یاسین ملک

کشمیری حریت رہنما، پہلے پاکستانی نوبل انعام یافتہ حسین ملک کے داماد

یاسین ملک (پیدائش: 1963ء) جموں و کشمیر کے حریت پسند رہنما اور کشمیر لبریشن فرنٹ کے سربراہ ہیں۔[1]

یاسین ملک ابتدائی طور پر جموں کشمیر میں بر سر اقتدار پارٹی نیشنل کانفرنس کے خلاف ایک طلبہ لیڈر کے طور پر سامنے آئے تھے۔ انھوں نے 1987ء کے انتخابات میں امیرا کدل سے مسلم یونائٹڈ فرنٹ کے امیدوار محمد یوسف شاہ کی حمایت کی تھی۔

کشمیر کے علیحدگی پسند لوگ یہ کہتے ہیں کہ اگر یوسف شاہ کو ہرایا نہ جاتا تو وہ پاکستان جا کر سید صلاح الدین نہ بنتے اور نہ ان کے حامی وہاں جا کر عسکری تربیت لیتے اور نہ انڈیا میں مسلح جدوجہد آزادی کا دور شروع ہوتا۔ اس میں جے کے ایل ایف کا کردار کسی سے پوشیدہ نہیں۔ یاسین ملک نے جے کے ایل ایف میں شمولیت اختیار کی اور ان کا گروپ جسے چار رہنماؤں حامد شیخ، اشفاق وانی، جاوید احمد میر اور یاسین ملک کے نام کے پہلے حروف کو جوڑ کر 'حاجی' کہا گیا، وہ شروع میں بہت مقبول رہا لیکن رفتہ رفتہ اس کا زور ختم ہوتا گیا، یہاں تک کہ اس جماعت کے دو گروپ بن گئے۔

یاسین ملک کی کئی بار گرفتاریاں ہوئیں اور ہر بار ان میں کوئی نہ کوئی تبدیلی رونما ہوئی۔ جب سنہ 1994ء میں جب انھیں حراست میں لیا گیا تو انھوں نے کشمیر کے مسئلے کے حل کے لیے تشدد کی بجائے امن کے راستے کی پیروی شروع کر دی اور 'گاندھین' بن گئے اور ایسی بات چیت کی حمایت کرنے لگے، جس میں بھارت اور پاکستان کے ساتھ کشمیریوں کی بھی شمولیت ہو۔

سنہ 1999ء اور پھر سنہ 2002ء میں بھی انھیں گرفتار کیا گیا، جس دوران میں تقریباً ایک سال تک وہ جیل میں رہے۔ اس کے بعد انھوں نے دنیا بھر کے رہنماؤں سے ملاقات کرنے اور کشمیر کے مسئلے کے حل کے لیے بات چیت کا سلسلہ شروع کیا، جبکہ ان کی پارٹی نے 2007ء میں 'سفر آزادی' کے نام سے لوگوں سے ملنے کا ایک سلسلہ شروع کیا، جس میں انڈیا کی حکومت کے مطابق انھوں نے لوگوں میں حکومت کے خلاف تاثرات پیدا کیے۔

یاسین ملک نے 2013ء میں پاکستان کی کالعدم تنظیم 'لشکر طیبہ' کے سربراہ حافظ محمد سعید کے ساتھ سٹیج شیئر کیا، جس پر انھیں انڈیا میں شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا، کیونکہ حافظ سعید کو انڈیا ممبئی بم دھماکوں کا 'ماسٹر مائنڈ' کہتا ہے۔ یاسین ملک کے خلاف مقدمے کی دوبارہ سماعت شروع ہونے کے بعد ان کی رہائی کے امکانات معدوم ہوتے نظر آ رہے ہیں۔

یاسین ملک انڈیا کے زیر انتظام کشمیر سے تعلق رکھنے والے علیحدگی پسند رہنما ہیں، وہ جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے چیئرمین ہیں۔ وہ تین اپریل 1963 کو کشمیر میں پیدا ہوئے۔ اوائل نوجوانی سے ہی وہ کشمیر کو الگ اور آزاد حیثیت دینے کے لیے سرگرم ہیں۔ انھوں نے مسلح جدوجہد بھی کی اور بعد ازاں سیاسی جدوجہد شروع کی جس کی وجہ سے وہ شروع سے ہی گرفتاریوں کا سامنا کرتے آ رہے ہیں۔ 2009 میں انھوں نے پاکستانی آرٹسٹ مشال ملک[2] سے شادی کی جن سے ان کی ملاقات چند سال قبل مشرف دور میں اس وقت ہوئی تھی جب دونوں ملکوں کے تعلقات میں کافی خوشگواری پیدا ہو گئی تھی اور دونوں اطراف سے وفود ایک دوسرے کے ملک کے دورے کر رہے تھے، انھی دنوں یاسین ملک پاکستان آئے تھے اور ایک تقریب میں مشال ملک سے ملاقت ہوئی۔ ان کی ایک بیٹی رضیہ سلطانہ بھی ہے۔ آخری بار یاسین ملک کو 22 فروری 2019 کو پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت گرفتار کیا گیا اور سات مارچ کو انھیں جموں کوٹ بلوال جیل منتقل کیا گیا۔ کچھ عرصہ بعد ان کو تہاڑ جیل منتقل کیا گیا۔ جہاں سے ان کی صحت بگڑنے کی خبریں سامنے آتی رہی ہیں۔ پانچ اگست کو جب انڈین حکومت کی جانب سے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کی گئی تو اس وقت بھی یاسین ملک جیل میں تھے [3]

مقدمہ

ترمیم

بریشن فرنٹ کے چیئرمین اور تحریکِ آزادیٔ کشمیر کے ہیرو یاسین ملک کو بھارتی حکومت کی جانب سے بے بنیاد دہشت گردی کے الزامات میں فروری 2019ء میں گرفتار کیا گیا تھا، اب تین سال قید وبند کی صعوبتیں جھیلنے کے بعد ان پر ایک عدالت میں مقدمہ چلایا گیا ہے۔یاسین ملک جدوجہد آزادیٔ کے جرم میں گذشتہ کئی سال سے نئی دلی کی تہاڑ جیل میں پابند سلاسل تھے۔اس بدنام زمانہ جیل میں مقبوضہ کشمیر کے کئی دیگر آزادی کے متوالے رہنما بھی جبری قید و بند کی صعوبتیں جھیل چکے ہیں، 56سالہ یاسین ملک نے اپنی جوانی کشمیریوں کی آزادی پر تو قربان کر ہی دی، ان پر جیل میں بے پناہ تشدد بھی کیا جاتا رہا۔

حوالہ جات

ترمیم
  1. "یاسین ملک" 
  2. "مشال ملک" 
  3. "آرکائیو کاپی"۔ 11 جولا‎ئی 2022 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 11 جولا‎ئی 2022