وزیر آباد گجرانوالہ (پاکستان) کے رہائشی سید سبط الحسن شاہ کو ڈبل شاہ کہا جاتا ہے۔ اس نے پونزی اسکیم سے رقم دوگنی کرنے کا جھانسہ دے کر محض 18 مہینوں میں 7 ارب روپے کمائے۔ شروع میں وہ صرف 15 دنوں میں رقم دوگنی کر کے واپس کر دیا کرتا تھا۔ بعد میں یہ مدت بڑھتے بڑھتے 70 دنوں تک جا پہنچی۔ [2]

ڈبل شاہ
معلومات شخصیت
تاریخ پیدائش 3 مارچ 1964ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تاریخ وفات 30 اکتوبر 2015ء (51 سال)[1]  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت پاکستان [1]  ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ فریبی [1]  ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

حالات زندگی

ترمیم

سید سبط الحسن شاہ 3 مارچ 1964 کو سیالکوٹ میں پیدا ہوا۔ اس کا تعلق نچلے درمیانے طبقے سے تھا۔ B.Sc اور B.Ed کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد وہ 2005 تک گورنمنٹ ہائی اسکول نظام آباد میں سائنس کا معلم رہا۔ پھر وہ چھٹی لے کر دبئی گیا اور 6 ماہ بعد واپس آ کر اس نے نوکری چھوڑ کر پیسے ڈبل کرنے کا کام شروع کیا۔
6 اپریل 2007 کو، جب اس کا پیسے ڈبل کرنے کا کاروبار عروج پر تھا، لاہور کے ایک اخبار دا نیشن کے عثمان غازی صاحب نے صفحہ اول پر اس کا بھانڈا پھوڑ دیا۔ 13 اپریل 2007 کو پولس نے اسے گرفتار کر لیا۔

7 جنوری 2012 کو احتساب عدالت نے سید سبط الحسن شاہ عرف ڈبل شاہ کو اقبال جرم کے بعد 14 سال قید بامشقت کی سزا سنائی ہے اور 3 ارب روپیہ جرمانہ عائد کیا۔ اس کی تمام جائداد بھی ضبط کرنے کا حکم ہے۔[3]

وزیر آباد کے قریب نظام آباد کے گورنمنٹ ہائیاسکول میں سائنس کا استاد بھرتی ہو گیا۔غربت زیادہ تھی اور خواب اونچے، وہ جلد ہی نوکری سے اُکتا گیا۔اس نے چھٹی لی اور 2004ء میں دوبئی چلا گیا۔

چھ ماہ تک دوبئی رہا۔چھ ماہ بعد وزیر آباد واپس آگیا۔ یہاں اس نے ایک عجیب کام شروع کِیا۔اس نے ہمسایوں سے رقم مانگی۔اور یہ رقم پندرہ دن میں دوگنی کر کے واپس کردی۔ایک ہمسایہ اس کا پہلا گاہک بنا یہ ہمسایہ جاوید ماربل کے نام سے ماربل کا کاروبار کرتا تھا۔ہمسائے نے رقم دی اور ٹھیک پندرہ دن بعد دوگنی رقم واپس لے لی۔محلے کے دو لوگ اگلے گاہک بنے، یہ بھی پندرہ دنوں میں دوگنی رقم کے مالک ہو گئے۔یہ دو گاہک اس کے پاس پندرہ گاہک لے آئے اور پھر یہ پندرہ گاہک مہینے میں ڈیڑھ سو گاہک ہو گئے۔یوں دیکھتے ہی دیکھتے لوگوں کی لائن لگ گئی۔

لوگ زیورات بیچتے، گاڑی، دکان، مکان اور زمین فروخت کرتے اور رقم اس کے حوالے کر دیتے یہ رقم دوگنی کر کے واپس کر دیتا۔یہ کاروبار شروع میں صرف نظام آباد تک محدود تھا لیکن پھر یہ وزیر آباد سیالکوٹ اور گوجرانوالہ تک پھیل گیا اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ معمولیاسکول ماسٹر ارب پتی ہو گیا۔یہ کاروبار قریباً 18 ماہ جاری رہا۔اس شخص نے ان 18 مہینوں میں 43 ہزار لوگوں سے سات ارب روپے جمع کر لیے۔جب کاروبار بہت پھیل گیا تو اس نے اپنے رشتے داروں کو بھی شامل کر لیا۔یہ رشتے دار سمبڑیال، سیالکوٹ، گجرات اور گوجرانوالہ سے رقم جمع کرتے 5 فیصد اپنے پاس رکھتے اور باقی رقم اسے دے دیتے۔

وہ شروع میں پندرہ دنوں میں رقم ڈبل کرتا تھا۔یہ مدت بعد ازاں ایک مہینہ ہوئی۔پھر دو مہینے اور آخر میں 70 دن ہو گئی۔یہ سلسلہ چلتا رہا لیکن پھر اس کے برے دن شروع ہو گئے۔وہ خفیہ اداروں کی نظر میں آ گیا۔تحقیقات شروع ہوئیں تو پتہ چلا وہ شخص "پونزی سکیم" چلا رہا ہے۔پونزی مالیاتی فراڈ کی ایک قسم ہوتی ہے جس میں رقم دینے والا گاہکوں کو ان کی اصل رقم سے منافع لوٹاتا رہتا ہے۔شروع کے گاہکوں کو دوگنی رقم مل جاتی ہے۔لیکن آخری گاہک سارے سرمائے سے محروم ہو جاتے ہیں۔

انجام اور اختتام

ترمیم

اس دوران میں اخبار ”ڈیلی نیشن“ میں اس کے خلاف خبر شائع ہو گئی۔گوجرانوالہ ڈویژن میں کہرام برپا ہوا اور یہ شخص اپریل 2007ء میں گرفتار ہو گیا۔

یہ 2007ء میں نیب کے شکنجے میں آیا۔نیب نے اس کی جائداد، زمینیں، اکاﺅنٹس اور سیف پکڑ لیے یہ رقم تین ارب روپے بنی اور اس نے یہ تین ارب روپے چپ چاپ اور بخوشی نیب کے حوالے کر دیے۔

ڈبل شاہ کا کیس چلا۔اسے یکم جولائی 2012ء کو 14 سال قید کی سزا ہوئی جیل کا دن 12 گھنٹے کا ہوتا ہے چنانچہ ڈبل شاہ کے 14 سال عملاً سات سال تھے۔عدالت پولیس حراست، حوالات اور مقدمے کے دوران میں گرفتاری کو بھی سزا سمجھتی ہے۔ ڈبل شاہ 13 اپریل 2007ء کو گرفتار ہوا تھا وہ عدالت کے فیصلے تک پانچ سال قید کاٹ چکا تھا لہذا یہ پانچ سال بھی اس کی مجموعی سزا سے نفی ہو گئے۔پیچھے رہ گئے دو سال، ڈبل شاہ نے محسوس کِیا چار ارب روپے کے عوض دو سال قید مہنگا سودا نہیں چنانچہ اس نے پلی بارگین کی بجائے سزا قبول کر لی۔

جیل میں اچھے چال چلن، عید، شب برات اور خون دینے کی وجہ سے بھی قیدیوں کو سزا میں چھوٹ مل جاتی ہے۔ ڈبل شاہ کو یہ چھوٹ بھی مل گئی۔وہ عدالتی فیصلے کے محض 23 ماہ بعد جیل سے رہا ہو گیا۔ ڈبل شاہ 15 مئی 2014ء کو کوٹ لکھپت جیل سے رہا ہوا تو ساتھیوں نے گیٹ پر اس کا استقبال کِیا۔یہ لوگ اسے جلوس کی شکل میں وزیر آباد لے آئے۔وزیر آباد میں ڈبل شاہ کی آمد پر آتش بازی کا مظاہرہ ہوا۔پاکستانی تاریخ کے سب سے بڑے فراڈیئے کو ہار پہنائے گئے۔ اس پر پھولوں کی منوں پتیاں برسائی گئیں اور اسے مسجدوں کے لاﺅڈ سپیکرز کے ذریعے مبارک باد پیش کی گئی۔وہ ہر لحاظ سے کامیاب ثابت ہوا۔

وہاسکول ٹیچر تھا اور معاشرے کا تیسرے درجے کا شہری تھا۔اس نے فراڈ شروع کِیا 18 ماہ میں 7 ارب روپے کا مالک بن گیا۔نیب نے اسے گرفتار کر لیا، وہ گرفتار ہو گیا۔ نیب ایڑی چوٹی کا زور لگانے کے باوجود اس سے چار ارب روپے نہیں نکلوا سکا۔سزا ہوئی اور وہ بڑے آرام سے سزا بھگت کر باہر آ گیا۔ اس نے قید کے دن بھی جیل کے ہسپتال اور سیکنڈ کلاس میں گزارے اسے جیل میں تمام سہولتیں حاصل تھیں۔چنانچہ وہ جب رہا ہوا تو مکمل طور پر کلیئر تھا۔اس نے اب کسی کو کچھ ادا کرنا تھا اور نہ ہی پولیس اور نیب اسے تنگ کر سکتی تھی۔یہ چار ارب روپے اب اس کے تھے۔یہ اس رقم کا بلا شرکت غیر ے مالک تھا۔

وہ وزیرآباد سے لاہور شفٹ ہوا اور دنیا بھر کی سہولیات کے ساتھ شاندار زندگی گزارنے لگا،

آخری ایام

ترمیم

سیّد سبط الحسن عرف ڈبل شاہ کو رہائی کے 16 ماہ بعد اکتوبر 2015ء کو لاہور میں ہارٹ اٹیک ہوا۔اسے ”پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی“ لے جایا گیا۔اس کی طبیعت تھوڑی بحال ہوئی، یہ گھر آیا لیکن پھر یہ شخص 30 اکتوبر 2015ء کو انتقال کر گیا،

مزید پڑھیے

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم
  1. ^ ا ب پ https://www.pakistantoday.com.pk/2015/10/30/double-shah-dead/
  2. ڈبل شاہ کی کہانی[مردہ ربط]
  3. "دا نیشن"۔ 20 جولا‎ئی 2012 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 01 نومبر 2012