ابو العاص بن ربیع

اسلامی پیغمبر محمد کے داماد کے والد

ابو العاص بن الربیع
نام لقیط، کنیت ابو العاص۔ ام المومنین حضرت خدیجہ کے بھانجے تھے۔ صحابی اور داماد رسول اللہ ﷺ اور علی بن ابو العاص کے والد تھے۔ آنحضرت کی بعثت پریہ ایمان نہ لائے۔ بلکہ غزوہ بدر میں مشرکین کی طرف سے مسلمانوں کے خلاف لڑے ۔

ابو العاص بن ربیع
 

معلومات شخصیت
مقام پیدائش المکہ علاقہ   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات سنہ 634ء   ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مدینہ منورہ   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت عرب   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
زوجہ زینب بنت محمد [1]  ویکی ڈیٹا پر (P26) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اولاد علی بن ابو العاص ، امامہ بنت ابی العاص
والدہ ہالہ بنت خویلد   ویکی ڈیٹا پر (P25) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ تاجر   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

ابو العاص لقيط بن الربيع بن عبد العزى بن عبد شمس بن عبد مناف بن قصی بن كلاب بن مرہ بن كعب بن لؤی بن غالب بن فہر بن مالك بن النضر بن كنانہ، العبشمی القرشي الكنانی[2]

حالات زندگی

ترمیم

ابو العاص بن ربیع زینب بنت محمد کے خاوند تھے۔ جس سے ان کاایک فرزند جس کا نام علی تھا اور ایک لڑکی جن کا نام امامہ تھا، پیدا ہوئے۔ زمانہ جاہلیت میں ان کا بہت بڑا کاروبار تھا۔ حضرت فاطمہ زہراء نے حضرت علی مرتضیٰ کو وصیت کی تھی کہ میری وفات کے بعد آپ حضرت امامہ بنت ابو العاص سے نکاح کر لیں۔ چنانچہ حضرت علی نے حضرت سیدہ فاطمہ کی وصیت پر عمل کیا۔[3]

داماد رسول

ترمیم

اعلانِ نبوت سے قبل حضرت خدیجہ کی فرمائش پر حضرت محمد ﷺ نے اپنی بڑی بیٹی حضرت زینب کا نکاح ان کے خالہ زاد بھائی ابو العاص بن ربیع سے کر دیا۔ ابو العاص حضرت بی بی خدیجہ کی بہن حضرت ہالہ بنت خویلد کے بیٹے تھے۔ حضورِ اکرم ﷺ نے حضرت خدیجہ کی سفارش سے حضرت زینب کا ابو العاص کے ساتھ نکاح فرمادیا تھا۔ حضرت زینب تومسلمان ہو گئی تھیں مگر ابو العاص شرک و کفر پر اڑا رہا۔ رمضان میں جب ابو العاص جنگِ بدر سے گرفتار ہو کرمدینہ آئے۔ اس وقت تک حضرت زینب مسلمان ہوتے ہوئے مکہ مکرمہ ہی میں مقیم تھیں۔ چنانچہ ابو العاص کو قید سے چھڑانے کے لیے انھوں نے مدینہ میں اپنا وہ ہار بھیجا جو ان کی ماں حضرت خدیجہ نے ان کو جہیز میں دیا تھا۔ یہ ہار حضورِ اقدس ﷺ کا اشارہ پا کر صحابہ کرام نے حضرت زینب کے پاس واپس بھیج دیا اور حضور ﷺ نے ابو العاص سے یہ وعدہ لے کر ان کو رہا کر دیا کہ وہ مکہ پہنچ کر حضرت زینب کو مدینہ منورہ بھیج دیں گے۔ چنانچہ ابوالعاص نے اپنے وعدہ کے مطابق حضرت زینب کو اپنے بھائی کنانہ کی حفاظت میں بطن یا جج تک بھیج دیا۔ ادھر حضور ﷺ نے حضرت زید بن حارثہ کو ایک انصاری کے ساتھ پہلے ہی مقام بطن یا جج میں بھیج دیا تھا۔ چنانچہ یہ دونوں حضرات بطن یا جج سے اپنی حفاظت میں حضرت زینب کو مدینہ منورہ لائے۔ جب حضرت زینب مکہ مکرمہ سے روانہ ہوئیں تو کفار قریش نے ان کاراستہ روکا یہاں تک کہ ایک بدنصیب ظالم ہباربن الاسودنے ان کو نیزہ سے ڈرا کر اونٹ سے گرا دیا جس کے صدمہ سے ان کا حمل ساقط ہو گیا۔ مگر ان کے دیور کنانہ نے اپنے ترکش سے تیروں کو باہر نکال کر یہ دھمکی دی کہ جو شخص بھی حضرت زینب کے اونٹ کا پیچھا کریگا۔ وہ میرے ان تیروں سے بچ کر نہ جائے گا۔ یہ سن کر کفار قریش سہم گئے۔ پھر سردار مکہ ابو سفیان نے درمیان میں پڑ کر حضرت زینب کے لیے مدینہ منورہ کی روانگی کے لیے راستہ صاف کرا دیا۔ اس کے بعد ابو العاص محرم 7 ھ میں مسلمان ہو کر مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ ہجرت کرکے چلے آئے اور حضرت زینب کے ساتھ رہنے لگے۔[4][5]

غزوہ بدرمیں کفارکے ساتھ

ترمیم

جنگِ بدر کے قیدیوں میں حضور ﷺ کے داماد ابو العاص بن الربیع بھی تھے۔ یہ ہالہ بنت خویلد کے لڑکے تھے اور ہالہ حضرت خدیجہ کی حقیقی بہن تھیں اس لیے حضرت خدیجہ نے رسول ﷲ ﷺ سے مشورہ لے کر اپنی لڑکی حضرت زینب کا ابو العاص بن الربیع سے نکاح کر دیا تھا۔ حضور ﷺ نے جب اپنی نبوت کا اعلان فرمایا تو آپ کی صاحبزادی حضرت زینب نے تو اسلام قبول کر لیا مگر ان کے شوہر ابو العاص مسلمان نہیں ہوئے اور نہ حضرت زینب کو اپنے سے جدا کیا۔ ابو العاص بن الربیع نے حضرت زینب کے پاس قاصد بھیجا کہ فدیہ کی رقم بھیج دیں۔ حضرت زینب کو ان کی والدہ حضرت خدیجہ نے جہیز میں ایک قیمتی ہار بھی دیا تھا۔ حضرت زینب نے فدیہ کی رقم کے ساتھ وہ ہار بھی اپنے گلے سے اتار کر مدینہ بھیج دیا۔ جب حضور ﷺ کی نظر اس ہار پر پڑی تو حضرت خدیجہ اور ان کی محبت کی یاد نے قلب مبارک پر ایسا رقت انگیز اثر ڈالا کہ آپ رو پڑے اور صحابہ سے فرمایا کہ اگر تم لوگوں کی مرضی ہو تو بیٹی کو اس کی ماں کی یادگار واپس کر دویہ سن کر تمام صحابۂ کرام نے سر تسلیم خم کر دیا اور یہ ہار حضرت زینب کے پاس مکہ بھیج دیا گیا۔[6][7] ابتدائی زمانہ تک یہی حکم جاری تھا اسی لیے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی دو صاحبزادیوں کا نکاح عتبة بن ابی لہب اور ابو العاص بن بیع سے کر دیا تھا حالانکہ یہ دونوں کفر پر تھے، بعد میں وہ آیات نازل ہوئی جن میں مسلمان عورت کا نکاح کافر مرد سے حرام قرار پایا[8] انھوں نے وعدہ کو پورا کیا اور حضرت زینب کو بھیج دیا اور پھر بعد میں خود بھی اسلام قبول کر لیا۔[9]

قبول اسلام

ترمیم

ابو العاص رہا ہو کرمدینہ سے مکہ آئے اور حضرت زینب کو مدینہ بھیج دیا۔ ابو العاص بہت بڑے تاجر تھے یہ مکہ سے اپنا سامان تجارت لے کر شام گئے اور وہاں سے خوب نفع کما کر مکہ آ رہے تھے کہ مسلمان مجاہدین نے ان کے قافلہ پر حملہ کرکے ان کا سارا مال و اسباب لوٹ لیا اور یہ مالِ غنیمت تمام سپاہیوں میں تقسیم بھی ہو گیا۔ ابو العاص چھپ کر مدینہ پہنچے اور حضرت زینب نے ان کو پناہ دے کر اپنے گھر میں اتارا۔ حضورﷺ نے صحابہ کرام سے فرمایا کہ اگر تم لوگوں کی خوشی ہو تو ابو العاص کا مال و سامان واپس کردو۔ فرمانِ رسالت کا اشارہ پاتے ہی تمام مجاہدین نے سارا مال و سامان ابو العاص کے سامنے رکھ دیا۔ ابو العاص اپنا سارا مال و اسباب لے کر مکہ آئے اور اپنے تمام تجارت کے شریکوں کو پائی پائی کا حساب سمجھا کر اور سب کو اس کے حصہ کی رقم ادا کر کے اپنے مسلمان ہونے کا اعلان کر دیااور اہل مکہ سے کہہ دیا کہ میں یہاں آکر اور سب کا پورا پورا حساب ادا کر کے مدینہ جاتا ہوں تاکہ کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ ابو العاص ہمارا روپیہ لے کر تقاضا کے ڈر سے مسلمان ہو کر مدینہ بھاگ گیا۔ اس کے بعد حضرت ابو العاص مدینہ آکر حضرت زینب کے ساتھ رہنے لگے۔[10][11] اور آپ (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے اپنے داماد سیدہ زینب کے شوہر ابو العاص بن ربیع کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا : ’’ اس نے مجھ سے بات کی اور سچی بات کی اور اس نے مجھ سے وعدہ کیا اور اسے پورا کر دکھایا۔ ‘‘ [[12][13]

وفات

ترمیم

10ھ میں حضرت علی کی سرکردگی میں یمن جانے والے سریہ میں شریک ہوئے۔ یمن سے واپسی پر حضرت علی نے انھیں اس علاقہ کا عامل بنا دیا۔ آپ کی وفات ماہِ ذوالحجہ 12ھ مطابق ماہِ فروری 634ء میں مدینہ منورہ میں ہوئی۔

اولاد

ترمیم

حضرت زینبؓ کے بطن سے ابو العاص کے دو اولادیں ہوئیں،علی اورامامہ علی کا انتقال صغر سنی میں ہو گیا تھا، امامہ زندہ رہیں، مرحومہ بیٹی کی اس یادگار سے آنحضرتﷺ کو والہانہ محبت تھی،اس کو آپ جان سے زیادہ عزیز رکھتے تھے،ہر وقت پاس رکھتے تھے نماز کی حالت میں بھی جدانہ کرتے تھے، رکوع کرتے وقت بٹھا دیتے تھے اورکھڑے ہوتے وقت پھر اٹھا لیتے تھے،(بخاری کتاب الصلوٰۃ) حضرت فاطمہؓ کے انتقال کے بعد حضرت علیؓ نے اس سے شادی کرلی تھی۔ [14]

عام حالات

ترمیم

ابو العاصؓ گو ظہور اسلام کے بعد بہت دنوں تک شرک کی تاریکی میں مبتلا رہے، لیکن ان کو اسلام اورمسلمانوں سے کوئی عنادنہ تھا اور رسول اللہ کو ہر حالت میں ان سے یکساں محبت رہی ؛چنانچہ اس زمانہ میں بھی جبکہ ابو العاصؓ اسلام نہیں لائے تھے،آپ ان کا تذکرہ بھلائی ہی کے ساتھ کرتے تھے۔


حوالہ جات

ترمیم
  1. عنوان : Зайнаб бинт Мухаммад
  2. ويكيبيديا، الموسوعة الحرة
  3. مدارج النبوت،قسم سوم،باب ہشتم،ج2،ص325
  4. المواہب اللدنیہ وشرح الزرقانی،باب فی ذکر اولاد الکرام،ج4،ص318۔319
  5. مدارج النبوت، قسم پنجم، باب اول، ج 2، ص 455۔456
  6. السیرۃ النبویۃ، ابن ہشام، ذکر رؤیا عاتکۃ، ص 270
  7. تاریخ طبری ص 1348
  8. تفسیر مظہری قاضی ثناء اللہ پانی پتی سورہ ہود آیت38۔ تفسیرقرطبی
  9. الحافظ ابن حجر فی الاصابۃ فی حرف العین
  10. السیرۃ النبویۃ لابن ہشام، اسلام ابی العاص بن الربیع،ص272
  11. تاریخ طبری
  12. بخاری، کتاب فرض الخمس، باب ما ذکر من درع النبی : 3110۔
  13. مسلم، کتاب فضائل الصحابۃ، باب من فضائل فاطمۃ 2449
  14. (استیعاب:2/692)