یحیی بن سعید انصاری
یحییٰ بن سعیدؒ جلیل القدر تابعین میں سے ہیں۔
یحیی بن سعید انصاری | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائش | سنہ 688ء مدینہ منورہ |
وفات | سنہ 761ء (72–73 سال) عراق |
بہن/بھائی | |
عملی زندگی | |
پیشہ | محدث |
درستی - ترمیم |
نام و نسب
ترمیمیحییٰ نام،ابو سعید کنیت،نسب نامہ یہ ہے یحییٰ بن سعید بن قیس بن عمرو بن سہل ابن ثعلبہ بن حارث بن زید بن ثعلبہ بن غنم بن مالک بن نجار نصاری مدنی۔
فضل وکمال
ترمیمیحییٰ ،علمی اعتبار سے اپنے دور کے ممتاز ترین تابعین میں تھے،ان کی علمی جلالت پر تمام ائمہ کا اتفاق ہے،امام نووی لکھتے ہیں کہ ان کی توثیق ،جلالت اورامامت پر سب کا اجماع ہے،حافظ ذہبی ان کو امام اورشیخ الاسلام لکھتے ہیں۔ [1]
حدیث
ترمیماگرچہ یحییٰ بن سعید اس دور کے بزرگ ہیں، جب کہ عہدِ صحابہ کی بہار آخر ہو چکی تھی،پھر بھی جو باقیات صالحیات رہ گئے تھے،یحییٰ نے ان سے پورا فائدہ اٹھا یا تھا؛چنانچہ صحابہ اورکبار تابعین میں انھوں نے انس بن مالکؓ،سائب بن یزید،عبد اللہ بن عامر بن ربیعہ ابو امامہ ابن سہل بن حنیف ،سعید بن مسیب،قاسم بن محمد بن عمرو بن سلمہ بن عبد الرحمن عروہ بن زبیر سلمان ابن یسار وغیرہ سے انھوں نے سماع حدیث کیا تھا۔ ان بزرگوں کے فیض نے یحییٰ کو بڑا حافظ حدیث بنادیا تھا،علامہ ابن سعد لکھتے ہیں ‘کان ثقۃ کثیر الحدیث حجۃ ثبتا’ ابن مبارک انھیں اکابرحفاظِ حدیث میں شمار کرتے تھے،ابی حاتم انھیں امام زہری کے برابر سمجھتے تھے،مدینہ کے دو شخص ایسے تھے جن کی ذات سے مدینۃ الرسول کا علم محفوظ رہا،ایک زہری دوسرے یحییٰ بن سعید،اگریہ دونوں نہ ہوتے تو بہت سے سنن ضائع ہوجاتے،کبار تابعین کے بعد مدینہ میں چار حاملین علم تھے،ان میں ایک یحییٰ بن سعید ہیں،سفیان ثوری کا بیان ہے کہ اہل مدینہ انھیں زہری سے بھی زیادہ بلند مرتبہ سمجھتے تھے [2] یحییٰ القطان کہتے تھے کہ یحییٰ بن سعید کو اس حیثیت سے زہری پر تفوق حاصل ہے کہ زہری کے بارے میں لوگوں کا اختلاف موجود ہے،لیکن ان کے بارے میں کسی نے اختلاف نہیں کیا [3]ابن مدینی کے بیان کے مطابق ان کی مرویات کی تعداد تین سو ہے [4]اوریزید بن ہارون کا بیان ہے کہ انھوں نے ان کی تین ہزار مرویات کی تعداد تین سو ہے۔[5]اور یزید بن ہارون کا بیان ہے کہ انھوں نے ان کی تین ہزار حدیثیں حفظ کی تھیں۔ [6]
تلامذہ
ترمیمان کے خوشہ چینیوں کا دائرہ نہایت وسیع تھا، ان میں سے بعض نامور تلامذہ یہ ہیں،ہشام بن عروہ،حمید الطویل،یزید بن عبد اللہ بن اسامہ،ابن جریج اوزاعی ،مالک بن انس دونوں سفیان،حماد،لیث،ابن مبارک،شعبہ، یحییٰ بن سعید القطان اوریحییٰ بن سعید اموی وغیرہ۔ [7]
فقہ
ترمیمفقہ میں بھی وہ امتیازی پایہ رکھتے تھے،ایوب سختیانی کہتے تھے کہ میں نے یحییٰ سے بڑا فقیہ مدینہ میں نہیں چھوڑا [8] ان کے تفقہ کی ایک سند یہ بھی ہے کہ وہ مدینہ الرسول کے جو مخزن فقہا تھا،قاضی تھے [9]مروان کے زمانہ میں حج کے موقع پر منادی کی جاتی تھی کہ حجاج کو یحییٰ بن سعید کے علاوہ کوئی دوسرا فتویٰ نہ دے۔ [10]
عہدہ قضا
ترمیمابتدا میں مدینہ کے قاضی تھے ،پھر دولت عباسیہ کے قیام کے بعد ابوجعفر منصور عباسی نے انھیں بلاکر قاضی القضاء کے جلیل القدر منصب پر ممتاز کیا،ایک روایت ہے کہ وہ ہاشمیہ میں اس عہدہ پر ممتاز ہوئے تھے، دوسری یہ کہ بغداد میں ،مدینہ کے قیام کے زمانہ میں ان کی مالی حالت نہایت خواب ہو گئی تھی،بڑی عسرت سے زندگی بسر کرتے تھے،بہت مقروض ہو گئے تھے،عین اسی زمانہ میں منصور نے عہدۂ قضا کے لیے طلب کیا، اس عہدہ پر تقرر کے دو مہینے کے اندر ان کی حالت درست ہو گئی اورکل قرض ادا ہو گیا۔ [11]
بعض زرین اصول
ترمیمیحییٰ بن سعید بعض نہایت زرین اصول ارشاد فرماتے تھے،جو آج بھی مذہبی مسائل میں ادنی اختلاف پر ایک دوسرے کو ہدفِ ملامت بنانے والوں کے لیے سبق کا کام دے سکتے ہیں،فرماتے تھے کہ ،اہل علم وسعت ہیں، مفتیوں میں مسائل میں ہمیشہ سے باہم اختلاف ہوتا چلا آیا ہے،ایک شخص ایک شے کو حرام کہتا ہے اور دوسرا حلال،لیکن اس اختلاف سے کوئی ایک دوسرے پر عیب نہیں لگاتا۔ [12]
وفات
ترمیم143ھ میں ہاشمیہ میں وفات پائی۔ [13]