ابوجندل
ابو جندل بن سہیل صحابیٔ رسول اور سہیل بن عمرو کے بیٹے تھے۔
ابوجندل | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائشی نام | العاصی بن سہیل |
مقام پیدائش | مکہ |
کنیت | ابو جندل |
والد | سہیل بن عمرو |
رشتے دار | بھائی: عبد اللہ بن سہیل |
عملی زندگی | |
نسب | العامری القرشی |
درستی - ترمیم |
نام ونسب
ترمیمعاص نام،ابو جندل کنیت ،نسب نامہ یہ ہے، ابو جندل بن سہیل بن عمرو بن عبد شمس بن عبد ود بن نصر ابن مالک بن حل بن عامر بن لوئی قرشی عامری
اسلام اور قید و بند
ترمیمابو جندل اس وقت مسلمان ہوئے جب ان کا گھر اسلام دشمنی کا گڑھ تھا۔ والد سہیل نے ان کے پیروں میں بیڑیاں ڈال کر قید کر دیا اور وہ کئی برس تک اس قیدوبند میں گرفتار رہے،6ھ صلح حدیبیہ میں ان کے والد سہیل ہی قریش مکہ کی طرف سے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پاس مصالحت کے لیے آئے تھے۔ جب شرائط لکھی جا رہی تھیں تو ان میں ایک شرط تھی "قریش کا جو آدمی بہی خواہ وہ مسلمان ہی کیوں نہ ہو مسلمانوں کے پاس چلا آئے گا تو مسلمان اس کے واپس کرنے پر مجبور ہوں گے، تو ابوجندل جو اسلام قبول کر چکے تھے اور کفار مکہ کی قید میں تھے۔ کسی طرح بھاگ کر بیڑیوں سمیت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو گئے۔ اور اپنے زخم دکھا کر فریاد کی کہ انھیں اپنے ساتھ مدینہ لے چلیں۔ حضور نے سہیل کو کافی سمجھایا کہ وہ ابوجندل کو مدینہ جانے کی اجازت دے دیں۔ مگر وہ راضی نہ ہوا اور کہا کہ شرائط صلح کی رو سے آپ اسے نہیں لے جا سکتے۔ چنانچہ حضور نے صحابہ کرام کی مخالف کے باوجود ابوجندل کو سہیل کے حوالے کر دیا۔ اور کہا " ابو جندل صبر و ضبط سے کام لو، خدا تمھارے اور دوسرے مظلوم مسلمانوں کے لیے کوئی راستہ پیدا کریگا، ہم صلح کرچکے ہیں اور صلح کے بعد ان سے بد عہدی نہیں کرسکتے۔ ابوجندل کفار کی سختیاں سہتے رہے اور جب مکہ کے ستم زدہ مسلمانوں نے مقام عیص میں ایک پناہ گاہ بنا لی تو یہ بھی وہاں چلے گئے۔
رہائی اورغزوات
ترمیمجب کفار مکہ نے صلح حدیبیہ کی وہ دفعہ جس کی رو سے ابو جندل واپس کیے گئے تھے واپس لے لی تو آنحضرتﷺ نے ابو جندل اور ان کے ساتھی ابو بصیر کو مدینہ بلا بھیجا،ابو بصیر کو مدینہ آنے کی نوبت نہیں آئی اور وہ اسی وادیِ غربت میں پیوندِ خاک ہو گئے ابو جندل مدینہ واپس ہوئے،مدینہ آنے کے بعد جس قدر غزوات ہوئے، سب میں شرکت کی سعادت حاصل کی۔[1]
وفات
ترمیمابو جندل زندگی بھر مدینہ میں رہے، اس کے بعد عمرفاروق کے زمانہ میں جب شام پر فوج کشی ہوئی،تو اس میں مجاہدانہ شرکت کی اور پانچ چھ سال تک مسلسل جہاد فی سبیل اللہ میں مشغول رہ کر عمرکے عہد خلافت 18ھ میں طاعون کی وبا میں عمواس میں وفات پائی۔[2]
فضل وکمال
ترمیمفضل وکمال میں شاعری کے علاوہ اورکوئی شے قابلِ ذکر نہیں ہے،حافظ ابن عبد البر نے ان کے اشعار نقل کیے ہیں۔