ہارون الرشید خٹک
ہارون الرشید خٹک خیبر پختونخوا کے تاریخی گاؤں ”گیٹ وے آف خیبر پختونخوا“ خیر آباد میں ایک خدائی خدمتگار عین الدین کے ہاں 1960 میں پیدا ہوئے۔ عین الدین بابا خدائی خدمتگار تحریک سے وابستہ تھے۔ خدائی خدمتگار تحریک کے اس جیالے کو خیرآباد میں جب دیگر خدائی خدمتگاروں کے ہمراہ شراب خانہ پر پکنک کرتے ہوئے پکڑا گیا تو تب کے اسسٹنٹ کمشنر سکندر مرزا نے ان کو یہ سزا تجویز کی کہ ان کو زمین پر الٹا لٹایا جائے اور اوپر سے جیپ گزاری جائے۔ اس سزا پر عمل درآمد کی وجہ سے ان کی پسلیاں ٹوٹ گئیں لیکن ان کی زبان سے انقلاب، باچا خان زندہ باد، انگریز سرکار برباد کے نعرے بند نہ ہوئے۔ سکندر مرزا اس حوالے سے بڑا ظالم شخص تھا جو خود خدائی خدمتگار وں پر لاٹھیاں برسایا کرتا تھا۔ ستم ظریقی دیکھیے کہ ایک ایسا ظالم، جابر، انگریزوں ا وفادار اور حریت آزادی کے پروانوں کا دشمن صدر پاکستان بنا، یعنی منزل انھیں ملی جو شریک سفر نہ تھے عین الدین بابا کے بعد ان کے بڑے بیٹے نے اس تحریک میں ”سور نیشنلی“ کی حیثیت سے علاقہ بھر میں اپنی پہچان بنائی۔ ہارون الرشید خٹک کی تربیت ایک ایسے گھر، خاندان اور ماحول میں ہوئی۔ ہارون الرشید خٹک نے 1975 کو گورنمنٹ مڈل اسکول خیرآباد سے آٹھویں کا امتحان پاس کیا اور بعد ازاں مزید پڑھنے کے لیے جہانگیرہ کے اللہ بخش ہائی اسکول میں داخلہ لیا۔ 1977 میں جماعت دہم کے طالب علم تھے کہ ان کے بڑے بھائی شماس خان خٹک اور حیات اللہ خان خٹک بھٹو کے خلاف پاکستان قومی اتحاد (PNA) تحریک کے دوران گرفتار ہوئے،بہ امر مجبوری کاروباری مصروفیت کو ہاروں الرشید خٹک اور ان کے چھوٹے بھائی مامون الرشید خٹک نے سہارا دیا اور یوں ہارون الرشید خٹک کا تعلیمی سلسلہ منقطع ہوا۔ بعد ازاں 1982 میں انھوں نے پرائیویٹ طور پر میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ رب ذوالجلال نے ہارون الرشید خٹک کو زبردست تحقیقی اور تخلیقی ذہن عطا کیا ہے۔ 1973 میں جب وہ چھٹی جماعت کے طالب علم تھے کہ شعر و سخن کی ابتدا کی اور اپنے استاد محترم تاج علی تاج مروت اور ماصل خان آتش نے ان کی بھرپور رہنمائی کی۔ دونوں احباب اس وقت ایک ادبی تنظیم ”اٹک پشتو ادبی ٹولنہ“ کی داغ بیل رکھ چکے تھے جس کی وجہ سے یہاں ادبی ماحول قائم ہوا۔ جب 1982 میں اس تنظیم کو ”اباسین پشتو ادبی جرگہ “ میں تبدیل کیا گیا تو ہارون الرشید خٹک اس کے اولین جنرل سیکرٹری چن لیے گئے۔ تب سے اب تک ان کے کندھوں پر یہ ذمہ داریاں پڑی ہیں۔ ہارون الرشید خٹک کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ وہ اپنے علاقے کے پہلے صحافی ہیں۔ روزنامہ شہباز، روزنامہ جدت، روزنامہ وحدت، روزنامہ اوصاف، خبریں اور جناح میں وقتاً فوقتاً کالم نگاری، مضمون نگاری کرتے رہے۔ ہفت روزہ روشن پاکستان کراچی میں ”جو میں نے لکھا“ کے عنوان سے کالم لکھا کرتے تھے جبکہ پشتون، پاخون، لیکوال، اباسین، کاکا وا جیسے مجلات میں ادبی و سیاسی مضامین لکھتے رہے۔ اب تک ان کے ذھن رسانے 61 شعری اور نثری کتابیں تصنیف و تالیف کی ہیں اور ان کی 26 پشتو، اردو کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں۔ اپنی ادبی خدمات پر ان کو مختلف اداروں اور تنظیموں نے ایوارڈز، اعزازات، تعریفی اسناد دے رکھے ہیں جن میں پشاور یونیورسٹی (پیوٹا) خان عبد الولی خان یونیورسٹی مردان، ڈسٹرکٹ کونسل نوشہرہ، ضلعی انتظامیہ نوشہرہ، عوامی نیشنل پارٹی، وطن، مجلہ سعودی عرب، اجمل خٹک ادبی جرگہ، خوڑہ نظام ادبی ٹولنہ، ملاکنڈ ادبی ایوارڈ، پختونخوا ایوارڈ مردان، جشن خوش حال ایوارڈ، پاک افغان، پییپلز فورم وغیرہ جیسے اعزازات شامل ہیں۔ ہارون الرشیدخٹک کو یہ بھی اعزاز حاصل ہے کہ افغانستان کی قبائلی اور سرحدی امور کی وزارت نے انھیں کئی بار کابل میں منعقدہ سیمیناروں میں شریک کیا۔ ہارون الرشید خٹک ایک قوم پرست، ترقی پسند اور نظریاتی لکھاری ہیں۔ باچا خان کا سفر آخرت، خان عبد الولی خان کا سفر آخرت، ”اجمل خٹک د سیاست جلال دا دب جمال“، پایائے امن باچا خان، خان محمد افضل خان، درویش اجمل خٹک، مکالمات اجمل خٹک ایسی تصنیفات ہارون الرشید خٹک کی پارٹی اکابرین سے محبت اور پارٹی وابستگی کا بین ثبوت ہیں اور آج کل شھید امن سابق صوبائی وزیر بشیر احمد بلور پر ”شھید امن“ کے نام سے کتاب مرتب کرنے میں مصروف ہیں۔ ہارون الرشید خٹک کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ انھوں نے جہاں محترم اجمل خٹک کے پہلے شعری مجموعہ ”د غیرت چغہ“ کا انگریزی ترجمہ بنام از ”د ڈاکٹر شیر زمان کالیزی“ کو طبع کیا وہاں اجمل خٹک کے آخری شعری مجموعہ ”د سپین غر“ کو بھی چھپوایا جبکہ انھوں نے اجمل خٹک کے حوالے خود آٹھ (8) کتابیں شایع کیں اور شائد یہ پختونخوا کے منفرد لکھاری ہیں جنھوں نے ایک ادبی شخصیت پر اپنی آٹھ (8) کتابیں تصنیف و تالیف کیں۔ ہارون الرشید خٹک اس حوالے سے بھی خوش قسمت ہیں کہ جہاں پروفیسر ابراہیم اظہار نے ان کی ادبی خدمات پر ”ہارون الرشید خٹک دشنو کانڑو خٹک“ کے نام سے کتاب مرتب کی وہاں معروف شاعر ادیب ایاز اللہ ترکزئی ”ہارون الرشید خٹک فن او شخصیت“ کے نام سے کتاب مرتب کرنے میں مصروف ہیں، ان کی ادبی خدمات پر ناردرن یونیورسٹی نوشہرہ کی خاتون سکالر تابندہ اردو میں ایم فل کر رہی ہیں جبکہ ایک دوسرے سکالر عبد القدیر آف چارپانی پشتو میں ایم فل کر رہے ہیں