ابرار کرتپوری
ابرارؔ کرتپوری (1939ء - 2022ء) موجودہ عہد کے ممتاز اور استاد شاعر تھے۔ انھوں نے مختلف اصناف سخن میں طبع آزمائی کی، لیکن پاکیزہ اصناف سخن کی طرف خصوصی توجہ کرنے کی وجہ سے حمدیہ و نعتیہ شاعری ہی ان کی شناخت کا حوالہ بن گئی۔
ابرار کرتپوری | |
---|---|
پیدائش | 1939ء کرت پور، ضلع بجنور، برطانوی ہند |
وفات | 18 جون 2022 | (عمر 82–83 سال)
آخری آرام گاہ | بٹلہ ہاؤس، نئی دہلی |
ولادت اور تعلیم و تربیت
ترمیمابرار کرت پوری 14 جنوری 1939ء میں قصبہ کرتپور، ضلع بجنور میں پیدا ہوئے تھے۔ وہ ایک معزز گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کے اجداد عہد وسطیٰ میں قضا کے منصب پر فائز رہے تھے، اس لیے یہ خاندان آج بھی قاضی کا لاحقہ استعمال کرتا ہے۔ ابرار کرتپوری اپنے بھائی بہنوں میں سب سے بڑے تھے اور گھر کے معاشی حالات اچھے نہیں تھے، اس لیے وہ انٹر تک تعلیم مکمل کرنے کے بعد نوجوانی میں ہی کسب معاش کے لیے دہلی پہنچ گئے۔ دہلی میں اپنے عظیم چچا مولانا قاضی سجاد حسین کی سرپرستی میں ایم اے تک تعلیم حاصل کی اور ساتھ ہی عملی زندگی میں اتر گئے۔[حوالہ درکار]
شاعری
ترمیمابرار کرتپوری کو شاعری کا ذوق فطری طور پر ملا تھا۔ شاعری میں انھوں نے دبستان داغ کے استاد شاعر علامہ شاہد نوحی سے اصلاح لی۔ آگے چل کر وہ نعت کے منفرد شاعر مظفر وارثی سے بے حد متاثر ہوئے اور حمد و نعت کی طرف خصوصی توجہ کی۔ پھر یہی ان کی شناخت بن گئی۔ انھوں نے حمد و نعت کے میدان میں مختلف اور متنوع تجربے کیے۔ غالب کے 92 مصرعوں پر نعتیں کہیں اور ان نعتوں پر مشتمل مجموعہ مدحت شائع کیا۔ اسی طرح پیغمبر اسلام کے غزوات کی تاریخ کو مثنوی کے فارم میں نظم کیا اور غزوات کے نام سے ایک مجموعہ دنیائے سخن کی نذر کیا۔ ان دونوں مجموعوں کو بہت پزیرائی حاصل ہوئی۔ اس کے بعد ابرار کرتپوری ایک کے بعد ایک مجموعے پیش کرتے چلے گئے۔ ان کی شاعری کو نثار احمد فاروقی، عنوان چشتی، تنویر احمد علوی، ابوالفیض سحر اور تابش مہدی جیسے ممتاز ناقدین نے اپنی گفتگو کا موضوع بنایا۔ حمدیہ شاعری پر ابرار کرتپوری سب سے زیادہ مجموعے تخلیق کرنے والے شاعر کہے جاتے ہیں۔ انھوں نے غزل، نظم، آزاد نظم، رباعی، مثنوی اور دوہا جیسی اصناف سخن میں بھی خاصی مقدار میں شاعری کی۔ ہندستان میں ان کے تلامذہ بڑی تعداد میں پائے جاتے ہیں۔ ان میں مولا بخش اسیر، حفیظ محمود بلند شہری، شعیب مرزا خصوصیت کے ساتھ قابل ذکر ہیں۔[حوالہ درکار]
حمد و نعت اکیڈمی
ترمیمابرار کرتپوری نے صرف شاعری کے ذریعہ ہی حمد و نعت کے فروغ کی کوشش نہیں کی بلکہ انھوں نے اس کے لیے عملی جدو جہد بھی کی۔ نوے کی دہائی میں انھوں نے دہلی میں ایک قومی سطح کی اکیڈمی قائم کی اور اس کا نام حمد و نعت اکیڈمی رکھا۔ اس اکیڈمی کے تحت انھوں سرکردہ شخصیات سے ملاقاتیں کیں اور خطوط لکھے۔ تعلیمی اداروں کے سربراہان کو نصاب میں حمد و نعت کی شمولیت کی دعوت دی۔ ساتھ ہی ہر سال انعامات دینے کا سلسلہ بھی شروع کیا۔ علامہ شبلی ایوارڈ برائے تحقیق، قاضی سجاد حسین ایوارڈ برائے تحقیق اور حضرت حسان ایوارڈ برائے نعتیہ شاعری کا سلسلہ شروع کیا۔ اس ضمن میں انھوں نے ملک کی متعدد شخصیات کو پاکیزہ اصناف سخن میں تحقیقی، علمی اور شعری خدمات انجام دینے پر انعامات سے نوازا۔[حوالہ درکار]
وفات
ترمیمابرارؔ کرتپوری کئی ماہ صاحب فراش رہنے کے بعد 18 جون 2022ء کو وفات پاگئے۔ ان کی نماز جنازہ اسی دن مغرب کے بعد ادا کی گئی اور اہل علم و ادب کے موقر مجمع نے نم آنکھوں کے ساتھ انھیں قبرستان بٹلہ ہاؤس، نئی دہلی میں سپرد خاک کر دیا۔ پسماندگان میں ایک بیٹے دانش رومی اور دو بیٹیاں شامل ہیں۔[حوالہ درکار]