یمین منعقدہ یامنعقدہ قسم ( یعنی عقد یمین) سے مراد یہ ہے کہ قسم کھا کر اپنے اوپر ایک چیز کو ایسا لازم کرلینا کہ اس کا پورا کرنا اس پرواجب ہو۔[1]
یمین منعقدہ یہ ہے کہ کوئی آئندہ فعل کے متعلق قصدا قسم کھائے کہ کروں گا یا نہیں کروں گا ایسی قسم کے توڑنے پر بالاتفاق کفارہ واجب ہے۔
سورۃ مائدہ میں وَلَكِنْ يُؤَاخِذُكُمْ بِمَا عَقَّدْتُمُ الْأَيْمَانَ فَكَفَّارَتُهُ إِطْعَامُ عَشَرَةِ مَسَاكِينَ(المائدۃ:89)۔ سے یہی منعقدہ مراد ہے کہ جو آئندہ کسی کام کے کرنے یانہ کرنے کے متعلق قسم کھائی جائے اور اس آیت یعنی لَا يُؤَاخِذُكُمُ اللَّهُ بِاللَّغْوِ فِي أَيْمَانِكُمْ وَلَكِنْ يُؤَاخِذُكُمْ بِمَا كَسَبَتْ قُلُوبُكُمْ(البقرہ:225)میں اسی قسم یعنی فعل آئندہ پر قسم کھانے کا حکم مذکور ہے اگر تم آئندہ کے متعلق کسی گناہ اور خلاف بر(نیکی) اور خلاف تقویٰ کام کی قسم کھابیٹھے ہو کہ واللہ اپنے باپ سے یارشتہ دار سے بات نہ کروں گا تو تم کو لازم ہے کہ ایسی قسم کوتوڑو اور کفارہ دو ابوبکر صدیق نے قسم کھالی تھی کہ میں مسطح کو خرچ نہ دوں گا اس کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی اس آیت کے نازل ہونے کے بعد ابوبکرصدیق نے مسطح کا وظیفہ دوچند کر دیا۔[2]
منعقدہ قسم یہ ہے کہ آیندہ کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے پر خدا کی قسم کھائے کہ واللہ میں فلاں کام کروں گا یا خدا کی قسم اس کے گھر نہ جاؤں گا پس جو کسی گناہ کی بات پر قسم کھا بیٹھے کہ واللہ میں نماز نہ پڑھوں گا یا فلاں شخص کو قتل کروں گا یاواللہ نہ دوں گا یا اپنے باپ سے کلام نہ کروں گا تو اس پر لازم ہے کہ قسم کو توڑ دے اور کفارہ دے دے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا مَنْ حَلَفَ عَلَى يَمِينٍ، فَرَأَى غَيْرَهَا خَيْرًا مِنْهَا، فَلْيَأْتِهَا، وَلْيُكَفِّرْ عَنْ يَمِينِهِ رواہ المسلم ’’ کہ جو کسی بات پر قسم کھا بیٹھے اور اس کے خلاف کرنے میں بہتری جانیں تو اس کام کو کرلے اور اپنی قسم کا کفارہ ادا کر دے‘‘ [3]

’’یمین منعقدہ‘‘ (بالقصد قسم) یہ وہ قسم ہے جسے عام طور پر جانا پہچانا جاتا ہے۔ آدمی کسی سے حلفاً وعدہ کرتا ہے میں تمھیں یہ چیز دوں گا اور پھر نہیں دیتا۔ اس صورت میں یہ قسم ٹوٹ جائے گی یا مثلاً وہ جانتا ہے کہ فلاں شخص جھوٹا دعویٰ پیش کر رہا ہے لیکن وہ پھر بھی حلفاً اس کی تائید کرتا ہے۔ مختصر یہ کہ ہر وہ قسم جس میں دل کے ارادے سے جھوٹ بولا جائے یا قسم کھاتے ہوئے تو سچی بات کہی جائے لیکن بعد میں اسے پورا نہ کیا جائے۔ ایسی قسم پر کفارہ بھی ہے اور اللہ تعالیٰ اس پر مواخذہ بھی فرمائے گا[4]
علامہ علاء الدین حصکفی لکھتے ہیں : اگر مستقبل کے کسی کام پر قسم کھائی جائے تو وہ یمین منعقدہ ہے لیکن اس میں شرط یہ ہے کہ وہ کام فی نفسہ ممکن ہو‘ اگر کوئی شخص یہ قسم کھائے کہ خدا کی قسم ! میں نہیں مروں گا‘ یا خدا کی قسم ! سورج طلوع نہیں ہوگا تو یہ یمین غموس ہے۔ اگر اس قسم کو پورا نہیں کیا تو اس میں کفارہ ہے۔ (مثلا اس نے قسم کھائی : خدا کی قسم ! میں کل روزہ رکھوں گا‘ اب اگر اس نے کل روزہ نہیں رکھا تو اس کو کفارہ دینا ہوگا) [5][6]

حوالہ جات ترمیم

  1. تفسیر مظہری قاضی ثناء اللہ پانی پتی،البقرہ،225
  2. تفسیر معارف القرآن ،محمدادریس کاندہلوی،البقرہ،224
  3. تفسیر حقانی ابو محمد عبد الحق حقانی،البقرہ 224
  4. تفسیر روح القران۔ ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی ،البقرہ،224
  5. درمختار علی ھامش الرد ج 3 ص 49 مطبوعہ دارا حیاء التراث العربی‘ بیروت
  6. تفسیر تبیان القرآن، غلام رسول سعیدی،البقرہ،224