غزوہ بدر
بدر کی جنگ (عربی: غَزْوَةُ بَدْرٍ، اردو میں: غزوۂ بدر)، جسے قرآن اور مسلمانوں کی جانب سے یوم فرقان (عربی: يَوْمُ الْفُرْقَانْ) بھی کہا جاتا ہے، 13 مارچ 624ء (17 رمضان 2 ہجری)[1] کو موجودہ سعودی عرب کے صوبہ مدینہ میں واقع بدر کے قریب لڑی گئی تھی۔ اس جنگ میں حضرت محمد نے اپنے صحابہ کی قیادت کرتے ہوئے قریش کی فوج کو شکست دی، جس کی قیادت عمرو بن ہشام کر رہا تھا، جو مسلمانوں میں ابو جہل کے نام سے مشہور تھا۔ یہ جنگ حضرت محمد اور ان کی قبیلہ قریش کے درمیان چھ سالہ جنگ کا نقطہ آغاز بنی۔ اس سے قبل، 623ء کے آخر اور 624ء کے آغاز میں مسلمانوں اور مکہ کے مشرکین کے درمیان چند چھوٹی جھڑپیں ہو چکی تھیں۔
غزوۂ بدر | |||||||
---|---|---|---|---|---|---|---|
سلسلہ مسلمان-قریش جنگیں | |||||||
![]() | |||||||
| |||||||
مُحارِب | |||||||
مدینہ منورہ کے مسلمان | قریشِ مکہ | ||||||
کمان دار اور رہنما | |||||||
پیغمبر محمد ابوبکر صدیق عمر بن خطاب حمزہ بن عبد المطلب علی بن ابی طالب |
ابوجہل ⚔ عتبہ بن ربیعہ ⚔ امیہ بن خلف ⚔ ہند بنت عتبہ | ||||||
طاقت | |||||||
313 پیادہ فوج اور گھوڑسوار فوج: 2 گھوڑے اور 70 اونٹ | 950 پیادہ فوج اور گھوڑسوار فوج: 100 گھوڑے اور 170 اونٹ | ||||||
ہلاکتیں اور نقصانات | |||||||
14 شہید | 70 مقتول، 70 قیدی |
ہجرت کے بعد حضرت محمد نے مکی قافلوں کو گرفتار کرنے میں گہری دلچسپی لی، اسے اپنے ساتھیوں مہاجرین کے لیے ایک طرح کا بدلہ اور حق کی واپسی سمجھا۔ جنگ بدر سے چند روز قبل، جب آپ کو معلوم ہوا کہ ابو سفیان بن حرب کی قیادت میں ایک مکی قافلہ شام سے واپس آ رہا ہے، تو آپ نے اسے پکڑنے کے لیے ایک چھوٹا سا لشکر تیار کیا۔ ابو سفیان کو جب مسلمانوں کے حملے کے منصوبے کا علم ہوا، تو اس نے راستہ بدل لیا اور ایک لمبا اور محفوظ راستہ اختیار کرتے ہوئے مدینہ کے قریب سے گزرنے سے اجتناب کیا۔ ساتھ ہی، اس نے مکہ ایک قاصد بھیجا اور مدد طلب کی۔ عمرو بن ہشام (ابو جہل) نے تقریباً ایک ہزار افراد پر مشتمل لشکر تیار کیا اور بدر کے قریب پہنچ کر العُدوَة القُصوٰی نامی ریت کے ٹیلے پر خیمہ زن ہو گیا۔
بدر مسلمانوں اور قریش مکہ کے درمیان پہلا بڑا معرکہ تھا۔ شمال کی سمت سے پیش قدمی کرتے ہوئے، مسلمان مکی لشکر کے سامنے آ کھڑے ہوئے۔ جنگ کا آغاز دونوں جانب کے جنگجوؤں کے درمیان مبارزت سے ہوا، جس کے بعد قریشی لشکر نے تیروں کی بارش کی آڑ میں مسلمانوں پر حملہ کر دیا۔مسلمانوں نے اس حملے کا بھرپور جواب دیا اور قریشی صفوں کو توڑ دیا، جس کے نتیجے میں کئی اہم قریشی سردار مارے گئے، جن میں ابو جہل اور امیہ بن خلف بھی شامل تھے۔
مسلمانوں کی فتح نے حضرت محمد کی قیادت کو مزید مضبوط کر دیا۔ مدینہ کے باشندے جوش و خروش سے آپؐ کی آئندہ مہمات میں شریک ہونے لگے اور مدینہ سے باہر کے قبائل بھی کھل کر آپ کے ساتھ اتحادی بن گئے۔[2] اسلامی تاریخ میں یہ جنگ ایک فیصلہ کن فتح کے طور پر درج ہے، جسے الہی مدد کا نتیجہ قرار دیا جاتا ہے، جبکہ دیگر ذرائع کے مطابق، یہ حضرت محمد کی حکمت عملی اور جنگی مہارت کا مظہر تھی۔
پس منظر
622ء میں ہجرتِ مدینہ کے بعد، مدینہ کے باشندوں نے حضرت محمدؐ کو اپنی برادری کا قائد منتخب کیا۔ مسلمانوں نے فیصلہ کیا کہ وہ مکہ کے قافلوں پر حملہ کریں گے جب وہ مدینہ کے قریب سے گزریں گے۔ یہ فیصلہ اس ظلم و ستم کے رد عمل میں کیا گیا جو مکہ والوں نے مسلمانوں پر ڈھایا تھا، نیز ہجرت کے بعد مکہ کے مشرکین نے مسلمانوں کی زمینیں اور املاک زبردستی چھین لی تھیں، جس کا بدلہ لینا ضروری سمجھا گیا۔[3]
624ء کے اوائل میں، قریش کا ایک قافلہ ابو سفیان بن حرب کی قیادت میں شام (ممکنہ طور پر غزہ[4]) سے مکہ واپس جا رہا تھا۔ یہ قافلہ 50,000 دینار کی مالیت کا سامان لے کر آ رہا تھا اور اس کی حفاظت کے لیے 70 محافظ مقرر تھے۔[4] یہ قافلہ غیر معمولی طور پر بڑا تھا، ممکنہ طور پر اس لیے کہ کئی چھوٹے قافلے اپنی حفاظت کے پیش نظر آپس میں مل گئے تھے۔ مکہ کے تمام بڑے سرمایہ دار اس تجارتی مہم میں شریک تھے،[5] اس لیے وہ اس قافلے کی بحفاظت واپسی میں گہری دلچسپی رکھتے تھے۔[4]
حضرت محمد کو جب اس قافلے کی خبر ملی تو آپ نے اسے روکنے کا فیصلہ کیا۔ اس کی دو اہم وجوہات تھیں:
- پہلی یہ کہ قریش کی ضبط شدہ املاک کا بدلہ لینے کی پالیسی جاری رکھی جائے، کیونکہ ہجرت کے بعد مکہ میں مسلمانوں کی جائیدادیں اور املاک قریش نے زبردستی چھین لی تھیں۔
- دوسری یہ کہ اگر حملہ کامیاب ہو جاتا، تو اس سے مکہ والوں پر رعب پڑتا اور وہ مستقبل میں مدینہ پر حملہ کرنے سے باز رہتے۔
ابو سفیان نے مکہ میں اطلاع بھیجی کہ قافلہ خطرے میں ہے اور مدینہ کے قریب سے گزرتے وقت اس کی حفاظت کے لیے کمک بھیجی جائے۔ روایتی مسلم ذرائع کے مطابق، ابو سفیان کے جاسوسوں نے اسے مسلمانوں کی جنگی تیاریوں کی خبر دی تھی اور رمضان (مورخ) بھی اسی نظریے کو قبول کرتے ہیں۔ تاہم، واٹ لکھتے ہیں کہ چونکہ مکی لشکر کو بدر پہنچنے میں ایک ہفتہ لگا، اس لیے ابو سفیان نے اپنی درخواست مسلمانوں کی تیاریوں سے پہلے ہی بھیج دی ہوگی۔ واٹ اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ ابو سفیان مکہ کے "سب سے زیرک افراد میں سے ایک" تھا اور اس نے مسلمانوں کے ممکنہ حملے کا پہلے ہی اندازہ لگا لیا ہوگا۔
حضرت محمد نے قافلے کو روکنے کے لیے تقریباً 300 مجاہدین پر مشتمل ایک چھوٹا لشکر تیار کیا۔ ابو سفیان کے جاسوسوں نے اسے مسلمانوں کے حملے کے منصوبے کی خبر دی۔ قافلے کے مال و دولت کے ضائع ہونے کے خدشے کے پیش نظر، ابو سفیان نے دمدم بن عمرو الغفاری نامی قاصد کو قریش کے پاس مدد کے لیے بھیجا۔ دمدم جب کعبہ پہنچا تو اس نے اپنی اونٹنی کی ناک اور کان کاٹ دیے، اس کی زین کو الٹا کر دیا، اپنی قمیص پھاڑ لی اور بلند آواز میں پکارا:
"اے قریش! تمھارا مال و اسباب! یہ ابو سفیان کے ساتھ ہے۔ محمدؐ اور ان کے ساتھی اس قافلے کو روکنے کے لیے آ رہے ہیں۔ میں نہیں کہہ سکتا کہ ان کے ساتھ کیا ہونے والا ہے۔ مدد کرو! مدد کرو!"[6]
دمدم کے مکہ پہنچنے تک، ابو سفیان نے اپنے قافلے کا راستہ بحیرۂ احمر کی طرف موڑ دیا اور اس طرح مسلمانوں کے ممکنہ حملے سے بچ نکلنے میں کامیاب ہو گیا۔
اسلامی ریاست کے خاتمہ کا منصوبہ
قریش مکہ نے اسلامی ریاست کو ختم کرنے کا فیصلہ کرکے جنگ کی بھرپور تیاریاں شروع کر دیں۔ افرادی قوت کو مضبوط بنانے کے لیے انھوں نے مکہ مکرمہ کے گرد و نواح کے قبائل سے معاہدات کیے اور معاشی وسائل کو مضبوط تر کرنے کے لیے یہ فیصلہ کیا گیا کہ اس مرتبہ جو تجارتی قافلہ شام بھیجا جائے اس کا تمام منافع اسی غرض کے لیے وقف ہو۔ چنانچہ ابوسفیان کو اس قافلے کا قائد مقرر کیا گیا اور مکہ مکرمہ کی عورتوں نے اپنے زیور تک کاروبار میں لگائے۔ اسلامی ریاست کے خاتمے کے اس منصوبے نے مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے درمیان میں کشیدگی میں بہت اضافہ کر دیا۔
ابو سفیان کا قافلہ
جب ابوسفیان کا مذکورہ بالا قافلہ واپس آ رہا تھا۔ تو ابوسفیان کو خطرہ محسوس ہوا کہ کہیں یہ قافلہ راستے ہی میں نہ لوٹ لیا جائے چنانچہ اس نے ایک ایلچی کو بھیج کر مکہ سے امداد منگوائی۔ قاصد نے عرب دستور کے مطابق اپنے اونٹ کی ناک چیر دی اور رنگ دار رومال ہلا کر واویلا کیا اور اعلان کیا کہ ابوسفیان کے قافلے پرحملہ کرنے کے لیے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بڑھا چلا آ رہا ہے۔ اس لیے فوراً امداد کے لیے پہنچو۔ اہل مکہ سمجھے کہ قریش کا قافلہ لوٹ لیا گیا ہے۔ سب لوگ انتقام کے لیے نکل کھڑے ہوئے۔ راستے میں معلوم ہوا کہ یہ قافلہ صحیح سلامت واپس آ رہا ہے۔ لیکن قریش کے مکار سرداروں نے فیصلہ کیا کہ اب مسلمانوں کا ہمیشہ کے لیے کام ختم کرکے ہی واپس جائیں گے۔ نیز حضرمی کے ورثاء نے حضرمی کا انتقام لینے پر اصرار کیا۔ چنانچہ قریشی لشکر مدینہ کی طرف بڑھتا چلا گیا اور بدر میں خیمہ زن ہو گیا۔
واقعات
مدینہ میں قریشی لشکر کی آمد کی اطلاع ملی تو آپ نے مجلس مشاورت بلوائی اور خطرے سے نپٹنے کے لیے تجاویز طلب فرمائیں۔ مہاجرین نے جانثاری کا یقین دلایا۔ آپ نے دوبارہ مشورہ طلب کیا تو انصار میں سے سعد بن عبادہ نے عرض کیا کہ غالباً آپ کا روئے سخن ہماری طرف ہے۔ آپ نے فرمایا ہاں۔ حضرت سعد بن عبادہ نے عرض کیا کہ:
” | یا رسول اللہ! ہم آپ پر ایمان لائے ہیں۔ ہم نے آپ کی تصدیق کی ہے اور گواہی دی ہے کہ جو کتاب آپ لائے ہیں وہ حق ہے اور ہم نے آپ کی اطاعت اور فرمانبرداری کا عہد کیا ہے۔ یا رسول اللہ جس طرف مرضی ہو تشریف لے چلیے۔ قسم ہے اس ذات کی جس نے حق کے ساتھ آپ کو معبوث کیا اگر آپ ہم کو سمندر میں گرنے کا حکم دیں گے تو ہم ضرور اس میں گر پڑیں گے اور ہم میں سے ایک شخص بھی باقی نہ رہے گا۔ | “ |
حضرت مقداد نے عرض کیا:
” | ہم موسیٰ کی امت کی طرح نہیں ہیں جس نے موسیٰ سے کہا کہ تم اور تمہارا رب دونوں لڑو۔ ہم تو یہاں بیٹھے ہیں بلکہ ہم آپ کے دائیں بائیں، آگے پیچھے آپ کے ساتھ لڑیں گے۔ | “ |
مشاورت کے بعد مجاہدین کو تیاری کا حکم ہوا۔ مسلمانوں کے ذوق شہادت کا یہ عالم تھا کہ ایک نوعمر صحابی حضرت عمیر بن ابی وقاص اس خیال سے چھپتے پھرتے تھے کہ کہیں کم عمر ہونے کی وجہ سے واپس نہ بھیج دیے جائیں۔ اس کے باوجود مجاہدین کی کل تعداد 313 سے زیادہ نہ ہو سکی۔ یہ لشکر اس شان سے میدان کارزار کی طرف بڑھ رہا تھا کہ کسی کے پاس لڑنے کے لیے پورے ہتھیار بھی نہ تھے۔ پورے لشکر کے پاس صرف 70 اونٹ اور 2 گھوڑے تھے جن پر باری باری سواری کرتے تھے۔ مقام بدر پر پہنچ کر ایک چشمہ کے قریب یہ مختصر سا لشکر خیمہ زن ہوا۔ مقابلے پر تین گنا سے زیادہ لشکر تھا۔ ایک ہزار قریشی جوان جن میں سے اکثر سر سے پاؤں تک آہنی لباس میں ملبوس تھے وہ اس خیال سے بدمست تھے کہ وہ صبح ہوتے ہی ان مٹھی بھر فاقہ کشوں کا خاتمہ کر دیں گے لیکن قدرت کاملہ کو کچھ اور ہی منظور تھا۔
رات بھر قریشی لشکر عیاشی و بدمستی کا شکار رہا۔ خدا کے نبی نے خدا کے حضور آہ و زاری میں گزاری اور قادر مطلق نے فتح کی بشارت دے دی۔ جس طرف مسلمانوں کا پڑاؤ تھا وہاں پانی کی کمی تھی اور ریت مسلمانوں کے گھوڑوں کے لیے مضر ثابت ہو سکتی تھی۔ لیکن خداوند تعالٰی نے باران رحمت سے مسلمانوں کی یہ دونوں دقتیں دور کر دیں۔ ریت جم گئی اور قریشی لشکر کے پڑاؤ والی مقبوضہ چکنی مٹی کی زمین پر کیچڑ پیدا ہو گیا۔
17 رمضان المبارک 2ھ (17 مارچ 624ء) کو فجر کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جہاد کی تلقین کی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ارشاد کے مطابق انھوں نے صف بندی کی اور آہن پوش لشکر کو شکست دینے کا آہنی عزم لے کر میدان کی طرف چلے۔ قریشی لشکر تکبر و غرور میں بدمست نسلی تفاخر کے نعرے لگاتا ہوا سامنے موجود تھا۔ مسلمانوں کے لیے سخت آزمائش کا وقت تھا اس لیے کہ اپنے ہی بھائی بند سامنے کھڑے تھے۔ ابوبکر اپنے بیٹے عبد الرحمن سے اور ابو حذیفہ کو اپنے باپ عتبہ سے مقابلہ کرنا تھا۔ عرب کے دستور کے مطابق پہلے انفرادی مقابلے ہوئے۔ سب سے پہلے عمر بن الحضرمی کا بھائی عامر میدان میں نکلا اور مد مقابل طلب کیا۔ مقابلے پر حضرت عمر کا ایک غلام نکلا اور اس نے چشم زدن میں اس مغرور کا خاتمہ کر دیا۔ جو اپنے بھائی کا انتقام لینے کے لیے آیا تھا۔ اس کے بعد عتبہ بن ربیعہ اس کا بھائی شیبہ اور اس کا بیٹا ولید بن عتبہ میدان میں نکلے اور مبارز طلب کیے۔ تین انصاری صحابہ میدان میں نکلے لیکن ان تینوں نے یہ کہہ کر ان سے مقابلہ کرنے سے انکار کر دیا کہ یہ ہمارے ہم پلہ نہیں ہیں اور پکار کر کہا اے محمدصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہمارے مقابلے پر قریشی بھیجو۔ ہم عرب کے چرواہوں سے مقابلے کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ چنانچہ آپ کے ارشار پر حضرت حمزہ، حضرت علی اور حضرت عبیدہ مقابلے کے لیے نکلے۔ مغرور قریشی سرداروں نے ان کے نام پوچھے اور کہا۔ ’’ہاں تم ہمارے ہم پلہ ہو‘‘مقابلہ شروع ہوا۔ چند لمحوں میں حضرت حمزہ نے شیبہ کو جہنم رسید کر دیا اور حضرت علی نے ولید کو قتل کر ڈالا اور لشکر اسلام سے تکبیر کی آواز بلند ہوئی۔ اس دوران میں عتبہ اور حضرت عبیدہ نے ایک دوسرے پر بھرپور وار کیا اور دونوں زخمی ہو کر گر پڑے۔ حضرت علی اپنے مد مقابل سے فارغ ہو کر عتبہ کی طرف لپکے اور ایک ہی ضرب سے اس کا کام تمام کرکے حضرت عبیدہ کو لشکر میں اٹھا لائے۔ قریش نے اپنے نامور سرداروں کو یوں کٹتے دیکھا تو یکبارگی حملہ کر دیا تاکہ اکثریت کے بل بوتے پر لشکر اسلام کو شکست دیں۔
اس غزوہ میں مومنین کے جوش جہاد کا یہ حال تھا کہ ایک صحابی عمر بن جام کھجوریں کھا رہے تھے۔ انھوں نے حضور اکرم کا اعلان ’’آج کے دن جو شخص صبر و استقامت سے لڑے گا اور پیٹھ پھیر کر نہ بھاگے گا وہ یقینا جنت میں جائے گا‘‘۔ سنا تو کھجوریں پھینک دیں اور فرمایا ’’واہ واہ میرے اور جنت کے درمیان میں بس اتنا وقفہ ہے کہ یہ لوگ مجھ کو قتل کر دیں۔‘‘ یہ کہہ کر اتنی بہادری سے لڑے کہ شہید ہوئے اور چند لمحوں میں جنت کا فاصلہ طے کر لیا۔ میدان کارزار خوب گرم تھا قریش کے مغرور آہن پوش لوہے کے لباس سمیت کٹ کٹ کر گر رہے تھے۔ مسلمان بھی خود داد شجاعت دے رہے تھے۔ اس ہنگامے میں انصار کے دو کم عمر بچے معاذ بن عمر بن جموع اور معاذ بن عفر، حضرت عبدالرحمن بن عوف کے پاس آئے اور ان میں سے ایک نے کہا۔
’’چچا! آپ ابوجہل کو پہچانتے ہیں وہ کہاں ہے۔ ہم نے سنا ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شان میں گالیاں بکتا ہے۔ اس پاک ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے اگر میں اس کو دیکھ لوں تو اس وقت تک اس سے جدا نہ ہوں گا جب تک کہ وہ مر نہ جائے یا میں شہید نہ ہو جاؤں‘‘ اتفاق سے ابوجہل کا گذر سامنے سے ہوا۔ حضرت عبد الرحمن بن عوف نے اس کی طرف اشارہ کر دیا۔ یہ اشارہ پاتے ہی یہ دونوں ننھے مجاہد اپنی تلواریں لے کر اس کی طرف بھاگے۔ وہ گھوڑے پرسوار تھا اور یہ دونوں پیدل۔ جاتے ہی ان میں سے ایک ابوجہل کے گھوڑے پر اور دوسرے نے ابوجہل کی ٹانگ پر حملہ کر دیا۔ گھوڑا اور ابوجہل دونوں گر پڑے۔ عکرمہ بن ابوجہل نے معاذ بن عمر کے کندھے پر وار کیا اور ان کا باز لٹک گیا۔ باہمت نوجوان نے بازو کو راستے میں حائل ہوتے دیکھا تو پاؤں کے نیچے لے کر اسے الگ کر دیا اور ایک ہی ہاتھ سے اپنے شکار پر حملہ کر دیا۔ اتنے میں معاذ بن عفرا کے بھائی معوذ وہاں پہنچے اور انھوں نے ابوجہل کو ٹھنڈا کر دیا اور عبد اللہ بن مسعود نے اس کا سر تن سے جدا کر دیا۔
اس میدان بدر میں ابوجہل کے علاوہ امیہ بن خلف جس نے حضرت بلال پر بے پناہ ظلم ڈھائے تھے اور ابوبختری جیسے اہم سرداران قریش بھی مارے گئے۔ اور یہ مغرور لشکر میدان چھوڑ کر بھاگ کھڑا ہوا۔ اللہ تعالٰی نے اسلام کو فتح دی تھی اور دنیا نے دیکھ لیا کہ فتح و شکست میں مادی قوت سے زیادہ روحانی قوت کا دخل ہوتا ہے۔ مسلمانوں کے کل 14 آدمی شہید ہوئے۔ اس کے مقابلے میں قریش کے 70 آدمی مارے گئے جن میں سے 36 حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے ہاتھوں قتل ہوئے۔ 70 سے زیادہ گرفتار ہوئے۔ قریشی مقتولین میں ان کے تقریباً تمام نامور سردار شامل تھے اور گرفتار ہونے والے بھی ان کے معززین میں سے تھے۔ مثلاً حضرت عباس بن عبد المطلب ’’حضور کے چچا‘‘ عقیل بن ابی طالب، اسود بن عامر، سہیل بن عمرو اور عبد اللہ بن زمعہ وغیرہ۔
اسماء مبارک شہداء بدر
یہ وہ چودہ خوش نصیب صحابی ہیں جو غزوہ بدر میں شریک ہوئے اور شہادت پائی۔ ان کے علاوہ اور بھی نام ذکر کیے جاتے ہیں جو مختلف فیہ ہیں۔
شہداء بدر میں سے تیرہ حضرات تو میدان بدر ہی میں مدفون ہوئے مگر حضرت عبید ہ بن حارث نے چونکہ بدر سے واپسی پر منزل ”صفراء” میں وفات پائی اس لیے ان کی قبر شریف منزل ”صفراء” میں ہے۔
١۔ مہجع بن صالح رضی اللہ تعالی عنہ
٢۔ عبید ہ بن حارث رضی اللہ تعالی عنہ
٣۔ عمیر بن ابی وقاص رضی اللہ تعالی عنہ
4۔ عاقل بن بکیر رضی اللہ تعالی عنہ
5۔ عمیر بن عبد عمرو رضی اللہ تعالی عنہ
٦۔ عوف بن عفرا رضی اللہ تعالی عنہ
٧۔ معوذ بن عفرا رضی اللہ تعالی عنہ
٨۔ حارث بن سراقہ رضی اللہ تعالی عنہ
٩۔ یزید بن حارث رضی اللہ تعالی عنہ
١٠۔ عمیر بن حمام رضی اللہ تعالی عنہ
١١۔ رافع بن معلی رضی اللہ تعالی عنہ
١٢۔ عمار بن زیادہ رضی اللہ تعالی عنہ
١٣۔ سعد بن خیثمہ رضی اللہ تعالی عنہ
١4۔ مبشر بن عبد منذر رضی اللہ تعالی عنہ
اسیران جنگ کے ساتھ سلوک
آنحضرت نے اسیران جنگ کا صحابہ میں تقسیم کرکے انھیں آرام سے رکھنے کا حکم دیا۔ صحابہ کرام نے اپنے قائد کے فرمان پر اس حد تک عمل کیا کہ خود کھجوریں کھا کر قیدیوں کو کھانا کھلایا۔ صحابہ کرام سے ان کے بارے میں مشورہ طلب کیا گیا تو حضرت عمر فاروق نے انھیں قتل کر کے دشمن کی قوت توڑنے کی تجویز پیش کی حضرت ابوبکر نے فدیہ لے کر چھوڑ دینے کا مشورہ دیا۔ آنحضرت نے حضرت ابوبکر سے اتفاق کرتے ہوئے اسیران جنگ کو فدیہ لے کر چھوڑ دیا جو قیدی غربت کی وجہ سے فدیہ ادا نہیں کر سکتے تھے اور پڑھے لکھے تھے انھیں دس مسلمانوں کو پڑھنا لکھنا سکھانے کے عوض رہا کر دیا گیا۔ یہ قیدی حسن سلوک سے اس حد تک متاثر ہوئے کہ ان میں سے بہت سے مشرف بہ اسلام ہوئے جن میں عباس بن عبد المطلب اور عقیل بن ابوطالب شامل تھے۔
مسلمانوں کی کامیابی کے اسباب
غزوہ بدر میں مسلمان قریش کے مقابلے میں ایک تہائی سے بھی کم تھے۔ قریش کے پاس اسلحہ بھی مسلمانوں سے زیادہ تھا۔ اس کے باوجود کامیابی نے مسلمانوں کے قدم چومے۔ اس کے چند اسباب مندرجہ ذیل ہیں۔
نصرت الہی
غزوہ بدر میں مسلمانوں کا سب سے بڑا اور اصل سبب نصرت الہی تھا۔ اللہ تبارک و تعالٰی سے حضور نبی اکرم نے دعا فرمائی تھی:
” | اے خدا! یہ قریش ہیں اپنے سامان غرور کےساتھ آئے ہیں تاکہ تیرے رسول کو جھوٹا ثابت کریں۔ اے اللہ اب تیری وہ مدد آجائے جس کا تو نے مجھ سے وعدہ فرمایا۔ اے اللہ ! اگر آج یہ مٹھی بھر جماعت ہلاک ہوگئی تو پھر روئے زمین پر تیری عبادت کہیں نہیں ہوگی | “ |
اس کے جواب میں اللہ تعالٰیٰ نے فتح کی بشارت دی اور ایک ہزار فرشتوں سے امداد فرمائی سورہ الانفال میں غزوہ بدر کی تفصیل موجود ہے۔
ذوق شہادت
اسلام نے مسلمانوں کے جو عقائد مقرر تھے۔ ان میں عقیدہ آخرت کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ مسلمان موت کے بعد آنے والی ابدی زندگی کے لیے اس زندگی کو قربان کرنے کے لیے تیار ہوتا ہے۔ شہادت کی موت اس کے نزدیک موت نہیں ابدی زندگی ہے۔ اس عقیدہ نے مسلمانوں کو بے جگری سے لڑنے پر آمادہ کیا اور موت جس سے ہر انسان خائف ہوتا ہے۔ مسلمانوں اسے خوشی سے قبول کرنے کے لیے تیار تھے۔
بہتر انتظام
اسلامی لشکر اپنے سالار اعظم محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر جان چھڑکنے کو تیار تھا۔ ہر شخص اپنے قائد کے ہر حکم کو بلا چوں چراں مانتا تھا۔ مسلمان آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ادنٰی سے اشارے پر حرکت میں آجاتے تھے۔ لہذا ان کا تنظیمی ڈھانچہ اپنے حریفوں سے بہتر تھا۔ اس کے برعکس لشکر کفار کئی ایک سرداروں کی کمان میں تھا اور ان سرداروں میں اتحاد عمل پیدا ہونا بہت مشکل تھا۔ چنانچہ جب قریش نے مل کر حملہ کیا تو اسے مسلمانوں نے روک لیا لیکن مسلمانوں کے منظم حملے کو قریش نہ روک سکے۔
مشہور قریشی سرداروں کی موت
عام لڑائی کے آغازسے پہلے تین نامور قریشی سردار میدان میں آئے اور انھوں نے نہایت متکبرانہ انداز میں مد مقابل طلب کیے لیکن وہ تینوں مقتول ہوئے۔ عتبہ، ولید اور شیبہ قریش کے بہت ہی بہادر سردار سمجھے جاتے تھے۔ ان کے قتل سے قریش کے حوصلے پست ہو گئے۔ بعد میں ابوجہل کی ہلاکت نے رہی سہی کسر پوری کر دی۔
قریش کی صفوں میں انتشار
قبائلی نظام جہاں بھی ہوگا اتحاد کامل پیدا ہونا ناممکن ہے۔ قبائلی کبر و غرور تنظیم کا دشمن ہوتا ہے۔ قریشی لشکر بھی اس اصول سے مسثنیٰ نہ تھا۔ اس وجہ سے مکہ سے آنے والے لشکر میں اتحاد کا فقدان تھا۔
دشمن میں بددلی اور اختلاف رائے
اگرچہ لشکر قریشی خاندانی شرافت کو برقرار رکھنے کے لیے میدان جنگ میں آ گیا لیکن اس مسئلہ پر ان کے درمیان میں اختلاف رائے اور بددلی پائی جاتی تھی۔ ابوسفیان جب اپنے قافلے کو بچا کر نکل گیا تو اس نے پیغام بھیجا کہ جنگ کیے بغیر واپس لوٹ آؤ لیکن ابوجہل نہ مانا۔ اس پر بنی زہرہ اور بنی عدی واپس لوٹ گئے۔ بنو ہاشم سے مغرور قریشی سرداروں نے کہا۔ ’’اے بنو ہاشم ! اگرچہ تم ہمارے ساتھ چلے آئے لیکن تمھارا دل تو محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ ہے۔‘‘ اس پر بنی ہاشم میں ایک گروہ طالب بن ابی طالب کی سرکردگی میں واپس لوٹ گیا۔ حکیم بن حزام اور عتبہ نے بھی جنگ نہ کرنے کا مشورہ دیا لیکن ابوجہل اور حضرمی کے خاندان کے اصرار پر معرکہ کارزار گرم ہو کر رہا اور سرداروں نے بادل ناخواستہ اس جنگ میں شرکت کی۔ اسی سلسلے میں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ بعض قریشی پکار پکار کر کہہ رہے تھے کہ ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ آسمان سے ہم پر بلائیں نازل ہو رہی ہیں۔ ان کے بعض افراد نے ایسے خواب دیکھے تھے جن میں ان کی تباہی کی خبر دی گئی تھی۔ ان تمام چیزوں کی حقیقت یہ تھی کہ جو لوگ اسلام کی حقانیت کو سمجھتے تھے اور انھیں معلوم تھا کہ ہم ’’خدا کا مقابلہ‘‘ کرنے جا رہے ہیں۔ اس لیے وہ خواب دیکھتے تھے کہ ان خوابوں کے عام چرچوں سے لشکر قریش میں اندر ہی اندر بددلی پھیلی ہوئی تھی۔
متفرق وجوہات
مسلمانوں کی کامیابی کی بعض دیگر وجوہات بھی تھیں۔ مثلاً نیز قریش کو لڑائی کے وقت سورج سامنے پڑتا تھا اور اس سے ان کی آنکھیں چندھیا رہی تھیں۔ جنگ سے چند گھنٹے پہلے بارش ہوئی جس نے قریش کے پڑاؤ کے قریب کیچڑ پیدا کر دیا۔ جب کہ مسلمانوں کا پڑاؤ ریتلی زمین پر تھا اور انھیں اس سے فائدہ پہنچا کہ ریت جم گئی ایسی تمام چیزوں کو مسلمانوں نے اپنے لیے غیبی امداد سمجھا اور قریش مکہ نے اسے برے شگون لیے اور ان کے حوصلے پست ہوتے چلے گئے۔
غزوہ بدر کے اثرات
جنگ بدر حق و باطل کے درمیان میں فیصلہ کن معرکہ تھا اس کی اہمیت و اثرات کا اندازہ مندرجہ ذیل امور سے ہو سکتا ہے۔
حق و باطل کا فیصلہ
اللہ تعالٰی نے مسلمانوں کے ساتھ وعدہ فرمایا تھا کہ تجارتی قافلہ اور قریشی لشکر میں ایک ضرور مفتوح ہو گیا۔ ابوجہل اور دیگر قریشی سرداروں نے مکہ سے روانہ ہونے سے پہلے خانہ کعبہ کا پردہ پکڑ کر دعا کی تھی کہ ’’خدایا دونوں گروہوں میں سے جو بہتر ہے اس کو فتح عطا کراور جو برسر ظلم ہو اسے تباہ کر‘‘ چنانچہ غزوہ بدر میں اللہ تعالٰی نے فیصلہ فرما دیا کہ کون حق ہے اور باطل پر کون ہے۔
قریش کے غرور کا سر نیچا
میدان بدر میں آنے والے قریشی لشکر کی حالت یہ تھی کہ وہ اکڑتا ہوا اور لوگوں کو نمائش کرتا ہوا بڑھ رہا تھا۔ ان کا ارادہ تھا کہ بدر میں لگنے والے میلے میں لوگ ہماری قوت دیکھیں گے تو پورے عرب پر ہمارا رعب طاری ہو جائے گا۔ لیکن جنگ نے غرور کا سر نیچا کر دیا۔
اسلام ایک عظیم قوت
غزوہ بدر میں اسلام کی فتح نے اسلامی حکومت کو عرب کی ایک عظیم قوت بنا دیا۔ ایک مغربی مورخ کے الفاظ ہیں:
’’بدر سے پہلے اسلام محض ایک مذہب۔۔۔۔ تھا مگر بدر کے بعد ہو مذہب ریاست بلکہ خود ریاست بن گیا۔‘‘
مدینہ میں اسلام کی مزید اشاعت
مدینہ میں بنو اوس اور بنو خزرج قبائل کے بہت سے لوگوں نے ابھی تک اسلام قبول نہیں کیا تھا اور وہ ہوا کا رخ دیکھ رہے تھے۔ 313 کے ہاتھوں ایک ہزار قریشی سرداروں کی شکست نے ان پر لات و منات و عزی اور ہبل کی قوت کا کھوکھلا پن واضح کر دیا۔
منافقین کا گروہ
غزوہ بدر کے نتیجہ کے طور پر بہت سے ایسے لوگوں نے بھی اسلام قبول کر لیا جو فی الحقیقت اسلام کے قائل نہ ہوئے تھے۔ بلکہ دل سے اس کے دشمن تھے۔ اس کے نتیجہ کے طور پر منافقین کا گروہ پیدا ہو گیا تھا۔ جو بعد میں مسلمانوں کے اندر گھس کر خلاف اسلام سرگرمیوں میں مصروف رہا۔ عبد اللہ بن ابی ’’رئیس المنافقین‘‘ نے بھی جنگ بدر کے بعد مسلمان ہونے کا اعلان کر دیا۔
یہودیوں کے ساتھ تصادم
یہودی اب تک یہ امید لگائے بیٹھے تھے کہ مسلمان قریش مکہ کے ہاتھوں ختم ہو جائیں گے اور مدینہ پر ان کی سیادت حسب سابق قائم ہو جائے گی لیکن اس جنگ کے نتیجہ نے انھیں سیخ پا کر دیا چنانچہ یہودی سردار مکہ گئے اور "اشراف عرب" کے مرنے پر روئے۔ ماتم کیا اور قریش کو ازسر نو مدینہ پر حملہ کرنے کی ترغیب دلائی اور امداد کا وعدہ کیا۔ اس طرح یہودیوں کے ساتھ بھی مسلمانوں کے تصادم کا آغاز ہو گیا۔
ابوسفیان کی سرداری
قریش مکہ کے بڑے بڑے سردار اس جنگ میں مارے گئے۔ صرف ابوسفیان بچا تھا جو اس جنگ میں شریک نہیں ہوا تھا اس لیے قریش کی قیادت ابو سفیان کے ہاتھوں میں آگئی۔ بنو امیہ کے اقتدار کی جدوجہد کے پس منظر میں ابوسفیان کو بڑا دخل حاصل تھا۔ مکہ پہنچ کر ابوسفیان اور اس کی بیوی ھندہ نے انتقامی جذبات کو بھڑکایا اور مدینہ پر ازسرنو دوسرے حملے کے منصوبے بنانے شروع کر دیے۔ اور اس کے بعد اسلام کے خلاف تمام جنگوں میں کفار مکہ کی قیادت اس نے کی۔
غزوہ سویق واحد
غزوہ بدر کے بعد سویق و احد کے غزوات اسی غزوہ کا نتیجہ ہے۔ اس میں قریش نے اپنے مقتولین کا بدلہ لینے کے لیے مدینہ پر حملے کیے۔
غزوہ بدر کی اہمیت
غزوہ بدر اسلام اور کفر کا پہلا اور اہم ترین تصادم ہے اس سے دنیا پر واضح ہو گیا کہ نصرت الہی کی بدولت مومنین اپنے سے کئی گناہ فوج کو شکست دے سکتے ہیں۔ اللہ تعالٰی نے قرآن پاک میں سو مومنوں کو ہزار کافروں پر فتح کی بشارت دی۔ غزوہ بدر میں شامل مسلمانوں نے جس قوت ایمانی کا مظاہرہ کیا اس کا اندازہ اس بات سے ہو سکتا ہے کہ باپ بیٹے کے خلاف اور بیٹا باپ کے خلاف۔ بھانجا ماموں کے خلاف اور چچا بھتیجے کے خلاف میدان میں آیا۔ حضرت عمر نے اپنے ماموں کو اپنے ہاتھ سے قتل کیا۔ حضرت ابوبکر کے بیٹے عبد الرحمن نے جو قریش کی طرف سے جنگ میں شریک ہوئے تھے۔ اسلام لانے کے بعد ایک دفعہ حضرت ابوبکر کو بتایا کہ جنگ میں ایک مرتبہ آپ میری زد میں آ گئے تھے لیکن میں نے آپ پر وار کرنا پسند نہ کیا۔ حضرت ابوبکر نے فرمایا خدا کی قسم اگر تم میری زد میں آجاتے تو کبھی لحاظ نہ کرتا۔ حضرت حذیفہ کا باب عتبہ بن ربیعہ لشکر قریش کا سپہ سالار تھا اور سب سے پہلے قتل ہونے والوں میں شامل تھا۔ اس جنگ کا ایک اور پہلو یہ ہے کہ مسلمانوں نے بہت نظم و ضبط سے دشمن کا مقابلہ کیا اور اپنی صفیں نہیں ٹوٹنے دیں۔ جنگ کے خاتمے پر خدا اور رسول کے حکم کے تحت مال غنیمت کی تقسیم ہوئی۔ مال غنیمت کی اتنی پر امن اور دیانت دارانہ تقسیم کی مثال کم ہی ملتی تھی۔ القصہ مسلمانوں کے تقوی اور اطاعت رسول کی وجہ سے ان کی برتری روز روشن کی طرح ثابت ہو گئی اور کفار کے حوصلے پست ہوئے۔ جب کی مسلمانوں کا اللہ پر توکل بہت بڑھ گیا۔
حوالہ جات
- ↑ W. Montgomery Watt (1956), Muhammad at Medina Oxford: Clarendon Press, p. 12. Watt notes that the date for the battle is also recorded as the 19th or the 21st of Ramadan (15 or 17 March 624).
- ↑ William Montgomery Watt (1956)۔ Muhammad at Medina۔ Clarendon Press۔ ص 17۔
The people of Medina were much readier to join Muhammad's expeditions...The friendly tribes between Medina and the sea were presumably more ready to help Muhammad openly...Pagan nomads in the neighbourhood of Medina were much readier to profess Islam.
- ↑ John Esposito, Islam, Expanded edition, Oxford University Press, p.4-5
- ^ ا ب پ Watt 1956، صفحہ 10-11
- ↑ Ramadan 2007، صفحہ 100-101
- ↑