سیدیوسف صفی [1] کی پیدائش 1945ء میں ہوئی اسکول کی سطح پر ہی یوسف صفی اپنے اساتذہ سے بے حد متاثر تھے ان کے اساتدہ میں شعرا و ڈراما نگار موجود تھے دورانِ تعلیم ہی ان کو محکمہ ریلوے میں ملازمت ملی سات سال ملازمت کے بعد سرکاری ملازمت کو استعفیٰ دے دیا اس کے بعد ان کا اہم پیشہ فوٹو گرافی رہا ہے۔ دورانِ تعلیم انھوں نے استاد محترم منشی احمد حسین سے شعر فہمی کا ہنر سیکھا تھا حضرت کوثر نوید نیلوری کو شاعروں میں اپنا استاد مانتے ہیں۔

ڈراما نگار

ترمیم

موصوف نے ڈراما، غزل، نظم اور نعت منقبت جیسے اصناف کو اپنایا بنیادی طور پر وہ ایک ڈراما نگار ہیں اب تک ان کے دو ڈراموں کے مجموعے ’’کل کی دھوپ‘‘، ’’دودِ چراغ‘‘ کے نام سے منظر عام پر آچکے ہیں اور ان کے کئی ڈرامے اسٹیج بھی ہو چکے ہیں علاوہ ازیں ان کا ایک اشتراکی شعری مجموعہ ’’لہجے‘‘ کے نام سے منظر عام پر آچکا ہے جس میں ان کی تخلیق کردہ نظمیں شامل ہیں۔ ان کے کلام میں سادگی سلاست، روانی اور جدیدیت کی جھلک پائی جاتی ہے۔ غزل ہو کہ نظم موصوف نے اپنے خیالات اور جذبات کو ایک الگ پیرائے میں ظاہر کیا ہے یوسف صفی کا کہنا ہے کہ بنگلور میں قیام کے دوران فرحت کیفی اور دانش فرازی سے تحریک پا کر ہی نظم کی جانب مائل ہوئے اور نظمیں تخلیق کر کے بنگلور کے مشاعروں میں سنانے لگے۔ ان کے کلام کی خصوصیات کے تعلق سے اقبال خسرو قادری ’’شناخت‘‘ میں یوں رقم طراز ہیں: ’’شاعری کا جہاں تک تعلق ہے انھوں نے عصری تقاضوں کو پوری طرح سمجھا اور انھیں نفیس پیرائے میں بیان کیا ہے اپنے احساسات کی تمام تر شدتوں کو اپنی تخلیقات میں منتقل کر دینا یوسف صفی کو مرغوب ہے۔‘‘[2]

شاعری کی اہم خصوصیات

ترمیم

موصوف نے اپنے کلام کو جدید رجحانات سے آراستہ کیا ہے۔ جدید علامت نگاری ان کے کلام کی اہم خصوصیت ہے:

ہمراہ اپنے چھاوں گھنی لائیے صفیؔ

اک سوختہ درخت ہوں بے برگ و بار ہوں

سگ صفت کب سے کھڑی ہے راہ میں

خواہش دل بے حیا سی دیکھ لو

یہی نہیں یوسف صفی شاعری میں انقلاب برپا کرنا پسند کرتے ہیں اور سرخ ذہنوں میں پھیل جانے کا دعویٰ بھی کرتے ہیں:

سرخ ذہنوں میں پھیل جاوں گا

لائیے انقلاب کاغذ پر

جناب یوسف صفی نے آزاد نظم نگاری میں بھی کمال حاصل کیاہے۔ ان کی ایک نظم مشہور ہے جو یوں ہے قاری میرا نابینا ہے سامع میرا بہرا ہے نظم کہوں میں کس کی خاطر

حوالہ جات

ترمیم
  1. امام قاسم ساقی کا مقالہ “ شعرائے کڈپہ کی غزلوں میں جدید رجحانات“ صفحہ 67 تا 68
  2. شناخت از اقبال خسرو قادری، ص: 66