9 کے 115-2 میتیس-ایم
9 کے 115-2 میتیس-ایم (9K115-2 Metis-M)، جسے نیٹو کی درجہ بندی میں AT-13 Saxhorn-2 بھی کہا جاتا ہے، ایک روسی اینٹی ٹینک گائیڈڈ میزائل سسٹم ہے جو 1992 میں متعارف کرایا گیا۔ یہ میزائل مختلف ممالک میں استعمال ہوتا ہے اور مختلف زمینی اہداف کو نشانہ بنانے کے لیے کارآمد ہے۔[1]
9 کے 115-2 میتیس-ایم | |
---|---|
فائل:Metis-M1.jpg 9 کے 115-2 میتیس-ایم (Metis-M) میزائل سسٹم | |
قسم | اینٹی ٹینک گائیڈڈ میزائل |
مقام آغاز | روس |
تاریخ ا استعمال | |
استعمال میں | 1992–موجودہ |
استعمال از | روس, سوریہ, ایران, شمالی کوریا, مصر |
تاریخ صنعت | |
ڈیزائنر | KBP Instrument Design Bureau |
ڈیزائن | 1980s |
تیار | 1992–موجودہ |
ساختہ تعداد | 10,000+ |
تفصیلات | |
وزن | 13.8 kg (لانچر سمیت) |
لمبائی | 980 mm |
قطر | 130 mm |
Speed | 200 m/s |
Guidance system | سیمی-آٹومیٹک کمانڈ ٹو لائن آف سائٹ (SACLOS) |
Launch platform | زمین |
ترقی و ارتقاء
ترمیم9 کے 115-2 میتیس-ایم کی ترقی 1980 کی دہائی کے آخر میں شروع ہوئی، اور یہ 1992 میں روسی فوج میں شامل ہوا۔ اس کا مقصد ایک مؤثر اینٹی ٹینک میزائل سسٹم فراہم کرنا تھا جو دشمن کے ٹینکوں اور بکتر بند گاڑیوں کو تباہ کر سکے۔[2]
خصوصیات
ترمیم9 کے 115-2 میتیس-ایم ایک اینٹی ٹینک گائیڈڈ میزائل سسٹم ہے جو تقریباً 80 سے 2000 میٹر کی رینج فراہم کرتا ہے اور 200 میٹر فی سیکنڈ کی رفتار سے پرواز کر سکتا ہے۔ اس کی راہنمائی کے لیے سیمی-آٹومیٹک کمانڈ ٹو لائن آف سائٹ (SACLOS) سسٹم استعمال ہوتا ہے، جو اسے ہدف کو درست طریقے سے نشانہ بنانے میں مدد دیتا ہے۔[3]
ورژنز
ترمیم9 کے 115-2 میتیس-ایم کے مختلف ورژنز کی منصوبہ بندی کی گئی ہے، جن میں شامل ہیں:
- میتی-ایم1: جدید خصوصیات اور بہتر رینج کے ساتھ ورژن۔
استعمال کنندگان
ترمیم9 کے 115-2 میتیس-ایم مختلف ممالک کے زیر استعمال ہے، جیسے:
جنگی استعمال
ترمیمتجربات
ترمیم9 کے 115-2 میتیس-ایم کے مختلف کامیاب تجربات کیے گئے ہیں، جن میں اس نے اپنی رینج اور درستگی کے ساتھ مؤثر کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ یہ میزائل سسٹم مختلف بین الاقوامی تنازعات میں استعمال ہوا ہے اور اس کی کارکردگی پر مثبت رائے دی گئی ہے۔[4]
حالیہ تنازعات
ترمیم9 کے 115-2 میتیس-ایم کی ترقی اور استعمال نے اسے عالمی سطح پر ایک اہم فوجی اثاثہ بنا دیا ہے۔ اس کی جدید گائیڈنس سسٹمز اور مؤثر رینج کی وجہ سے یہ دنیا کے کئی ممالک کی دفاعی حکمت عملی کا حصہ ہے۔