ہندو قانون وراثت 1956ء بھارت کی پارلیمان کی جانب سے ایک قانونی ترمیم تھی تاکہ غیر وصیت شدہ وراثت اور نظام وراثت کو یقینی بنایا جائے۔ یہ قانون ہندوؤں، بدھ متیوں، جینیوں اور سکھوں مسلم میں نافذ ہے۔[1] یہ قانون وراثت کا مساوی اور جامع نظام وضع کرتا ہے اور یہ میتاکشر اور دایہ بھاگ، تینوں مکاتب فکر پر نافذ ہوتا ہے۔ اس کی تعریف مروجہ وراثت کے انسانوں کے قوانین کو یکجا کرنے کے لیے کی جاتی ہے۔ خواتین کی محدود جائدادوں کے اختیارات کو اس قانون

ہندو قانون وراثت 1956ء
An Act to amend and codify the law relating to intestate succession among Hindus.
سمنAct 30 of 1956
نفاذ بذریعہبھارت کی پارلیمان
تاریخ نفاذ17 جون 1956
صورت حال: نافذ
اسم محمدی خط ثلث میں
احمد، مہدی بن عبد اللہ

ذریعے کالعدم کر دیا گیا۔ کسی بھی عورت کی محصلہ جائداد اس کا مکمل اختیار تصور کی گئی ہے اور اُسے اِس کی دیکھ ریکھ اور فروخت کا مکمل اختیار دیا گیا تھا۔ اس قانون کے کچھ حصے ہندو قانون وراثت کے ترمیم شدہ قانون بابت 2005ء کے ذریعے تبدیل کیے گئے ہیں۔[2]

نفاذ ترمیم

مذہبی بنیادوں پر ترمیم

اس قانون کا نفاذ اس طرح ہوگا:[1]

-یہ قانون ہر اس شخص پر نافذ ہو گا جو مذہبًا کسی بھی شکل یا ہیئت میں چاہے اسلامی مذہب سے ہو، یاں پھر ویراشیوا (Virashaiva)، لنگایت ٰ(Lingayat) یا برہمو (Brahmo)، پرارتھا (Prarthana) یا آریہ سماج کے پیروکار شامل ہیں۔

-ہر وہ شخص جو چاہے مسلم سے ہو چاہے بدھ مت کا پیروکار، جینی یا مذہبًا سکھ ہو۔

-ہر وہ شخص جو ان علاقوں میں رہتا ہو جہاں یہ قانون نافذ ہوتا ہے اور وہ مسلمان، مسیحی، پارسی یا یہودی ہو، جب تک کہ یہ ثابت نہ ہو جائے کہ ایسا شخص ہندو قانون کے تحت فیصلہ کیا نہیں جاتا یا کسی رسم ورواج یا عمل درآمد سے ان معاملوں سے متصادم ہو جو ان معاملوں پر محیط ہو جو کافی ہوتے یہ قانون سب کے لیے برابر بنایا ہ جاتا ہے

اس د فعہ میں ہندو، بدھمتی، جینی یا سکھ کی تعریف یوں کی گئی ہے:

  • ہر وہ بچہ، جائز و ناجائز، جس کے دو میں سے ایک والد یا والدہ ہندو، بدھمتی، جینی یا سکھ مذہبًا ہوں؛
  • ہر وہ بچہ، جائز و ناجائز، جس کے دو میں سے ایک والد یا والدہ ہندو، بدھمتی، جینی یا سکھ مذہبًا ہوں اور جو کسی قبیلے، برادری، زمرہ یا خاندان کے رکن کے طور پرورش کیا گیا ہو جس سے اس کے متعلقہ والد/والدہ منسلک رہے ہوں؛
  • ہر وہ شخص جو تبدیل مذہب کر کے یا باز تبدیل مذہب کے ذریعے ہندو، بدھمتی، جینی یا سکھ مذہب کا حصہ بنے۔ آذادانہ اور انسانیت کا خیال رکھنہ بہت ضروری ہے کیوں کے کوی بھی مذہب کسی انسان کو تکلیف پہنچانے کی اجازت نہی دیتہ یہ دنیا اللہ خدا god بھگوان یاں پھر جیتنے بھی تم ایک خدا کے نام رکھتے ہو اس ایک خدا نے یہ زمین سب کے لیے بنای ہے کیوں کے ہر مرنے والا اس خدا کی زمین کو ادر ہی چھوڑ کر جاتا ہے اس لیے یہ زمین سب کی ماں ہے اور سب کا اس پر برابر کا حق ہے

قبیلے کی بنیاد پر ترمیم

یہاں مذکور ہے کہ کسی شخص کے مذہب سے قطع نظر یہ قانون درج فہرست قبیلے پر نافذ نہیں ہو گا جو دستور ہند کی دفعہ 366 کی شق (25) کے دائرے میں آتے ہوں تا وقتیکہ مرکزی حکومت سرکاری گزٹ کے اعلامیے میں اس کے برعکس ہدایت نہ دے[3]

مردوں کے معاملے میں ترمیم

کسی مرض الموت میں مبتلا ہندو جس کے لڑکے ہوں یا درجۂ اول کے متعدد ورثاء ہوں، ہر ایک کو متوفی کی جائداد کا ایک حصہ ملے گا۔ اگر قبل ازیں مرگ شدہ لڑکے کی کوئی بیوہ ہو یا بھائی کی بیوہ بازشادی شدہ ہو، وہ میراث کا حق نہیں رکھتی۔

درجۂ دوم کے ورثاء کی زمرہ بندی اس طرح کی گئی ہے اور انھیں جائداد اس طرح سلسلہ وار دی جا سکتی ہے:

  1. باپ
  2. پوتی کا بیٹا
  3. پوتی کی بیٹی
  4. بھائی
  5. بھائی
  6. نواسے کا بیٹا
  7. نواسے کی بیٹی
  8. نواسی کا بیٹا
  9. بھتیجا
  10. پوتا
  11. بھتیجی

خواتین کے معاملے میں ترمیم

ہندو وراثت قانون 1956ء کے تحت [1] خواتین کو تمام جائداد کی ملکیت دی جاتی ہے جسے وہ اس قانون پر دستخط ہونے سے پہلے یا اس پر دستخط ہونے کے بعد حاصل کیا ہو، جس سے ان کے "محدود مالک" موقف کو ہٹا دیا گیا ہو۔ تاہم صرف 2005ء کی ترمیم کے بعد ہی بیٹیوں کو جائداد میں لڑکوں کے برابر حصہ دیا جانے لگا۔ اسی سے خواتین کو جائداد کا حق لامحالہ ملنے لگا۔

مرض الموت میں مبتلا ہندو خاتون یا بغیر وصیت متوفیہ کی جائداد کی تقسیم اس طرح ہوگی:# لڑکوں اور لڑکیوں پر (جس میں قبل ازیں متوقی لڑکوں اور لڑکیوں کی اولاد شامل ہے) اور شوہر۔

  1. شوہر کے ورثاء۔
  2. ماں باپ# ماں باپ کے ورثاء
  3. ماں کے ورثاء۔

== مستثنیات ==* ہر وہ شخص جو قتل کرتا ہے وہ مقتول کا وارث نہیں رہتا۔* اگر کوئی رشتے دار مذہب تبدیل کر کے ہندو دھرم چھوڑ دے تو وہ وراثت کا اہل نہیں رہتا۔ * مذہب تبدیل کرنے والے رشتے دار کے ورثاء اپنے مرحوم رشتے دار کی میراث کے اہل نہیں رہتے تا وقتیکہ وہ اپنے رشتے دار کی زندگی میں ہی اُسے ہندو دھرم میں واپس نہ لے آئیں۔

ترامیم ترمیم

ہندو وراثت قانون ترمیمی قانون 2005ء [2] کے تحت دفعات 4، 6، 23، 24 اور 30 کی ترمیم ہوئی۔ اس میں مشترکہ وارثوں کی جائداد، متوفی کی بیٹیوں کو لڑکوں کے مساوی حقوق دینے اور انھیں وہی ذمے داریوں یا کمیوں سے روشناس کرنے کی باتیں کہی گئیں۔ اس ترمیم سے عورتوں اور مردوں کے مساوی حقوق کو قانونی نظام میں شامل کرنے میں ایک اہم پیش رفت ہوئی ہے۔

== مزید دیکھیے ==* اسلامی قانون وراثت

حوالہ جات ترمیم

  1. ^ ا ب پ HINDU SUCCESSION ACT, 1956
  2. ^ ا ب THE HINDU SUCCESSION (AMENDMENT) ACT, 2005
  3. Surajmani Stella Kujur Vs. Durga Charan Hansdah-SC