ہما بتول
سیدہ ہما بتول (پیدائش 20 اکتوبر 1982) ایک پاکستانی کاروباری خاتون ہیں۔ [1] جن کی ایک وجہ شہرت یہ ہے کہ وہ الور ایئر ویز کی مالک اور چیئرپرسن ہیں اور ادویات بنانے والی ایک کمپنی وینٹیج لیبارٹریز کی مینیجنگ ڈائریکٹر ہیں۔ [2] [3] انھیں یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ پہلی خاتون ہیں جو پاکستان میں ایک طے شدہ ایئر لائن کی مالک ہیں۔
ہما بتول | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائش | فیصل آباد، پنجاب، پاکستان |
20 اکتوبر 1980
قومیت | پاکستانی |
عملی زندگی | |
پیشہ |
|
دور فعالیت | 2020–تاحال |
وجہ شہرت | پاکستان میں کسی ایئر لائن کی پہلی خاتون چیئرپرسن |
درستی - ترمیم |
ہما بتول کی پیدائش فیصل آباد ، پاکستان میں سیدہ شکیرا، جو ایک ماہر تعلیم اور سید اظہر حسن، جو ایک زمیندار اور تاجر تھے کے ہاں ہوئی۔ ان کے دادا سید مظفر علی شاہ نے انڈین سول سروس میں خدمات انجام دیں اور ایک مشہور صوفی تھے۔ ان کے دادا کے ایک بھائی سید مظہر علی شاہ نے برصغیر کی تقسیم سے قبل برطانوی رائل ایئرفورس میں فائٹر پائلٹ کے طور پر خدمات انجام دیں اور دوسرے ڈھاکہ کے کمشنر تھے۔ [4] اس کے دادا دادی لدھیانہ اور جالندھر سے ہجرت کرکے آئے تھے اور اس کے آبا و اجداد ہندوستان کے شہر شاہ پور میں آباد تھے۔اسے اپنے آبائی ذرائع سے وراثت میں زمین اور کاروباری سرمایہ ملا۔ بتول کی تعلیم ڈویژنل پبلک اسکول فیصل آباد میں ہوئی۔ [4] بعد ازاں اس نے کنیئرڈ کالج برائے خواتین ، [5] سے گریجویشن کی اور گورنمنٹ کالج یونیورسٹی ، لاہور سے انگریزی میں ماسٹر ڈگری مکمل کی۔ [6] کئی سال بعد اس نے فاطمہ جناح ویمن یونیورسٹی راولپنڈی سے انگریزی ادب میں ایم فل کی ڈگری بھی مکمل کی۔ [7] [8]
ہما بتول نے اپنے کرئیر کا آغاز درس و تدریس سے کیا۔ان کی شادی پنجاب کے مشہور زمانہ زمیندار کے گھر ہوئی۔شادی کے بعد مجھے محسوس ہوا کہ میرے شوہر کو میری مدد کی ضرورت ہے۔وہ ادویات کی درآمد کا کام کر رہے تھے۔ہم نے منصوبہ بنایا کہ ہم ادویات تیار کرنے کی فیکٹری قائم کرتے ہیں۔میرے شوہر نے اس معاملے پر میرا ساتھ دیا۔ہم نے علاقے کے لوگوں کو سب سے پہلے روزگار دیا۔انھیں سہولیات فراہم کیں۔فیکٹری بننے سے وہاں بجلی آئی اور سڑکیں اور کام سے ان کی زندگی کا معیار بہتر ہوا۔ہما بتول کی ادویات پاکستان میں صف اول کی ادویات میں شمار ہوتی ہیں کئی سالوں تک درآمدی کاروبار میں کام کرنے کے بعد، بتول نے وینٹیج لیبارٹریز پرائیویٹ لمیٹڈ کے نام سے اپنی دوائیوں کی تیاری کی سہولت بنانے کا فیصلہ کیا۔اس نے فیصل آباد کے علاقے میں روزگار پیدا کرنے اور ترقی کے ارادے سے ایک دور دراز علاقے میں فیکٹری قائم کی۔ [9] [10]
ہما بتول اپنے شوہر کے ساتھ کراچی سے اسلام آباد آ رہی تھی انھیں ٹکٹ خریدنے میں خاصی مشکل درپیش تھی۔ بالاآخر ٹکٹ مل گیا۔جہاز میں بیٹھے تو ہما نے اپنے شوہر سے کہا کہ ہمیں ایک ائیر لائن بنانی چاہئیے۔بس پھر دو دن بعد ہی انھوں نے منصوبہ بندی شروع کر دی تھی
حوالہ جات
ترمیم- ↑ "Pakistan Civil Aviation Authority Grants Start Up Airline Alvir Airways Tourism Promotion and Regional Integration Operating License – Smart Aviation Asia-Pacific" (بزبان انگریزی)۔ 02 اکتوبر 2022 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 03 جون 2022
- ↑ "PCAA awards licence to Alvir Airways"۔ The Nation۔ 13 July 2021
- ↑ "Alvir Airways Airline Profile | CAPA"۔ centreforaviation.com
- ^ ا ب
- ↑ "Kinnaird College For Women" (بزبان انگریزی)۔ اخذ شدہ بتاریخ 02 فروری 2022
- ↑ "GC University Lahore"۔ www.gcu.edu.pk۔ اخذ شدہ بتاریخ 02 فروری 2022
- ↑ https://fjwu.edu.pk/
- ↑ "الویر ائیر لائنز ۔۔۔ پاکستان کی فضاؤں میں اڑان بھرنے کو تیار"۔ www.nayatime.com۔ 01 فروری 2022 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 02 فروری 2022
- ↑ "پاکستان خاتون نے فضائی ٹکٹ ملنے میں دشواری پر اپنی ائیر لائن بنا لی"۔ Masael News Quetta (بزبان انگریزی)۔ 2021-10-26۔ اخذ شدہ بتاریخ 02 فروری 2022
- ↑ "پاکستان کی پہلی خاتون جو ایئرلائن کی مالک بن گئیں" (بزبان انگریزی)۔ 01 فروری 2022 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 02 فروری 2022