یمین عرفی سے مراد حلف یا قسم لیا جاتا ہے انسانی معاشرے میں معاشرتیسماجی اور سیاسی معاملات میں قسم کی ہمیشہ ضرورت رہی اور رہے گی۔

یمین کو حلف و قسم کہنے کی توجیہ ترمیم

یمین کے معنی اصل میں قوت کے ہیں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ :لَأَخَذْنَا مِنْهُ بِالْيَمِين (الحاقہ:45)( یعنی بے شک ہم نے اسے قوت کے ساتھ پکڑ لیا) اور بائیں ہاتھ کے خلاف عضو کو ( یعنی سیدھے ہاتھ کو) بھی اس کی قوت ہی کی وجہ سے یمین کہتے ہیں اور قسم کو بھی یمین اسی لیے کہا جاتا ہے کہ اللہ کا نام بول کر اس میں کلام کی تقویت ہوجاتی ہے۔[1]

معاشرے میں قسم کی اہمیت ترمیم

ہر معاشرے میں جس نام کی قسم کھائی جاتی ہے اس کا خاص احترام ملحوظ خاطر ہوتا ہے۔ اس معاشرے میں رہنے والے لوگ حتیٰ الامکان غلط بات کے لیے اس نام کو استعمال کرنے کی جرأت نہیں کرتے۔ جب بھی کسی معاملے میں اعتماد پیدا کرنے کی ضرورت پیش آتی ہے یا کسی شبہے کے ازالے کا موقع ہوتا ہے یا کسی معاہدے کو استحکام دینا مقصود ہوتا ہے تو عموماً قسم سے اس ضرورت کو پورا کیا جاتا ہے۔ اور اگر کبھی غلط قسم کھا بیٹھو تو اس کا کفارہ دو۔

قسم کا کفارہ ترمیم

ایسی قَسموں کے بارے میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے وَإِذَا حَلَفْتَ عَلَى يَمِينٍ، فَرَأَيْتَ غَيْرَهَا خَيْرًا مِنْهَا، فَكَفِّرْ عَنْ يَمِينِكَ وَأْتِ الَّذِي هُوَ خَيْرٌ[2]’’ اگر تم کسی بات کی قسم کھالو اور پھر اس کے بعد دیکھو کہ اس سے دوسرا کام نیک معلوم ہوتا ہے تو وہ نیک کام کرلو اور قسم کا کفارہ ادا کر دو‘‘ یعنی دین کا اصل مقصد اگر بھلائیوں کو اختیار کرنا اور انھیں فروغ دینا ہے تو پھر قسم کو ان کے لیے رکاوٹ نہ بناؤ۔ اگر تم غلطی سے ایسا کرچکے ہو تو قسم توڑ ڈالو اور قسم کا کفارہ دے دو اور قسم توڑنے کا کفارہ یہ ہے کہ دس مسکینوں کو کھانا کھلاؤ اوسط درجے کا کھانا یا دس مسکینوں کو کپڑے بنا کے دو اور اگر اس کے متحمل نہیں ہو سکتے ہو تو پھر تین دن کے روزے رکھو۔[3]

حوالہ جات ترمیم

  1. تفسیر مظہری قاضی ثناء اللہ پانی پتی،البقرہ،225
  2. صحیح بخاری،کتاب الایمان والنذور
  3. تفسیر روح القران۔ ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی ،البقرہ،224