مانند بکھری پڑی ہیں
مگرخاک روب آج چھٹی پہ ہیں
ملگجی سرخ اینٹوں کے فٹ پاتھ پر خواب کی راکھ کا ڈھیر ہے
خواب کی راکھ کے ڈھیر سے کچھ پرے
اک تعفن میں لب دوختہ
پردہ آرا بس اسٹاپ پر
بنچ پر لفظ ہیں
ایک دوجے میں باہم گتھے
ایک دوجے میں باہم پھنسے
آخری بس کدھر رہ گئی ؟
لفظ آواز ھونے کی جلدی میں ہیں
میں تو سیاح ہوں
درد کی سرمئی کوچ سے محو نظارہ ھوں
لفظ کے شہر کی رات کا
درد کی سرمئی کوچ کیوں زرد ھونے لگی؟
نظم کی آخری سطر کیوں گرد ھونے لگی ؟
....
حامد یزدانی