گیسوئے تابدار کو اردو کی ایک مشہور غزل ہے جس کے خالق علامہ محمد اقبال ہیں۔

"گیسوئے تابدار کو"
 کا سنگل
صنفغزل
مصنفینعلامہ اقبال

تاریخ ترمیم

یہ غزل بالِ جبریل میں موجود ہے اور بالِ جبریل کا سنہ اشاعت 1935ء ہے، لہذا معلوم ہوتا ہے کہ یہ غزل 1935ء میں ہی لکھی گئی تھی۔

متن ترمیم

گیسوئے تابدار کو اور بھی تابدار کرہوش و خرد شکار کر قلب و نظر شکار کر
عشق بھی ہو حجاب میں حسن بھی ہو حجاب میںیا تو خود آشکار ہو یا مجھے آشکار کر
تو ہے محیط بیکراں میں ہوں ذرا سی آب جو یا مجھے ہمکنار کر یا مجھے بے کنار کر
میں ہوں صدف تو تیرے ہاتھ میرے گہر کی آبرو میں ہوں خزف تو تو مجھے گوہر شاہوار کر
نغمۂ نوبہار اگر میرے نصیب میں نہ ہو اس دم نیم سوز کو طائرک بہار کر
باغ بہشت سے مجھے حکم سفر دیا تھا کیوں کار جہاں دراز ہے اب مرا انتظار کر
روز حساب جب مرا پیش ہو دفتر عمل آپ بھی شرمسار ہو مجھ کو بھی شرمسار کر

مزید دیکھیے ترمیم

حوالہ جات ترمیم