ڈاڈا یاڈاڈا ازمایک فکری اور فنکارانہ رجحان پر مبنی ایک باغیانہ تحریک، جس نے 1920 کی دہائی میں یورپ کے ادب اور تھیٹر پر گہرے اثرات ثبت کیے۔ ڈاڈا کا سارا فکری ڈھانچہ نفی دانش پر محیط ہے۔ جو اس تحریک کو ‘تحریک‘ تسلیم نہیں کرتا۔ اور نہ فنکار اور فن کا بھی انکاری ہے۔ یہ ڈاڈا ازم کی کہانی کی مختصر سی وضاحت ہے۔ جس نے یورپی ثقافت پر بھی گہرے اثرات ڈالا۔ ڈاڈا تحریک پہلی عالمی بڑی لڑائی کے دوران ھونے والی تباہ کاریوں کا شدید رد عمل تھا۔ جس نے یورپ کا فرد دہشت زدہ اور پریشان کر دیا تھا کیوں کہ یورپ خانہ جنگی اور بربریت کا بھی شکار ھوچکا تھا اوریورپ کے ادبا، شعرا اور فنکار اس صورت حال کو بھاپ چکا تھا۔ بھر خاص کر جرمن اور فرانسیسی ادیبوں اور دانشوروں نے 1916 میں زیورج، سویئزر لینڈ میں اس تحریک کی بنیاد رکھی۔ ڈرامے کو اس نے بھی اپنے اظہار میں شامل کر لیا۔ اس تحریک کے بنیاد گزار "آندرے بریتوں"ہیں۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد یہ تحریک پیرس منتقل ھو گئی اور سریلرازم میں ضم ھو کر بعد میں اس تحریک سے وابستہ جرمن ادیبوں اور فنکاروں نے تھیٹر کی اظہاریت کی تحریک میں شامل ھو گئے اور 1917 نے انھوں نے پہلا ڈراما پیش کیا۔ جس کا نام " اسپین۔ ایکس اند اسٹرومیں" تھا۔ ان ڈراموں میں ناظریں کے جذبات اور لاشعور سے کھیلا جاتا تھا۔ ان ڈراموں میں اظہاریت اور تجریدیت بھری ھوتی تھی۔ یہ ادب اور فنکاروں کا جدید یورپی معاشرے کے خلاف احتجاج تھا۔ جو اصل میں پہلی جنگ عظیم سے ناراضی کا اظہار تھا۔ یہ لوگ "جنگ" کو حماقت تصور کرتے تھے کیونکہ اس سبب قوم پرستی عقلیت اور مادیت پارہ پارہ ھوکر رہ گئی تھی ۔

ان رویوں نے معاشرے پر گہرا اثر ڈالا۔ ڈاڈا کے کے متعلق کہا جاتا ہے کہ اس کی ہیت " صدمہ" پہنچاتی ہے۔ جس میں فحاشی، لچر مزاح،برہنہ ایہام گوئی، کراہیت اور فرد کا مسخ شدہ چہرہ نظر آتا ہے۔ یہ تحریک سریلرازم سے ملتی جلتی ہے۔ اور کئی چیزیں اس میں مشترک پائی جاتی ہیں۔ مثلا نفرت کا اندزہ، ظلم، تقابل اور حقیقت کا انپے اندز میں پیش کرنے کا جدت پسندانہ اسلوب چھپا ہوا تھا۔ ڈاڈا ازم پہلی جنگ عظیم کے دوران جتنی منفی تھی مگر دوسری جنگ عظیم کے بعد اس نے کسی حد تک مثبت روش اختیار کرلی تھی۔ 2002 مین گلبرٹ والٹیر نے "نیو ڈاڈآ" ازم کی بنیاد رکھی۔ اور ایک عجائب خانہ بھی بنایا۔ "ڈاڈا ازم" نے تجریدی شاعری پر گہرا اثر ڈالا۔ یہ مابعد جدیدیت اور ‘ پاپ آرٹ‘ پر اثر انداز ھوئی اور " اس کی "فن شکنی" اس کی سرشت میں شامل ہے۔ (تحریر: احمد سہیل) :::

بیرونی روابط

ترمیم
Manifestos