آندھرا پردیش میں بچوں کا جنسی استحصال

بچوں کا جنسی استحصال

آندھرا پردیش جنوبی بھارت کی ریاستوں میں سے ایک ہے۔ یہ 2014ء تک ایک جامع ریاست تھی، جس میں تلنگانہ کی بھی شمولیت تھی۔ نو تشکیل شدہ ریاست اپنے تاج نما ورثے یعنی حیدرآباد سے محروم رہا اور امراوتی کی شکل میں نئے دار الحکومت سے نئی ترقیاتی منصوبہ بندیوں سے آگے بڑھ رہا تھا۔ جہاں ترقی کے پیمانوں میں یہ ملک کی دیگر ریاستوں کے مقابلے میں نئے سنگہائے میل عبور کرنے کے لیے کوشاں ہے، وہیں یہ جنسی جرائم کے معاملوں میں خصوصًا بچوں کے ساتھ جنسی استحصال کوئی خوش نما تصویر پیش کرنے سے قاصر رہی ہے۔ آندھرا پردیش میں بچوں کا جنسی استحصال یا دوسرے لفظوں میں عمومًا ان کم عمروں کی آبرو ریزی ماہرین عمرانیات، سماجی فعالیت پسندوں، ماہرین تعلیم، ماہرین قانون اور سیاست دانوں کے لیے ایک لمحہ فکر اور موضوع گفتگو بھی وقتًا فوقتًا بنتے آیا ہے۔

آندھرا پردیش سے تعلق رکھنے والی سیاست دان خاتون رینوکا چودھری 2007ء میں نئی دہلی، بھارت میں بچوں کے استحصال سے متعلق پہلے ملک گیر مطالعے کی رپورٹ جاری کرتی ہوئی دیکھی جا سکتی ہیں۔

سال در سال اندراج شدہ جرائم کے اعداد و شمار

ترمیم

2019ء کے ماہ جون تک 32 ایف آئی آر بچوں کے جنسی استحصال درج کیے گئے۔ یہ اعداد قریب قریب گذشتہ سال کی ہو بہ ہو عکاسی کرتے لگ رہے ہیں، جہاں 2018ء میں اس زمرے سے متعلق 65 ایف آئی آر درج کیے گئے۔ یہ دونوں سال 2017ء سے بد تر صورت حال پیش کرتے ہیں، جس میں کہ اس قسم کے شرم ناک 46 واقعات پر ایف آئی آر درج کیے گئے۔ 2016ء میں بچوں کے جنسی استحصال کے 44 واقعات پولیس ریکارڈ اور عدالتی کار روائی کا حصہ بنے۔ 2015ء میں ایف آئی آر کی تعداد 60 تھی۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ یہ تلنگانہ سے علحدگی کے بعد خالصتًا الگ آندھرا پردیش ریاست کی تشکیل بعد کا پہلا تھا، جس میں بچوں سے گھناؤنی حرکت کے ریکارڈ میں کافی اضافہ دیکھا گیا۔ 2014ء کے دستیاب اعداد و شمار میں، جس میں اغلب ہے کہ کچھ تلنگانہ کا ریکارڈ بھی شامل ہو، یہ تعداد 34 تھی۔ یاد رہنا چاہیے کہ تلنگانہ آندھرا پردیش سے 2 جون 2014ء کو الگ ہو گیا تھا۔ ان سب اعداد و شمار کے بر عکس 2013ء کے فراہم کردہ اعداد و شمار سے ریکارڈ شدہ جرم کے واقعات کی تعداد صرف 17 بتائی گئی ہے۔[1]

یہاں یہ بھی غور طلب ہے کہ ماہرین نفسیات اور قانونی ماہرین کا دعوٰی ہے کہ بد نامی اور سماجی داغ داری سے بچنے کے لیے اکثر جنسی جرائم مخفی ہی رہا کرتے ہیں، یعنی جان بوجھ کر متاثرہ شخص پولیس اور عدالت سے بچنے کی کوشش کرتی ہے۔ اندراج شدہ معاملات میں بھی کئی بار وہی خاطی قصور وار ثابت ہوتا ہے جس کا کوئی سیاسی اثر و رسوخ نہ ہو۔

بچوں کے ساتھ جنسی استحصال کے معاملوں میں 90 فیصد معاملوں میں خاطی یا تو پڑوسی یا کوئی قریبی رشتے دار ہوتا ہے۔[1]

انسدادی تدابیر

ترمیم

بچوں کا جنسی استحصال روکنے کے لیے 545 دیہی سطح کی، 11 منڈل سطح کی، 25 شہری سطح کی اور 25 وارڈ سطح کی کمیٹیاں قائم کی جا چکی ہیں تاکہ بچوں کو تحفظ فراہم کیا جا سکے۔ [1]

مزید دیکھیے

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم