سہیل بن عمرو
سہیل بن عمرو رؤسائے قریش میں سے تھے۔
سہیل بن عمرو | |
---|---|
(عربی میں: سهيل بن عمرو رضي الله عنه) | |
معلومات شخصیت | |
پیدائش | سنہ 556ء مکہ |
وفات | سنہ 639ء (82–83 سال)[1] اماؤس |
شہریت | خلافت راشدہ |
اولاد | عبد اللہ بن سہیل ، ابو جندل |
عسکری خدمات | |
لڑائیاں اور جنگیں | غزوۂ بدر ، جنگ یرموک |
درستی - ترمیم |
نام ونسب
ترمیمسہیل نام، ابو یزید کنیت،نسب نامہ یہ ہے، سہیل بن عمرو بن عبد شمس بن عبد و دبن نصر بن مالک بن حسل بن عامر بن لوئی قرشی عامری
قبل ازاسلام
ترمیمسہیل رؤ سائے قریش میں سے تھے، اس لیے دوسرے رؤ ساء کی طرح اسلام اورپیغمبر اسلام ﷺ کے سخت دشمن تھے،لیکن قدرت کی کرشمہ سازی دیکھو کہ اسی دشمنِ اسلام کے گھر میں عبد اللہ بن سہیل اورابو جندل بن سہیل جیسے اسلام کے فدائی پیدا ہوئے، یہ دونوں دعوتِ اسلام کے آغاز ہی میں مشرف باسلام ہوئے اوراسلام کے جرم میں باپ کے ہاتھوں طرح طرح کی سختیاں جھیلتے رہے، عبد اللہ موقع پاکر حبشہ ہجرت کر گئے تھے،لیکن وہاں سے واپسی کے بعد پھر ظالم باپ کے پنجہ میں اسیر ہو گئے اور جنگ بدر کے موقع پر رہائی پائی،دوسرے بھائی ابوجندل ،حدیبیہ کے زمانہ تک مشق ستم رہے۔ اشاعتِ اسلام نے انھیں اسلام کا اور زیادہ دشمن بنادیا اوروہ اس کی بیخ کنی میں ہرامکانی کوشش کرنے لگے، عام مجمعوں میں اسلام کے خلاف تقریریں کرتے اوررسول اکرمﷺ کے خلاف زہر اگلتے، عمر فاروق کا غصہ قابو سے باہر ہو گیا، انھوں نے آنحضرتﷺ سے اجازت مانگی کہ ارشاد ہو تو سہیل کے دو اگلے دانت توڑ ڈالوں،تاکہ آپ کے خلاف تقریر نہ کرسکے، لیکن رحمتِ عالم نے جواب دیا جانے دو ممکن ہے کبھی وہ خوش بھی کر دیں۔[2] صلح حدیبیہ میں قریش کی طرف سے معاہدہ لکھانے کی خدمت انھی کے سپرد ہوئی تھی چنانچہ معاہدہ کی کتابت کے وقت جب آنحضرتﷺ نے اسلامی طرز ِ تحریر کے مطابق بسم اللہ لکھنا چاہا تو سہیل نے اعتراض کیا ،ہمارے دستور کے مطابق باسمک اللھم لکھو، رسول اللہ ﷺ نے ان کا کہنا مان لیا اور معاہدہ کا مضمون شروع ہوا، جب "ھذا ماقاضی علیہ محمد رسول اللہ"لکھا گیا تو سہیل نے اعتراض کیا کہ اگر ہم محمدﷺ کو رسول مانتے تو یہ جھگڑا ہی کیوں ہوتا محمد رسول اللہ کی بجائے محمد بن عبد اللہ لکھو، آنحضرتﷺ نے فرمایا گو تم مجھے جھٹلا رہے ہو؛ لیکن میں خدا کا رسول ہوں، پھر علی سے فرمایا کہ رسول اللہ مٹا کر میرا نام لکھدو، علی نے عرض کیا میں اپنے ہاتھ سے نہیں مٹاسکتا ،اس عذر پر آپ نے خود اپنے دستِ مبارک سے مٹا کر" محمد بن عبد اللہ" لکھدیا،اس مرحلہ کے بعد پھر کتابت شروع ہوئی کہ ابھی یہ دفعہ زیر بحث تھی کہ سہیل کے لڑکے ابو جندل جو سہیل کے ہاتھوں میں گرفتار تھے کسی طرح بھاگ کر آ گئے ،ان کے پیروں میں بیڑیاں پڑی ہوئی تھیں انھیں دیکھ کر سہیل نے کہا، محمد شرط پوری کرنے کا یہ پہلا موقع ہے، آپ نے فرمایا، مگر ابھی یہ دفعہ تسلیم نہیں ہوئی ہے، سہیل نے کہا اگر تم ابو جندل کو حوالہ نہ کرو گے تو ہم کسی شرط پر صلح نہ کریں گے، آنحضرتﷺ نے بہت اصرار کیا، مگر سہیل کسی طرح نہ مانے، صحابہ نے ابو جندل کو حوالہ کرنے کی بہت مخالفت کی؛ لیکن درحقیقت یہ صلح آیندہ کا میابیوں کا دیباچہ تھی اس لیے رسول اللہ ﷺ نے سہیل کی شرط مان لی اورابو جندل اسی طرح پا بجولاں واپس کر دیے گئے اور عہد نامہ مکمل ہو گیا۔ فتح مکہ کے بعد صنادیدِ قریش کی قوتیں پارہ پارہ ہوگئیں اور ان کے لیے دامنِ رحمت کے علاوہ کوئی جائے پناہ باقی نہ رہی،اس وقت وہی سہیل جنھوں نے دو سال پیشتر حدیبیہ میں من مانی اور فاتحانہ شرائط پر صلح کی تھی، بے بس اورلاچار ہوکر گھر کے اندر کواڑ بند کرکے چھپ رہے اور اپنے لڑکے ابو جندل کے پاس جن پر اسلام کے جرم میں طرح طرح کی سختیاں کی تھیں پیام کہلا بھیجا کہ "مارے جانے سے پہلے میری جان بخشی کراؤ" ابو جندل لاکھ مشق ستم رہ چکے تھے پھر بھی بیٹے تھے اوراسلام نے اس مقدس رشتے کی اہمیت اورزیادہ کردی تھی اس لیے بلاتامل اس حکم کی تعمیل کے لیے سرخم کر دیا اور خدمتِ نبویﷺ میں حاضر ہوکر عرض کیا یا رسول اللہ!والد کو امان مرحمت فرمائیے، ان کی سفارش پر رحمتِ عالمﷺ نے سہیل کی تمام خطاؤں سے درگزر فرمایا اور ارشاد ہوا کہ وہ خدا کی امان میں مامون ہیں، بلاخوف و خطر گھر سے نکلیں اورگرد وپیش کے لوگوں کو ہدایت فرمائی کہ جوشخص سہیل سے ملے خبردار وہ ان کی طرف نہ لپکے،میری عمر کی قسم سہیل صاحبِ عقل وشرف ہیں، ان کے جیسا شخص اسلام سے ناواقف نہیں رہ سکتا، بیٹے نے جاکر باپ کو رسول اللہ ﷺ کا ارشاد سنایا یہ شانِ کرم دیکھ کر سہیل کی زبان سے بے اختیار یہ کلمات نکل گئے کہ واللہ وہ بچپن میں بھی نیک تھے اوربڑی عمر میں بھی نیک ہیں۔
اسلام
ترمیمبالآخر آنحضرتﷺ کے اس عفو وکرم نے یہ معجزہ دکھایا کہ سہیل حنین کی واپسی کے وقت آپ کے ساتھ ہو گئے اورمقام جعرانہ پہنچ کر خلعتِ اسلام سے سرفراز ہوئے آنحضرت ﷺ نے ازراہ مرحمت حنین کے مالِ غنیمت میں سے سو اونٹ عطا فرمائے، گو فتح مکہ کے بعد کے مسلمانوں کا شمار مؤلفۃ القلوب میں ہے، لیکن سہیل اس زمرہ میں اس حیثیت سے ممتاز ہیں کہ اسلام کے بعد ان سے کوئی بات اسلام کے خلاف ظہور پزیر نہیں ہوئی ،حافظ ابن حجرعسقلانی لکھتے ہیں، کان محمودالا سلام من حین اسلم۔[3]
فتنہ ارتداد
ترمیمچنانچہ آنحضرتﷺ کے بعد جب ارتداد کا فتنہ اٹھا تو بہت سے مؤلفۃ القلوب ڈگمگا گئے،لیکن سہیل کے ایمان میں ذرہ برابر بھی تذبذب نہ پیدا ہوا، اورانہوں نے قبائل مکہ کو اسلام پر قائم رکھنے کی بڑی کوشش کی؛چنانچہ جب انھوں نے قبائل مکہ میں اسلام سے برگشتگی کے آثار دیکھے تو تمام قبیلہ والوں کو جمع کرکے تقریر کی کہ: "برادران اسلام! اگر تم لوگ محمدﷺ کی پرستش کرتے تھے تو وہ دوسرے عالم کو سدھار گئے، اوراگر محمدﷺ کے خدا کی پرستش کرتے تھے، تو وہ حی وقیوم اورموت کی گرفت سے بالا ہے،برادرانِ قریش! تم سب سے اخیر میں اسلام لائے ہو، اس لیے سب سے پہلے اس کو چھوڑنے والے نہ بنو، محمدﷺ کی موت سے اسلام کو کئی صدمہ نہیں پہنچ سکتا؛بلکہ وہ اور زیادہ قوی ہوگا، مجھ کو یقین کامل ہے کہ اسلام آفتاب وماہتاب کی طرح ساری دنیا میں پھیلے گا، اورسارے عالم کو منور کریگا یاد رکھو جس شخص نے دائرہ اسلام سے باہر قدم رکھنے کا ارادہ کیا اس کی گردن اڑاددوں گا۔ سہیل کی اس مؤثر،دلپذیر اورپرجوش تقریر نے مذبذ بین کے دلوں کو پھر اسلام پر راسخ کر دیا، اورمرکزِ اسلام (مکہ) فتنۂ ارتداد کی وبا سے بچ گیا، اس طرح آنحضرتﷺ کی اس پیشنگوئی کی تصدیق ہو گئی کہ ممکن ہے سہیل سے کبھی پسندیدہ فعل کا ظہور ہو۔ فتنۂ ارتداد کے فرو کرنے میں ان کے گھر بھر نے بلیغ کوشش کی؛چنانچہ یمامہ کی مشہور جنگ میں سہیل کے بڑے صاحبزادے عبد اللہ شہید ہوئے، حضرت ابوبکرؓ جب حج کے لیے تشریف لے گئے تو سہیل کے پاس تغریت کے لیے ان کے گھر گئے،انھوں نے کہا میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے کہ شہید اپنے ستر اہل خاندان کی شفاعت کرے گا، مجھ کو امید ہے کہ میری سب سے پہلے شفاعت کی جائے گی۔
شام کی فوج کشی
ترمیمشام کی فوج کشی کے سلسلہ میں جب حضرت عمرؓ نے تمام ممتاز افراد کو جمع کیا، تو شیوخ قریش بھی آئے، حضرت عمرؓ سب کو درجہ بدرجہ بلاتے تھے اور گفتگو کرتے تھے؛چنانچہ سب سے اول متقدمین فی الاسلام مہاجرین اولین کو بلایا اورصہیب،بلال،عمار بن یاسر کو اور دوسرے بدری صحابہ کو شرفِ بار یابی بخشا،ابو سفیان کی رعونت پر یہ تقدم بہت گراں گذرا، انھوں نے کہا، آج تک کبھی ایسا نہیں ہوا، ان غلاموں کو اندر بلایا جاتا ہے اورہم لوگ دروازہ پر بیٹھے ہوئے ہیں،ہماری طرف کوئی توجہ نہیں کی جاتی ،ابو سفیان کی اس بے جانخوت پر سہیل کی حق پسندزبان نے طنزاً کہا، تم لوگ بھی کس قدر عقلمند ہو!تمھارے چہروں پر یہ برہمی کے آثار کیوں ہیں؟ اگر تم کو غصہ کرنا ہے،تو خود اپنے اوپر کرو ان کو اورہماری قوم کو اسلام کی یکساں دعوت دی گئی،ان لوگوں نے اس کے قبول کرنے میں سبقت کی اور تم نے تاخیر کی،خدا کی قسم جس فضل میں وہ تم سے بازی لے گئے وہ باریابی میں تقدم سے جس کے لیے تم بگڑ رہے ہو کہیں زیادہ تمھارے لیے سخت اورتکلیف دہ ہونا چاہیے، تم کو معلوم ہے کہ یہ لوگ تم پر سبقت لے گئے اوراب اس کی تلافی کی تمھارے لیے کوئی سبیل باقی نہیں ہے، اس لیے اب تم کو جہاد کا یہ موقع نہ کھونا چاہیے،اس میں شریک ہو شاید خدا تم کو جہاد کی شرکت اورشہادت کا شرف عطا فرمائے، یہ سچی اورحقیقت آمیز باتیں کہہ کر دامن جھاڑا اورجہاد میں شریک ہو گئے[4] اس سلسلہ کی مشہور جنگ یرموک میں فوج کے ایک دستہ کے افسر تھے۔[5]
وفات
ترمیمسعد بن فضالہ جو شام کے جہاد میں سہیل کے ساتھ تھے بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ سہیل نے کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے کہ خدا کی راہ میں ایک گھڑی صرف کرنا گھر کے تمام عمر کے اعمال سے بہتر ہے، اس لیے اب میں شام کا جہاد چھوڑ کر گھر نہ جاؤں گا اور یہیں جان دونگا، اس عہد پر اس سختی سے قائم رہے کہ طاعون عمواس میں بھی نہ ہٹے اور 18ھ میں اسی وبا میں شام کے غربت کدہ میں جان دی۔[3]
تلافی مافات
ترمیمجیسا کہ ناظرین کو سہیل کے ابتدائی حالات سے اندازہ ہوا ہوگا کہ ان کی قبول اسلام سے پہلے کی زندگی کا پورا صفحہ سواد معصیت سے سیاہ تھے، اسلام کی مخالفت ،آنحضرتﷺ پر ناپاک حملے، مسلمانوں کی ایذا رسانی وغیرہ کوئی ایسا عنادنہ تھا، جو انھوں نے اسلام کے خلاف نہ ظاہر کیا ہو، اس لیے قبولِ اسلام کے بعد ہم تن تلافی مافات میں منہمک ہو گئے؛چنانچہ جس قدر مال و دولت وہ مشرکین کی حمایت اوراسلام کی مخالفت میں صرف کرچکے تھے، اس قدر اسلام کی راہ میں صرف کیا اورجس قدر لڑائیاں کفر کی حمایت میں لڑی تھیں اتنے ہی جہاد خدا کی راہ میں گئے،(اصابہ:3/146) پھر اپنے پورے گھر کو لے کر شام کے جہاد میں شریک ہوئے اورلڑکی اورایک پوتی کے علاوہ تمام اولادوں کو اسلام پر فدا کر دیا۔ [6] یہ حسن تلافی کا ایک منظر(جہاد فی سبیل اللہ ہے اسی طرح سہیل کی پیشانی مدتوں اصنام مکہ کے سامنے سجدہ ریز رہ چکی تھی اس کی تلافی کے لیے خدائے قدوس کے آستانہ پر اسی قدر جبین سائی کرنی تھی؛چنانچہ قبولِ اسلام کے بعد وہ ہمہ تن عبادت وریاضت کی طرف متوجہ ہو گئے،علامہ ابن عبد البر لکھتے ہیں کہ سہیل بن عمرو اسلام کے بعد بکثرت نمازیں پڑہتے تھے ،روزے رکھتے تھے اور صدقات دیتے تھے (ایضاً)صاحب اسد الغابہ کا بیان ہے، ان روسائے قریش میں جو بالکل آخر یعنی فتح مکہ میں مشرف باسلام ہوئے،سہیل بن عمرو سے زیادہ نمازیں پڑہنے والا، روزہ رکھنے والا، صدقہ دینے والا اور آخرت کے دوسرے اعمال میں تند ہی کرنے والا کوئی نہ تھا، شدت ریاضت سے سوکھ کر کانٹا ہو گئے تھے،رنگ روپ بدل گیا تھا، اکثر رویا کرتے تھے، بالخصوص قرآن کی تلاوت کے وقت بہت گریہ طاری رہتا تھا، مشہور فاضل صحابی حضرت معاذ بن جبلؓ سے قرآن کی تعلیم حاصل کرنے جاتے تھے اورآنکھوں سے آنسوؤں کا دریا بہتا رہتا تھا۔ [7]
جاہلی عصبیت سے نفرت
ترمیمجاہلیت کے تمام جذبات بالکل فنا ہو گئے تھے ،ان کے دورانِ تعلیم میں معاذ بن جبل مکہ سے چلے گئے ،لیکن انھوں نے تعلیم کا سلسلہ ترک نہ کیا، اورمعاذ کے پاس جاکر پڑہتے تھے، ایک دن ضرار بن ازورنے کہا تم اس خزرجی کے پاس کیوں قرآن پڑہنے جاتے ہو؟ اپنے خاندان کے کسی آدمی سے کیوں نہیں پڑہتے، یہ متعصبانہ اعتراض سن کر سہیل نے جواب دیا، ضرار اسی تعصب نے ہماری یہ گت بنائی ہے اور دوسرے ہم سے کتنا بڑھ گئے،خدا کی قسم میں ضرور معاذ کے پاس جایا کروں گا، اسلام نے جاہلیت کے تمام تعصبات اورامتیازات مٹادیئے اوراسلام کے شرف کی وجہ سے خدانے ان قبائل کو جو جاہلیت میں بالکل ہیچ تھے بلند مرتبہ کر دیا، کاش ہم نے ان کا ساتھ دیا ہوتا، تو آج ہم بھی آگے ہوتے میں تو اپنے گھرانے کے مردوں عورتوں ؛بلکہ اپنے غلام عمیر ؓبن عوف تک کے تقدم فی الاسلام کے شرف پر خوش ہوتا ہوں، اورخدا کا شکر ادا کرتا ہوں، اوریقین رکھتا ہوں کہ انھی لوگوں کی دعاؤں نے مجھے فائدہ پہنچایا ورنہ میں بھی اپنے دوسرے ہمعصروں کی طرح جو اسلام کے خلاف لڑائیوں میں مارے گئے، ہلاک ہو گیا ہوتا، میں بدر، احد اورخندق میں معاندانہ شریک ہوا، معاہدۂ حدیبیہ میں نے ہی لکھوایا تھا، ضرار جب میں حدیبیہ کے معاہدہ میں رسول اللہ ﷺ کی بات کو بار بار رد کرنے اورباطل پر اڑنے کو یاد کرتا ہوں، تو مجھے رسول اللہ ﷺ سے شرم معلوم ہوتی ہے۔[8]