2024 کولکتہ عصمت دری اور قتل کا واقعہ
9 اگست 2024ء کو، کولکتہ، مغربی بنگال، بھارت میں آر جی کر میڈیکل کالج میں ایک بہت ہی زیادہ افسوسناک واقعہ پیش آیا، جس میں ایک ٹرینی ڈاکٹر کو زیادتی کے بعد قتل کر دیا گیا۔ ان کی لاش کیمپس کے سیمینار ہال میں ملی، جہاں وہ نہایت مصروف ڈیوٹی کے بعد تھوڑی سی دیر کے لیے آرام کرنے گئی تھیں۔ اس واقعے نے بھارت میں خواتین اور ڈاکٹروں کے تحفظ کے بارے میں بحث کو اجاگر کر دیا، اور اس نے اہم غم و غصہ، ملک گیر احتجاج، اور مکمل تحقیقات کے مطالبات کو جنم دیا ہے۔[1][2][3] اس واقعے کی بین الاقوامی توجہ بھی مبذول ہوئی، جس کے نتیجے میں آسٹریلیا، بنگلہ دیش، پاکستان، کینیڈا، جرمنی، برطانیہ اور امریکہ میں مظاہرے ہوئے۔
تفتیش
ترمیمپوسٹ مارٹم رپورٹ
ترمیمپوسٹ مارٹم سے یہ بات سامنے آئی کہ ٹرینی ڈاکٹر کو گلا دبا کر قتل کرنے سے پہلے ان کے ساتھ نہایت حیوانیه طریقے سے جنسی زیادتی کی گئی۔ چار صفحات پر محیط اس رپورٹ میں ان کی شرم گاہ، ہونٹوں، بائیں ٹانگ، دائیں ہاتھ، انگوٹھی کی انگلی، گردن اور چہرے پر گہرے زخم نوٹ کیے گئے۔ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ خاتون کے چہرے پر چوٹ کے نشانات ممکنہ طور پر ملزم کے ناخنوں کی وجہ سے تھے۔ رپورٹ کے مطابق ان کے منہ اور گلے پر دباؤ ڈالا گیا اور ان کا گلا بیدردی سے گھونٹ دیا گیا جس کے نتیجے میں تھائرائیڈ کارٹلیج (گلے کی کرکری ہڈی) فریکچر ہو گیا۔ رپورٹ میں ان کی آنکھوں، منہ اور پرائیویٹ حصوں سے خون بہنے کا بھی ذکر کیا گیا۔ ان کی آنکھوں پر لگنے والی چوٹوں کی صحیح وجہ کا تعین نہیں ہو سکا ہے۔[4][5]
پوسٹ مارٹم رپورٹ میں یہ بھی انکشاف ہوا ہے کہ ان خاتون کے جسم میں تقریباً 150 ملی گرام منی پائی گئی تھی۔[6] اس بات سے اور درج زیل بھیانک زخموں سے پوسٹ مارٹم کرنے والے ڈاکٹروں کو اور ان مظلوم خاتون کے والدین کے سامنے یہ بات آئی کہ انہیں اجتماعی عصمت دری کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ تاہم، کولکتہ پولیس نے ان دعوؤں کو افواہیں کہہ کر مسترد کر دیا، یہ کہتے ہوئے کہ پوسٹ مارٹم کے دوران ننگی آنکھوں سے متعدد افراد سے منی میں فرق کرنا ناممکن ہے۔ تاہم، یہ لوگ اور اسپتال کی انتظامیہ اس جرم میں مشقوق نظر آتے ہیں۔[5][6][7]
گرفتاری
ترمیمتحقیقات کے بعد، پولیس نے کولکتہ پولیس ڈیزاسٹر مینجمنٹ فورس کے ساتھ ایک شہری رضاکار کو گرفتار کیا جو میڈیکل کالج کے قریب پولیس چوکی پر تعینات تھا۔ اسے عورت ساز اور گھریلو زیادتی کرنے والا قرار دیا گیا ہے۔ کولکتہ پولیس کے مطابق اس نے جرم کا اعتراف کر لیا ہے۔ مگر کسی خاتون کی ایسی حالت سے اور اس کے جسم سے 150 ملی گرام منی کا ملنا یہ بات صاف صاف ظاہر کرتا ہے کہ یہ کام صرف کسی ایک شخص کا نہیں ہے، اور یہ کہ سنجوے رائے نامی اس شخص کو قربانی کا بکرا بنایا جا رہا ہے، تاکہ بڑے لوگ سزا سے بچ جائیں۔[8] لہٰذا، صرف یہ شخص اس معاملے میں ملوث نہیں ہے۔
کیس کا سی بی آئی کو منتقل ہونا
ترمیم13 اگست 2024ء کو، کلکتہ ہائی کورٹ نے، پولیس کی تحقیقات سے نمٹنے سے غیر مطمئن، کیس کو سنٹرل بیورو آف انویسٹی گیشن (سی بی آئی) کو سونپ دیا۔ ڈاکٹر رکشیتا سنگھ جو ان مظلوم خاتون کے لیے پہلے دن سے آواز بلند کر رہی ہیں، نے اس بات پر اطمینان کا اظہار کیا۔
اس معاملے میں کچھ لوگوں کا مشکوک پن
ترمیممقتول ڈاکٹر کے والدین کو سب سے پہلے فون کر کے یہ کہا گیا کہ ان کی بیٹی سخت بیمار ہے، اور انھیں فوراً ہسپتال آنا ہے، جب اس کے بعد وہ لگاتار ہوسپتال والوں سے رابطہ کرنے کی کوشش کرتے رہے تو پہلے پہل کسی نے دوبارہ فون نہیں اٹھایا۔ آخر کار، جب ان کا فون اٹھایا گیا تو انھیں اچانک سے یہ کہا گیا کہ ان کی بیٹی نے خود کشی کرلی ہے۔ جس پر وہ شدید حیرانی اور غم میں، اپنے قریبی لوگوں کے ساتھ ہسپتال پہنچے تو ان کے وہاں پہنچنے پر سب کا یک زبان ہو کر یہ ہی کہنا تھا کہ ان کی بیٹی نے خود کشی کی ہے۔ اور ڈاکٹر کے والدین کو ہاتھ جوڑ کر منتیں کرنے کے باوجود اگلے تین گھنٹے تک ان کی بیٹی کو نہیں دیکھنے دیا گیا۔ آخر کار جب ان کے والد کو انھیں دیکھنے کی اجازت ملی تو انہوں نے اپنی بیٹی کو اس حالت میں دیکھا جس حالت میں کوئی والد اپنی اولاد کو نہیں دیکھ سکتا۔ ڈاکٹر نیم برہنہ حالت میں تھیں، ان کی ٹانگیں 90 ڈگری ایک دوسرے سے دور تھیں، ان کے پاؤں رائٹ اینگل میں تھے، ان کے ہونٹوں اور جسم پر بھیانک چوٹوں کے نشانات تھے۔ انھیں اپنی بیٹی کی صرف ایک تصویر لینے کی اجازت دی گئی۔ اور اس واقعے نے ان کے والدین کو شدید غم میں مبتلا کردیا۔
ہسپتال کے پرنسپل (سندیپ گھوش) نے اس واقعے کے بعد ہسپتال سے استعفیٰ دے دیا، مگر محض ٩ گھنٹوں میں انھیں دوسرے ہسپتال میں دوبارہ پرنسپل بنادیا گیا۔ یہ بات بہت مشکوک نظر آتی ہے۔ مسٹر اختر علی جو کہ آر جی کار میں ڈپٹی میڈیکل سپرنٹنڈنٹ تھے اور اب مرشد آباد میڈیکل کالج میں اسی عہدے پر فائز ہیں، نے ڈاکٹر سندیپ گھوش پر کچھ الزامات لگائے ہیں، اور انہوں نے یہ بھی دعویٰ کیا ہے کہ انہوں نے گھوش کو رائے کے ساتھ دیکھا ہے، علی نے یہ بھی کہا کہ شہری رضاکار، سنجوئے رائے سابق پرنسپل کی سیکورٹی کا حصہ بھی تھا۔[9][10]
14 اگست کی رات کو جب سٹوڈنٹ ڈاکٹرز پر امن طریقے سے احتجاج کر رہے تھے، تو اچانک کچھ غنڈوں نے ہسپتال پر حملہ کردیا۔ یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ بنگال کی وزیر اعلی ممتا بنرجی اس واقعے میں ملوث ہیں۔ ساتھ ساتھ، ہسپتال میں اس واقعے کے بعد اچانک سے تعمیراتی کام بھی شروع ہو گیا۔ جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ سب ثبوتوں کو مٹانے کے لیے کیا جا رہا ہے۔ اور پولیس بھی اس سب میں مشقوق نظر آ رہی ہے۔
یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ، ان مقتول ڈاکٹر کو آر جی کر میڈیکل کالج کے بارے میں کچھ ایسی باتیں معلوم ہو گئیں تھیں جو انہیں معلوم نہیں ہونی چاہئیں تھیں۔ اور شاید اس ہی وجہ سے اس کیس کو جلد از جلد بند کرنے کی کوششیں کی جا رہی تھیں۔
مزید دیکھیں
ترمیمحوالہ جات
ترمیم- ↑ Suryagni Roy; Anirban Sinha Roy (9 اگست 2024). "Woman trainee doctor found dead in seminar hall of Kolkata hospital". India Today (انگریزی میں). Archived from the original on 2024-08-14. Retrieved 2024-08-14.
- ↑ "Kolkata doctor rape-murder case: All you need to know". Deccan Herald (انگریزی میں). 16 اگست 2024. Archived from the original on 2024-08-13. Retrieved 2024-08-15.
- ↑ "No country for women". The Business Standard (انگریزی میں). 15 اگست 2024. Archived from the original on 2024-08-15. Retrieved 2024-08-17.
- ↑ Rajesh Saha; Suryagni Roy (13 اگست 2024). "Kolkata doctor's autopsy reveals she was throttled to death, genital torture". India Today (انگریزی میں). Archived from the original on 2024-08-14. Retrieved 2024-08-14.
- ^ ا ب "Kolkata rape and murder: Parents suspect gang rape, claim 150 mg of semen found in victim's body"۔ Livemint۔ 14 اگست 2024۔ 2024-08-15 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2024-08-15
- ^ ا ب "Kolkata rape-murder case: 150 mg of semen found in doctor's body, doctors say it could be gang rape". Business Today (انگریزی میں). 14 اگست 2024. Archived from the original on 2024-08-15. Retrieved 2024-08-15.
- ↑ "Kolkata doctor rape-murder: Post-mortem report highlights brutal assault, confirms multiple injuries, signs of struggle"۔ The Times of India۔ 15 اگست 2024۔ 2024-08-15 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2024-08-15۔
a police officer said, "It is impossible to distinguish semen from three individuals with the naked eye during an autopsy."
- ↑ "Kolkata doctor rape-murder: Post-mortem report highlights brutal assault, confirms multiple injuries, sig"۔ THE TIMES OF INDIA
- ↑ ""Selling Of Bodies...": Big Claim Against Ex-RG Kar Hospital Head Sandip Ghosh"۔ ndtv
- ↑ "Kolkata Doctor Rape and Murder Case Live: Bengal govt new principal of RG Kar college sacked"۔ THE TIMES OF INDIA