احمد راہی
احمد راہی : پیدائش 13 نومبر 1923ء، پنجابی شاعر، فلمی کہانی نویس اور نغمہ نگار، پاکستان کی پنجابی فلموں میں اپنی خدمات دیں، بطور کہانی نویس ان کی یادگار فلموں میں مرزا جٹ، ہیر رانجھا، ناجو، گُڈو، اُچّا شملہ جٹ دا مشہور ہے اس کے علاوہ فلم شہری بابو، ماہی مُنڈا، یکے والی، چھومنتر، الہ دین کا بیٹا، مٹی دیاں مورتاں، باجی، سسی پنوں اور بازارِ حسن نامی فلموں کے گیت لکھے۔[1]
احمد راہی | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائش | 12 نومبر 1923ء امرتسر |
وفات | 2 ستمبر 2002ء (79 سال) لاہور |
عملی زندگی | |
پیشہ | غنائی شاعر ، نغمہ نگار ، منظر نویس ، شاعر ، مصنف |
پیشہ ورانہ زبان | پنجابی |
اعزازات | |
درستی - ترمیم |
ابتدائی زندگی
ترمیمفلمی کہانی نویس اور نغمہ نگار۔ جدید پنجابی ادب کے ایک بہت ہی اہم شاعر۔ احمد راہی کا تعلق امرتسر کے ایک کشمیری خاندان سے تھا جو آزادی کے بعد ہجرت کر کے لاہور آ گیا۔
فنی زندگی
ترمیمامرتسر میں ہی انھوں میں مشہور افسانہ نگار سعادت حسن منٹو، شاعر سیف الدین سیف، کہانی نگار اے حمید کی صحبت میں رہتے ہوئے ادب میں دلچسپی لینا شروع کردی لیکن لاہور کے ادبی ماحول میں اس میں مزید نکھار آیا۔
لاہور آمد پر انھیں ترقی پسند ادبی مجلے ’سویرا‘ کا مدیر بنا دیا گیا۔ لیکن جب ترق پسند ادیبوں کے خلاف حکومتی کارروائیوں میں تیزی آئی تو انھوں نے فلمی دنیا کا رخ کیا۔
فلمی دنیا
ترمیماحمد راہی نے اپنے فلمی کیرئیر کا آغاز پنجابی فلم ’بیلی‘ سے کیا جو تقسیم کے وقت ہونے والے فسادات کے پس منظر میں بنائی گئی تھی۔ اس فلم کی کہانی مشہور افسانہ نگار سعادت حسن منٹو نے لکھی جبکہ ہدایات دی تھیں مسعود پرویز نے۔ انھوں نے مسعود پرویز اور خواجہ خورشید انور کی مشہور پنجابی فلم ’ہیر رانجھا‘ کے لیے بھی نغمات لکھے جن میں ’سن ونجھلی دی مٹھڑی تان‘ اور ’ونجھلی والڑیا توں تے موہ لئی اے مٹیار‘ آج بھی اپنا جادو جگاتے ہیں -انھوں نے فلمی حلقوں میں بھی اپنا ایک خاص مقام بنایا اور ان کے لکھے ہوئی گانوں میں بھی لوگوں کو لوک شعری اور ادب کا رنگ دیکھنے کو ملا۔
پنجابی فلمی شاعری کے لیے ان کی خدمات ویسی ہی ہیں جیسی ساحر لدھیانوی اور قتیل شفائی کی اردو فلموں کے لیے ہیں۔ انھوں نے اردو فلموں کے لیے بھی منظر نامہ، مکالمے اور گانے لکھے۔ ان کی مشہور اردو فلموں میں ’یکے والی‘ خاص طور پر قابل ذکر ہے۔
پنجابی ادب
ترمیمپنجابی ادب میں ان کا سب سے بڑا کارنامہ ان کا نظموں کا مجموعہ ’ترنجن‘ ہے جو 1952ء میں شائع ہوا۔ اس وقت تک پنجابی کے بارے میں عام تاثر یہ تھا کہ نازک احساسات اور جذبات کے اظہار کے لیے یہ زبان موزوں نہیں ہے لیکن احمد راہی ترنجن کے ذریعے اس تاثر کو زائل کرنے میں کامیاب رہے۔
ترنجن کی نظموں میں تقسیم ہند کے وقت ہونے والے ہندومسلم فسادات میں عورتوں کے ساتھ جنسی زیادتی کو بڑے شاعرانہ طریقے سے پیش کیا گیا ہے :
ناں کوئی سہریاں والا آیا
تے ناں ویراں ڈولی ٹوری
جس دے ہتھ جد ی بانہہ آئی
لے گیا زور و زوری
(نہ کوئی سہرے والا آیا، نہ بھائیوں نے ڈولی اٹھائی، جس کے ہاتھ جو لگی وہ اسے زبردستی لے گیا)
اس مجموعے کا فلیپ سعادت حسن منٹو نے احمد راہی کی فرمائیش پر پنجابی میں لکھا اور یہی سعادت حسن منٹو کی اکلوتی پنجابی تحریر بھی ثابت ہوئی۔ لاہور میں ان کا انتقال ہوا۔