یحییٰ بن سعیدؒ جلیل القدر تابعین میں سے ہیں۔

یحییٰ بن سعید
معلومات شخصیت

نام ونسبترميم

یحییٰ نام،ابو سعید کنیت،نسب نامہ یہ ہے یحییٰ بن سعید بن قیس بن عمرو بن سہل ابن ثعلبہ بن حارث بن زید بن ثعلبہ بن غنم بن مالک بن نجار نصاری مدنی۔

فضل وکمالترميم

یحییٰ ،علمی اعتبار سے اپنے دور کے ممتاز ترین تابعین میں تھے،ان کی علمی جلالت پر تمام آئمہ کا اتفاق ہے،امام نووی لکھتے ہیں کہ ان کی توثیق ،جلالت اورامامت پر سب کا اجماع ہے،حافظ ذہبی ان کو امام اورشیخ الاسلام لکھتے ہیں۔ [1]

حدیثترميم

اگرچہ یحییٰ بن سعید اس دور کے بزرگ ہیں، جب کہ عہدِ صحابہ کی بہار آخر ہوچکی تھی،پھر بھی جو باقیات صالحیات رہ گئے تھے،یحییٰ نے ان سے پورا فائدہ اٹھا یا تھا؛چنانچہ صحابہ اورکبار تابعین میں انہوں نے انس بن مالکؓ،سائب بن یزید،عبداللہ بن عامر بن ربیعہ ابو امامہ ابن سہل بن حنیف ،سعید بن مسیب،قاسم بن محمد بن عمرو بن سلمہ بن عبدالرحمن عروہ بن زبیر سلمان ابن یسار وغیرہ سے انہوں نے سماع حدیث کیا تھا۔ ان بزرگوں کے فیض نے یحییٰ کو بڑا حافظ حدیث بنادیا تھا،علامہ ابن سعد لکھتے ہیں ‘کان ثقۃ کثیر الحدیث حجۃ ثبتا’ ابن مبارک انہیں اکابرحفاظِ حدیث میں شمار کرتے تھے،ابی حاتم انہیں امام زہری کے برابر سمجھتے تھے،مدینہ کے دو شخص ایسے تھے جن کی ذات سے مدینۃ الرسول کا علم محفوظ رہا،ایک زہری دوسرے یحییٰ بن سعید،اگریہ دونوں نہ ہوتے تو بہت سےسنن ضائع ہوجاتے،کبار تابعین کے بعد مدینہ میں چار حاملین علم تھے،ان میں ایک یحییٰ بن سعید ہیں،سفیان ثوری کا بیان ہے کہ اہل مدینہ انہیں زہری سے بھی زیادہ بلند مرتبہ سمجھتے تھے [2] یحییٰ القطان کہتے تھے کہ یحییٰ بن سعید کو اس حیثیت سے زہری پر تفوق حاصل ہے کہ زہری کے بارے میں لوگوں کا اختلاف موجود ہے،لیکن ان کے بارے میں کسی نے اختلاف نہیں کیا [3]ابن مدینی کے بیان کے مطابق ان کی مرویات کی تعداد تین سو ہے [4]اوریزید بن ہارون کا بیان ہے کہ انہوں نے ان کی تین ہزار مرویات کی تعداد تین سو ہے۔[5]اور یزید بن ہارون کا بیان ہے کہ انہوں نے ان کی تین ہزار حدیثیں حفظ کی تھیں۔ [6]

تلامذہترميم

ان کے خوشہ چینیوں کا دائرہ نہایت وسیع تھا، ان میں سے بعض نامور تلامذہ یہ ہیں،ہشام بن عروہ،حمید الطویل،یزید بن عبداللہ بن اسامہ،ابن جریج اوزاعی ،مالک بن انس دونوں سفیان،حماد،لیث،ابن مبارک،شعبہ، یحییٰ بن سعید القطان اوریحییٰ بن سعید اموی وغیرہ۔ [7]

فقہترميم

فقہ میں بھی وہ امتیازی پایہ رکھتے تھے،ایوب سختیانی کہتے تھے کہ میں نے یحییٰ سے بڑا فقیہ مدینہ میں نہیں چھوڑا [8] ان کے تفقہ کی ایک سند یہ بھی ہے کہ وہ مدینہ الرسول کے جو مخزن فقہا تھا،قاضی تھے [9]مروان کے زمانہ میں حج کے موقع پر منادی کی جاتی تھی کہ حجاج کو یحییٰ بن سعید کے علاوہ کوئی دوسرا فتویٰ نہ دے۔ [10]

عہدہ قضاترميم

ابتداء میں مدینہ کے قاضی تھے ،پھر دولت عباسیہ کے قیام کے بعد ابوجعفر منصور عباسی نے انہیں بلاکر قاضی القضاء کے جلیل القدر منصب پر ممتاز کیا،ایک روایت ہے کہ وہ ہاشمیہ میں اس عہدہ پر ممتاز ہوئے تھے، دوسری یہ کہ بغداد میں ،مدینہ کے قیام کے زمانہ میں ان کی مالی حالت نہایت خواب ہوگئی تھی،بڑی عسرت سے زندگی بسر کرتے تھے،بہت مقروض ہوگئے تھے،عین اسی زمانہ میں منصور نے عہدۂ قضا کے لیے طلب کیا، اس عہدہ پر تقرر کے دو مہینے کے اندر ان کی حالت درست ہوگئی اورکل قرض ادا ہوگیا۔ [11]

بعض زرین اصولترميم

یحییٰ بن سعید بعض نہایت زرین اصول ارشاد فرماتے تھے،جو آج بھی مذہبی مسائل میں ادنی اختلاف پر ایک دوسرے کو ہدفِ ملامت بنانے والوں کے لیے سبق کا کام دے سکتے ہیں،فرماتے تھے کہ ،اہل علم وسعت ہیں، مفتیوں میں مسائل میں ہمیشہ سے باہم اختلاف ہوتا چلا آیا ہے،ایک شخص ایک شے کو حرام کہتا ہے اور دوسرا حلال،لیکن اس اختلاف سے کوئی ایک دوسرے پر عیب نہیں لگاتا۔ [12]

وفاتترميم

۱۴۳ھ میں ہاشمیہ میں وفات پائی۔ [13]

حوالہ جاتترميم

  1. (تہذیب التہذیب:۱/۱۵۴)
  2. (بحوالہ ابن سعد)
  3. (تذکرۃ الحفاظ:۱/۱۲۳)
  4. (ایضاً:۱۲۵)
  5. (ایضاً:۱۲۵)
  6. (ایضاً:۱۲۵)
  7. (تہذیب الاسماء:۱/۱۵۳)
  8. (ایضاً:۱۲۴)
  9. (تذکرۃ الحفاظ:۱/۱۲۲)
  10. (ایضاً:۱۲۴)
  11. (تذکرۃ الحفاظ:۱/۱۲۳)
  12. (ایضاً:۱۲۳)
  13. (ایضاً)