آئین پاکستان میں تیرہویں ترمیم
آئین پاکستان میں تیرہویں ترمیم جو آئین (تیرہویں ترمیم) ایکٹ 1997ء کے نام سے جانی جاتی ہے اور یہ 1997ء میں اس وقت کے وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کی حکومت نے منظور کی۔ اس ترمیم کی رو سے صدر پاکستان کے اختیارات برائے تحلیل قومی اسمبلی ختم کر دیے گئے اور وزیر اعظم کو معطل کرنے اور نئے انتخابات کے انعقاد بارے صدر پاکستان کے اختیارات کا بھی خاتمہ ہو گیا۔ اس ترمیم کو حکومت اور حزب اختلاف کی حمایت حاصل تھی۔
اس ترمیم کے بعد آئین پاکستان سے آرٹیکل اٹھاون 2 ب میں ترمیم ہوئی جس کی رو سے صدر پاکستان کو قومی اسمبلی تحلیل کرنے کی اجازت تھی اگر وہ اپنی رائے میں یہ سمجھتے ہوں کہ ملک یا ریاست میں ایسی صورت حال جنم لے کہ جب حکومت یا ریاست کا انتظام چلانا آئین پاکستان کی رو سے ممکن نہ رہے اور اس ضمن میں نئے انتخابات کا انعقاد ناگزیر ہو جائے۔
پاکستان میں قانون ساز قومی اسمبلی کے اراکین ایک بار منتخب ہو جائیں تو عوام کے پاس ایسا کوئی اختیار نہیں رہتا کہ وہ قومی اسمبلی کی آئینی مدت یعنی پانچ سال کے دوران کسی بھی قسم کے احتسابی یا انتخابی عمل کے ذریعے حکومت وقت کی کارکردگی کی جانچ کر سکیں۔ ماضی میں یہی آئینی خدوخال حکومتی اراکین کے لیے ایک طرح سے محفوظ رہنے کا حربہ سمجھا جاتا رہا ہے اور کئی بار کرپشن کے الزامات یہیں سے جنم لیتے رہے ہیں جن میں سے اکثر سیاسی نوعیت کے شعبدہ بازی کہے جا سکتے ہیں۔ بہرحال اس صورت حال میں کچھ سچائی بھی ہوتی تھی جیسے کہ 1997ء میں پاکستان کو ٹرانپیرنسی انٹرنیشنل کی جانب سے کرپشن میں انتہائی بدترین قرار دیا گیا تھا۔ [1]آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ ww1.transparency.org (Error: unknown archive URL)
اس ترمیم کے چند ہی ماہ بعد آئین پاکستان میں چودہویں ترمیم منظور کی گئی، جس کی رو سے اراکین قومی اسمبلی کو سختی سے اس بات کا پابند بنا دیا گیا کہ وہ اپنی متعلقہ سیاسی جماعت کے کسی بھی فیصلے سے انکار نہیں کر سکتے اور اگر وہ ایسا کرتے پائے گئے تو انھیں تادیبی کارروائی جس میں رکنیت کی معطلی شامل تھی کا سامنا کرنا پڑ سکتا تھا۔ اس ترمیم کے بعد کسی بھی طرح سے منتخب وزیر اعظم کو معطل کیا جانا یا عوامی سطح پر اس کا احتساب ممکن نہ رہا، کیونکہ ایک بار منتخب ہونے کے بعد کوئی رکن قومی اسمبلی اپنی رائے جسے اس نے اعتماد کے ووٹ کے ذریعے ادا کیا تھا سے منحرف ہونا آئینی طور پر ممکن نہ رہا۔ اس ترمیم نے وزیر اعظم کے عہدے پر موجود تمام احتسابی نکاات کا خاتمہ کر دیا۔
نواز شریف کی حکومت چودہویں ترمیم کے بعد عوام میں انتہائی غیر مقبول ہونا شروع ہو گئی، حالانکہ ان کی جماعت پاکستان مسلم لیگ (نواز) نے دو تہائی اکثریت سے انتخابات جیتے تھے۔ ان ترامیم اور اس کے بعد کی صورت حال کا پاکستان کی عدالت عظمیٰ نے خاطر خواہ نوٹس لیا اور اسی وجہ سے چند ہی ماہ میں وزیر اعظم اور منصف اعظم کے مابین ادارہ جاتی کشمکش کا آغاز ہو گیا۔ اس معاملے کے بعد پاکستان کے منصف اعظم کو مجبوراً مستعفی ہونا پڑا اور رائے عامہ انتہائی ناہموار ہو گئی۔ یہ خیال کیا جانے لگا کہ ملک میں سول آمریت کا راج ہے۔
1999ء میں پاکستان فوج کے سربراہ جنرل پرویز مشرف نے بغیر خون بہائے فوجی کارروائی میں حکومت پر قبضہ کر لیا۔ اس غیر آئینی طرز عمل کی وجوہات بیان کرتے ہوئے انھوں نے کئی نکات پیش کیے، جن میں ایک یہ بھی شامل تھا کہ ملک میں حکومتی کارروائی جانچنے کا کوئی طریقہ کار موجود نہیں تھا اور سیاسی قیادت وسیع پیمانے پر کرپشن اور مالیاتی غبن میں ملوث ہو چکی تھی۔ فوج کی یہ کارروائی عوامی سطح پر انتہائی مقبول تصور کی گئی۔ حزب اختلاف میں محترمہ بے نظیر بھٹو نے بھی جنرل پرویز مشرف کا خیر مقدم کیا۔ بعد میں پاکستان کی عدالت عظمیٰ نے بھی فوج کی اس کارروائی کی توثیق کر دی، وجہ یہ بیان کی گئی کہ تیرہویں اور اس کے بعد چودہویں ترمیم کے نتیجے میں ریاست و حکومت کے انتظامات آئین پاکستان کی رو سے چلانا ممکن نہ رہا تھا۔
اکتوبر 2002 میں پاکستان میں عام انتخابات کا انعقاد کیا گیا اور دسمبر 2003ء میں قومی اسمبلی نے سترہویں ترمیم کی منظوری دی جس میں جزوی طور پر تیرہویں ترمیم میں صدر پاکستان کے معطل شدہ اختیارات کو بحال کر دیا۔ اس بار صدر پاکستان کے اختیارات برائے تحلیل اسمبلی کو پاکستان کی عدالت عظمیٰ کی جانب سے توثیق سے مشروط کر دیا گیا۔