ابو مسلم اصفہانی
امام ابو مسلم اصفہانی عربی زبان میں جب بھی فصاحت و بلاغت اور ادیبانہ طرز تحریر کی بات ہو گی تو ابومسلم اصفہانی کو فراموش نہیں کیا جا سکے گا۔امام ابو مسلم مفسر قرآن ہونے کے ساتھ ساتھ بلند پایہ ادیب اور مفکر تھے۔علامہ ذہبی نے ان کا اسم محمد بن علی بن مہریز لکھا ،کنیت ابو مسلم اور علاقے کی نسبت سے اصفہانی کہلائے۔
ابو مسلم اصفہانی | |
---|---|
(عربی میں: محمد بن بَحْر المعتزلي) | |
معلومات شخصیت | |
پیدائش | سنہ 868ء اصفہان |
وفات | سنہ 934ء (65–66 سال) بغداد |
عملی زندگی | |
پیشہ | شاعر ، مفسر |
درستی - ترمیم |
متقدمین و متاخرین کی نظر میں
ترمیمآپ علوم دینیہ میں مہارت تامہ رکھنے کے ساتھ ساتھ انتظامی امور میں بھی اثرورسوخ رکھتے تھے۔ آپ اپنے کام کو بڑی خوبی اور احسن انداز میں سر انجام دیتے۔
- اسی وجہ سے خلیفہ مقتدر نے آپ کو فارس میں اپنا نائب مقرر کیا تھا۔ آپ اپنا کام حسن خوبی سے کر کے خلیفہ کو خبر کرتے اور خلیفہ کی نگاہ میں آپ کی بڑی قدرو قیمت تھی
- 300ھ میں ابن ابی البغل نے آپ کو مالیات اور اراضی کا ناظم بھی مقرر کیا
- ابن الندیم نے اپنی الفہرست میں آپ کو "كاتباً بليغاً مترسلاً جدلاً متكلماً معتزلياً" (ترجمہ :بلند پایہ ادیب اور متکلم) جیسے الفاظ سے یاد کیا ہے[1]
- امام فخرالدین الرازی نے اپنی تفسیر میں جابجا آپ کے تفسیری اقوال نقل کیے ہین۔
- الشیخ الخطیب الشربینی نے اپنی تفسیر میں ان کے اقوال کو نقل کیا[2]
- دور حاضر کے مفتی اعظم پاکستان پروفیسر مفتی منیب الرحمان الازہری کے بقول
اس دور کے امام المفسرین علامہ غلام رسول سعیدی صاحب نے اپنی دوسری تفسیر تبیان الفرقان میں جہاں امام رازی کی تفسیر سے استفادہ کیا ہے وہاں امام ابو مسلم کے تفسیری اقوال بھی نقل کیے ہیں۔
کتابیات
ترمیمآپ نے متعدد کتابیں بھی لکھیں جن میں آپ کی مشہور تفسیر جامع التاویل المحکم التنزیل ہے۔لیکن افسوس آج دنیا بلند پایا تفسیر سے محروم ہے۔لیکن اس تفسیر کے درخشندہ پہلو دوسری تفاسیر میں موجود ہیں۔اس کی ایک وجہ یہ ہے امام ابومسلم عقاید کے اعتبار سے معتزلی تھے۔ان کا رد کرنے کے لیے اور بعض جگہ فصاحت کی کے اعتبار سے ان کی تفسیر سے استفادہ کیا جاتا رہا اصل کا پتا نہیں البتہ اقوال دوسری تفاسیر میں بکھرے ملتے ہیں۔ جتنے بھی معتزلی گذرے ہیں سبھی فصاحت و بلاغت اور اعلیٰ درجہ کے ادیب تھے۔ جن میں جاحظ کا نام نمایا طور پر شامل،اور تفسیر کشاف اس کا منہ بولتا ثبوت ہے۔اس کا اندازہ یہاں سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ امام فخر الدین رازی نے اپنی تفسیر میں جابجا امام ابو مسلم کے اقوال نقل کیے ہیں اور بعض جگہ ان رجحان ان کی طرف نظر آتا ہے۔اس کا اندازہ اس سے بھی ہوتا ہے دور حاضر کے علامہ غلام رسول سعیدی صاحب نے جہاں امام رازی کی تفسیر سے استفادہ کیا اس میں امام ابو مسلم کے اقوال جابجا ملتے ہیں اور یہاں تک کہ الشیخ الخطیب الشربینی کی تفسیر السراج المنیر میں بھی اقوال موجود ہیں اور علامہ سعیدی نے الشیخ کی تفسیر سے بھی استفادہ کیا ہے۔کتاب الناسخ والمنسوخ بھی امام ابو مسلم کی یادگارتصانیف میں سے ایک ہے۔ اس کے علاوہ النحو اور جامع رسائلہ جیسی بلند پایہ کتب کے نام ملتے ہیں۔
مجموعہ تفسیر ابو مسلم اصفہانی
ترمیمآپ کی تفسیر اور دیگر کتب موجود تو نہیں لیکن التفسیر الکبیر میں ان کے اقوال جگہ جگہ ملتے ہیں انہی اقوال کو جمع کر کے ایک کتاب تفسیر ابو مسلم کے نام سے بیروت سے شائع ہوئ۔ لیکن پاکستان میں ادارہ ثقافت اسلامیہ کے تحت امام رازی کی تفسیر سے اقوال اکٹھے کر کے مجموعہ تفسیر ابومسلم اصفہانی کے نام سے 2018 میں شائع ہوا۔ اس میں آپ کے تمام تفسیری اقوال کو جمع کر دیا گیا ہے۔یہ تفسیر یا اقوال حتمی نہیں بلکہ اپنے اسلاف کی گمشدہ میراث کے چند درخشندہ موتی ہیں کوئی چن کر نیا تحقیقی کام کرسکے۔[1]
خصوصیات
ترمیمعربی زبان و ادب ہو یا فصاحت و بلاغت کا میدان ،متکلمین کے متکلمانہ انداز ہو یا حکماء کی گفتگو ہو نحو کا مسئلہ ہو یا اعلیٰ درجے کے منتظم کی بات سب خوبیون میں امام اصفہانی گل نایاب کی طرح ہمیشہ یاد کیے جاتے رہین گے۔ آپ بیک وقت امام، مفسر متکلم، نحوی، ادیب، مفکر و مدبر تھے اور انہی القابات کے ساتھ یاد کیا جاتا رہے گا۔آپ وہ پہلے شخص ہیں جنھوں نے قرآن میں ناسخ ومنسوخ ہونے کا اقرار کیا اور تاویل سے اپنی بات کو منوایا۔لیکن کتابین ناپید ہونے کی وجہ سے عظیم ذخیرہ علم سے ہم محروم ہیں۔
وفات
ترمیمآپ کی کوئی تصنیف باقی نہیں ہے لیکن آپ نے بعد میں آنے والوں کے لیے اپنے آپ کو درخشندہ ستارہ چھوڑ کر گئے۔ آخر آپ اس جہان فانی سے 322ھ میں لقمہ اجل ہوئے۔