قسم کی تین قسمیں ہیں:

یمین غموس کی تفصیل ترمیم

اگر کوئی شخص عمدا جھوٹ پر قسم کھائے تو یہ یمین غموس ہے مثلا کسی نے کسی شخص کے ایک ہزار روپے دینے ہوں‘ اور وہ قسم کھائے : "اللہ کی قسم ! میں نے اس کے ایک ہزار روپے نہیں دینے" حالانکہ اس کو علم ہو کہ اس نے ایک ہزار روپے دینے ہیں۔ اس کو غموس اس لیے کہتے ہیں کہ یہ قسم قسم کھانے والے کو گناہ میں ڈبودیتی ہے یہ قسم مطلقا گناہ کبیرہ ہے خواہ اس قسم کے ذریعہ کسی مسلمان کا حق دبائے یا نہ دبائے‘ کیونکہ ’’صحیح بخاری‘‘ میں ہے : کبائر یہ ہیں : اللہ کے ساتھ شرک کرنا‘ ماں باپ کی نافرمانی کرنا‘ قتل ناحق کرنا اور یمین غموس۔ علامہ سرخسی نے لکھا ہے کہ اس پر یمین کا اطلاق مجازا ہے کیونکہ یمین ایک عقد مشروع ہے اور یہ محض گناہ کبیرہ ہے۔ اس پر توبہ لازم ہے۔[1] یمین غموس سے مراد وہ قسم ہے جسے قسم کھانے والا خود جھوٹا سمجھتا ہو‘ لیکن پھر بھی قسم کھاتا ہو۔ یا ماضی کے کسی واقعے کے بارے میں قسم کھا کر کہتا ہے کہ ایسا نہیں ہوا‘ حالانکہ وہ جانتا ہے کہ ایسا ہوا تھا۔ ایسی قسم پر کفارہ تو نہیں ہوتا‘ لیکن اس پر گناہ ہوتا ہے۔ گناہ ہونے کے لحاظ سے یقینا آخرت میں اس پر مواخذہ ہوگا۔[2]

احناف اور شوافع کا موقف ترمیم

یمین غموس یہ ہے کہ کسی گذری ہوئی بات پر قصدا جھوٹی قسم کھائے امام اعظم کے نزدیک اس قسم کی قسم پر حسب ارشاد باری تعالی، وَلَكِنْ يُؤَاخِذُكُمْ بِمَا كَسَبَتْ قُلُوبُكُم۔ گناہ ہے جس کا علاج توبہ اور استغفار ہے دنیا میں اس پر کوئی کفارہ نہیں اس لیے کہ کسی گذشتہ امر پر دیدہ ودانستہ قسم کھانا جھوٹ ہے اور جھوٹ بولنے پر گناہ ہوتا ہے کفارہ نہیں امام شافعی فرماتے ہیں کہ یمین غموس میں کفارہ واجب ہے کیونکہ سورۃ مائدہ میں بجائے بماکسبت قلوبکم کے بماعقدتم الایمان کا لفظ آیا ہے معلوم ہوا کہ ماکسبت قلوبکم اور ماعقدتم سے ایک ہی معنی مراد ہیں اور سورۃ مائدہ میں کفارہ صراحۃ مذکور ہے معلوم ہوا کہ مواخذہ سے مراد کفارہ دینا ہے، امام اعظم کے نزدیک ولکن یواخذکم میں اخروی مواخذہ مراد ہے یعنی دیدہ دانستہ جھوٹ بولنے پر عذاب دینا مراد ہے کفارہ مراد نہیں۔[3]

یمین غموس پر کفارہ نہیں ترمیم

یمین غموس کے بارے میں اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی، إِنَّ الَّذِينَ يَشْتَرُونَ بِعَهْدِ اللَّهِ وَأَيْمَانِهِمْ ثَمَنًا قَلِيلًا۔(آل عمران:77) اس آیت میں یمین غموس پر اخروی مواخذہ کا ذکر ہے دنیوی مواخذہ یعنی کفارہ کا ذکر نہیں اس لیے امام ابوحنیفہ کے نزدیک یمین غموس کی حقیقت جھوٹ اور افتراء ہے جو اعلی درجہ کا گناہ کبیرہ ہے جس میں توبہ اور استغفار واجب ہے مگر کفارہ نہیں، اوراسی طرح فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْأَوْثَانِ وَاجْتَنِبُوا قَوْلَ الزُّور(الحج:30) میں بھی یمین غموس کی طرف اشارہ ہے۔ ایک غموس (غمس کہتے ہیں ڈوبنے کو چونکہ ایسی قسم کھانے والا گناہ میں ڈوبتا ہے اس لیے اس کو غموس کہتے ہیں)یہ وہ کہ جو کسی گذری ہوئی بات پر عمداً جھوٹی قسم کھائی جائے جیسا کہ واللہ فلاں شخص آیا تھا اور جانتا ہے کہ وہ نہیں آیا ٗ اس میں بڑا گناہ ہے۔ اس پر بحکم ولکن یؤاخذ کم بما کسبت قلوبکم آخرت کا مؤاخذہ ہے۔ دنیا میں اس کا علاج توبہ و استغفار ہے۔ یہی قول امام ابو حنیفہ کا بھی ہے مگر امام شافعی کہتے ہیں کہ یہ بما کسبت قلوبکم میں داخل ہے اور پھر سورۃ مائدہ میں اس کو بما عقد تم الایمان سے تعبیر کیا ہے اور وہاں اس مؤاخذہ کی تشریح ہے کہ کفارہ دینا ہوگا۔[4]

کبیرہ گناہ ہے ترمیم

قسم کھانے کی آدمی کی دو حالتیں ہیں یا آئندہ کی کسی بات پر قسم ہوتی ہے کہ آئندہ اتنی مدت کے بعدایسا ہوگا۔ یا کسی گذری ہوئی بات پر قسم ہوتی ہے کسی آدمی کو گذشتہ بات معلوم ہو اور پھر وہ لالچ یا رعایت کے سبب سے جان بوجھ کر اصلی حالت کو چھپا کر قسم کھا جائے تو یہ کبیرہ گناہ ہے اور اسی کو یمین غموس یعنی گناہ میں ڈوبی ہوئی قسم کہتے ہیں۔[5]

حوالہ جات ترمیم

  1. تفسیر تبیان القرآن، غلام رسول سعیدی،البقرہ،224
  2. تفسیر روح القران۔ ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی ،البقرہ،224
  3. تفسیر معارف القرآن ،ادریس کاندہلوی،البقرہ224
  4. تفسیر حقانی ابو محمد عبد الحق حقانی،البقرہ 224
  5. تفسیر احسن التفاسیر، حافظ محمد سید احمد حسن،،البقرہ 224