ہیرا منڈی اندرون لاہور کا ایک علاقہ ہے جو طوائفوں کی رہائش کی وجہ سے جانا جاتا ہے۔ یہ شاہی محلہ کے نام سے بھی مشہور ہے۔ مغربی ممالک میں ایسے علاقے کو ریڈ لائٹ ڈسٹرکٹ یعنی لال بتی ضلع کہا جاتا ہے۔دہائیوں قبل ہیرامنڈی رقص، موسیقی اور تہذیب کا مرکز ہوا کرتی تھی لیکن وقت کے ساتھ رفتہ رفتہ تبدیلیاں آتی گئیں اور یہ علاقہ جسم فروشی کے لیے جانا جانے لگا۔مؤرخین کے مطابق اِس علاقے کی تاریخ 450 سال پرانی ہے ۔

ہیرا منڈی
 
نقشہ

انتظامی تقسیم
ملک پاکستان   ویکی ڈیٹا پر (P17) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تقسیم اعلیٰ راوی ٹاؤن   ویکی ڈیٹا پر (P131) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
متناسقات 31°35′10″N 74°18′35″E / 31.586167101204°N 74.30980680775°E / 31.586167101204; 74.30980680775   ویکی ڈیٹا پر (P625) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
قابل ذکر
Map

ہیرامنڈی وجود میں کیسے آئی تھی؟'

ترمیم

ہیرامنڈی کو اس کا موجودہ نام تقریباً 250 سال پہلے ملا۔ اِس کا نام مہاراجہ رنجیت سنگھ کے دیوان ہیرا سنگھ کے نام پر رکھا گیا تھا۔بادشاہ اکبر کے دور میں لاہور شہر سلطنت کا مرکزی شہر تھا اور اس وقت ہیرا منڈی کا علاقہ شاہی محلّہ کہلاتا تھا۔آج بھی لاہور کے وہ علاقے جن میں حیدری گلی، ٹبی گلی، ہیرامنڈی اور قلعہ روڈ پر واقع ناولٹی چوک ’شاہی محلّہ‘ ہی کے نام سے معروف ہیں۔ماضی میں شاہی خاندان کی رہائش گاہ کے ارد گرد کا علاقہ جہاں اُن کے نوکر، ملازمین اور دیگر اہلکار رہتے تھے، جس کی وجہ سے اسے ’شاہی محلّہ‘ کہا جاتا تھا۔

یہاں موجود بہت سے ’کوٹھے‘ مغل دور حکومت میں قائم ہوئے اور یہ اس خطے کا سنہری دور تھا۔ سٹیج ڈائریکٹر کے طور پر کام کرنے والے پروفیسر تریپوراری شرما بتاتے ہیں کہ مغل دور میں ان علاقوں میں ریاست سے تعلق رکھنے والے امیر لوگ اور ان کے خاندان رہتے تھے۔انھوں نے کہا کہ خوشی کے موقعوں پر ان کے پروگرام شاہی محلّات میں ہوتے تھے۔وہ بتاتے ہیں ’آج کل لفظ کوٹھا کی جس طرح تشریح کی جاتی ہے وہ درست نہیں ہے۔ ایک وقت تھا جب کوٹھا آرٹ کا مرکز تھا جہاں صرف گانا، موسیقی اور رقص ہوتا تھا۔‘’کوٹھوں سے منسلک خواتین اپنے آپ کو فنکار یا اداکارہ کہتی تھیں، یہاں اچھی تحریریں لکھی جاتی تھیں اور شاعری ہوتی تھی۔ کوٹھوں پر بہت اعلیٰ درجے کا مکالمہ ہوا کرتا تھا اور لوگ گفتگو کرنے کا ہنر جاننے کے لیے بھی یہاں آتے تھے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ ’یہاں بہت اعلیٰ سطح کے مکالمے ہوا کرتے تھے اور لوگ یہاں آ کر سیکھتے تھے کہ معاشرے میں بات چیت اور استدلال کیسے کیا جائے۔اگرچہ 16ویں صدی کے آخر تک لاہور مغلیہ سلطنت کا مرکز نہیں رہا تھا لیکن ریاست کا اثر و رسوخ برقرار رہا۔

شاہی محلے میں جسم فروشی کی ابتدا

ترمیم

مغلوں کے زوال کے ساتھ ساتھ برصغیر میں مرہٹے مضبوط ہو رہے تھے جنھیں احمد شاہ ابدالی کے حملوں کا سامنا تھا۔ ابدالی نے پنجاب، شمالی ہند اور راجپوتانہ پر حملے کیے اور ان کی فوجوں نے ابتدا میں دھوبی منڈی اور ہیرا منڈی کے قریب محلہ دارا شکوہ کے علاقے میں اپنے مراکز قائم کر لیے۔یہاں بسنے والی طوائفوں کا رابطہ کئی شاہی خاندانوں کے افراد سے بھی رہتا تھا۔ابدالی کے حملے کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال کے باعث غربت بڑھی اور اس علاقے میں پیسوں کے عوض جسم فروشی کا کاروبار بڑھنے لگا اور یہاں کوٹھوں پر رہنے والی خواتین جسم فروشی کے پیشے کا انتخاب کرنے پر مجبور ہو گئیں۔اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے غربت سے نبرد آزما خواتین اس پیشے میں روزگار کے لیے شامل ہونے لگیں۔اس دور میں مغل گورنر ابدالی کے حملوں کو روکنے کی کوششیں کر رہے تھے اور مختلف گروہوں اور افواج میں تصادم کے باعث پیدا ہونے والی افراتفری کی وجہ سے یہ علاقہ بھی متاثر ہوا۔اس پرآشوب دور کے بعد سنہ 1799 میں لاہور پر مہاراجہ رنجیت سنگھ کی حکومت قائم ہوئی۔ رنجیت سنگھ کے دور میں یہ علاقہ اور اس کے گردونواح مختلف وجوہات کی بنا پر زیادہ پریشانی میں نہیں پڑے۔ اسی دور میں مہاراجہ رنجیت سنگھ کے دیوان ہیرا سنگھ کے نام پر شاہی محلے کا نام ہیرا منڈی پڑا۔مہاراجہ رنجیت سنگھ کے دور میں لاہور ایک بار پھر ایک بڑے مرکز کے طور پر ابھرا اور اس کی شاہی رونق لوٹ آئی اور یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہا جب مارچ 1849 میں ایسٹ انڈیا کمپنی نے لاہور پر قبضہ کر لیا۔برطانوی راج کے دوران برطانوی فوجیوں کی تفریح ​​کے لیے پرانی انارکلی بازار میں کوٹھے تیار کیے گئے۔ اس کے بعد انھیں لوہاری دروازہ اور پھر ٹکسالی دروازہ پر منتقل کر دیا گیا۔ بعد ازیں انھیں موجودہ ہیرا منڈی کے مقام پر منتقل کر دیا گیا۔

برطانوی دور اور ہیرا منڈی

ترمیم

پروفیسر شرما کے مطابق جب انگریز اقتدار میں آئے تو انھوں نے ایسی تمام چیزوں کو بند کرنا شروع کر دیا جو بغاوت کا چارہ بن سکتی تھیں اور طوائفوں کے لیے بھی لائسنس کو لازمی قرار دیا گیا۔ان کا کہنا ہے کہ جب کوٹھوں کے لیے لائسنس والا سلسلہ شروع ہوا تو پولیس نے قانون پر عملدرآمد کے لیے ان جگہوں پر چھاپے مارنا شروع کر دیے۔ان کا کہنا تھا کہ ’برطانوی دور حکومت میں پولیس تفتیش کے بہانے کسی بھی وقت چھاپہ مارنے کے لیے یہاں پہنچ جاتی تھی۔‘’یہ معمول بن گیا۔ اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے بہت سے لوگوں نے یہاں آنا جانا چھوڑ دیا اور اس جگہ کا تاثر آہستہ آہستہ بدلنے لگا۔پروفیسر شرما کے مطابق اس تبدیلی کی وجہ سے ہماری سماجی زندگی کے ایک حصے یعنی کوٹھوں کو عزت کی نگاہ دیکھنا ماضی کا قصہ بننے لگا اور بالآخر یہ علاقہ صرف جسم فروشی کے اڈوں کے طور پر معروف ہوا۔

فلموں میں ہیرامنڈی

ترمیم

ہیرا منڈی: لاہور کے شاہی محلے کو یہ نام کیسے ملا؟دادا صاحب پھالکے نے پہلی ہندوستانی فلم 1913 میں بنائی۔ ابتدائی سالوں میں، خواتین فلموں میں اداکاری نہیں کرتی تھیں اور مرد ہی خواتین کا روپ دھار کر فلموں میں خواتین کا کردار کرتے تھے۔غیر منقسم ہندوستان اور پاکستانی فلم انڈسٹری میں کام کرنے والے کئی اداکاروں کی جڑیں ہیرا منڈی میں ہیں۔انڈیا اور پاکستان کی تقسیم کے بعد یہاں سے تعلق رکھنے والے بہت سے افراد انڈیا آئے اور یہاں فلمی صنعت اور دوسرے پیشوں سے منسلک ہو کر اپنی زندگی گزارنے لگے۔پاکستان میں مقیم مصنفہ فوزیہ سعید نے بھی اپنی کتاب میں ہیرامنڈی کے بارے میں لکھا ہے۔انھوں نے اپنی کتاب ’ٹیبو: دی ہیڈن کلچر آف اے ریڈ لائٹ ایریا‘ لکھنے کے لیے 8 سال تک ہیرامنڈی پر تحقیق کی۔وہ یہاں رہنے والی خواتین اور کمیونٹی کے دیگر لوگوں کی زندگی کے بہت سے پہلوؤں کو سامنے لائیں۔

تاریخ

ترمیم

مغل دور میں ہیرا منڈی رقص اور موسیقی کے لیے مشہور تھا۔ یہ شہر کےطوائف ثقافت کا مرکز تھا۔ لوگ بصری تفریح اور موسیقی کے لیے یہاں جاتےتھے۔ بعض روایات کے مطابق یہاں سکھ حکومت کے ہندو ڈوگرہ وزیر اعظم دھیان سنگھ کے بیٹے ہیرا سنگھ کی حویلی تھی ہیرا سنگھ مہاراجا رنجیت کا منہ بولا بیٹا بناہوا تھا۔ اپنے باپ دھیان سنگھ کی موت کے بعد وہ وزیر اعظم کے عہدے پر فائز ہوا۔ اس کی حویلی اور نام کی مناسبت سے لاہور شہر کا یہ حصہ ہیرا منڈی کہلاتا ہے۔

پاپولر کلچر

ترمیم
  • کرن جوہر کی فلم ’کلنک‘ میں ’حسن آباد‘ نام کا ایک شہر دکھایا گیا ہے اور بظاہر ایسا لگتا ہے کہ اس کی تحریک ہیرا منڈی نامی اسی علاقے سے لی گئی ہے۔
  • بالی وڈ کے ہدایتکار سنجے لیلا بھنسالی کی نیٹ فلکس پر ریلیز ہونےو الی ویب سیریز ’ہیرا منڈی: دی ڈائمنڈ بازار‘ اسی علاقے سے متعلق ہے۔اس ویب سیریز کی کہانی تقسیم ہندوستان سے قبل اس علاقے میں بسنے والی ایک طوائف ملکہ جان اور ان کے کوٹھے کی زندگی کے گرد گھومتی ہے۔