ساحر لدھیانوی

بھارتی شاعر

ترقی پسند تحریک سے تعلق رکھنے والے مشہور شاعر۔ 8 مارچ 1921ء کو لدھیانہ پنجاب میں پیدا ہوئے۔ خالصہ اسکول سے ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ گورنمنٹ کالج لدھیانہ سے میں داخلہ لیا۔ کالج کے زمانے سے ہی انھوں نے شاعری کا آغاز کر دیا۔ امرتا پریتم کے عشق میں کالج سے نکالے گئے اور لاہور آ گئے۔ یہاں ترقی پسند نظریات کی بدولت قیام پاکستان کے بعد 1949ء میں ان کے خلاف وارنٹ جاری ہوئے جس کے بعد وہ ہندوستان چلے گئے۔

عبد الحئی
 

معلومات شخصیت
پیدائشی نام عبدالحیی
پیدائش 8 مارچ 1921ء
لدھیانہ، پنجاب، برطانوی ہندوستان
وفات 25 اکتوبر 1980ء
ممبئی   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وجہ وفات دورۂ قلب   ویکی ڈیٹا پر (P509) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
طرز وفات طبعی موت   ویکی ڈیٹا پر (P1196) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت بھارت (26 جنوری 1950–)
برطانوی ہند (–14 اگست 1947)
ڈومنین بھارت (15 اگست 1947–26 جنوری 1950)  ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مذہب اسلام
عملی زندگی
مادر علمی گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور   ویکی ڈیٹا پر (P69) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ادب سے وابستگی، فلمی شاعری، ترقی پسند شاعری
پیشہ ورانہ زبان اردو [1]  ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تحریک ترقی پسند تحریک   ویکی ڈیٹا پر (P135) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اعزازات
فلم فیئر اعزاز برائے بہترین غنائی شاعر (برائے:کبھی کبھی میرے دل میں ) (1977)
فلم فیئر اعزاز برائے بہترین غنائی شاعر (1964)
 پدم شری اعزاز برائے ادب و تعلیم    ویکی ڈیٹا پر (P166) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
IMDB پر صفحات[2]  ویکی ڈیٹا پر (P345) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
باب ادب

ہندوستان آمد

ترمیم

ہندوستان میں وہ سیدھے بمبئی میں وارد ہوئے۔ ان کا قول مشہور ہے کہ بمبئی کو میری ضرورت ہے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اس دور میں ساحر اور دوسرے ترقی پسند شعرا نے بھانپ لیا تھا کہ فلم ایک ایسا میڈیم ہے جس کے ذریعے اپنی بات عوام تک جس قوت اور شدت سے پہنچائی جا سکتی ہے، وہ کسی اور میڈیم میں ممکن نہیں ہے۔ چناں چہ ہم کہہ سکتے ہیں کہ ساحر ایک مشن کے تحت بمبئی گئے اگرچہ 1949ء میں ان کی پہلی فلم "آزادی کی راہ پر" قابلِ اعتنا نہ ٹھہری، لیکن موسیقار سچن دیو برمن کے ساتھ 1950ء میں فلم "نوجوان" میں ان کے لکھے ہوئے نغموں کو ایسی مقبولیت نصیب ہوئی کہ آپ آج بھی آل انڈیا ریڈیو سے انھیں سن سکتے ہیں۔ ان میں سے ایک گانے "ٹھنڈی ہوائیں" کی دھن تو ایسی ہٹ ہوئی کہ عرصے تک اس کی نقل ہوتی رہی۔

فلمی گیت

ترمیم

پہلے تو موسیقار روشن نے 1954ء میں فلم "چاندنی چوک" میں اس دھن پر ہاتھ صاف کیا، پھر اس سے تسلی نہ ہوئی تو 1960ء میں "ممتا" فلم میں اسی طرز میں ایک اور گانا بنا ڈالا۔ جب دوسروں کا یہ حال ہو تو بیٹا کسی سے کیوں پیچھے رہتا، چناں چہ آر ڈی برمن نے 1970ء میں "ٹھنڈی ہوائیں" سے استفادہ کرتے ہوئے ایک اور گانا بنا ڈالا۔ فلم نوجوان کے بعد ایس ڈی برمن اور ساحر کی شراکت پکی ہو گئی اور اس جوڑی نے یکے بعد دیگرے کئی فلموں میں کام کیا جو آج بھی یادگار ہے۔ ان فلموں میں "بازی"، "جال"،"ٹیکسی ڈرائیور"، "ہاؤس نمبر 44"،"منیم جی" اور "پیاسا" وغیرہ شامل ہیں۔ ساحر کی دوسری سب سے تخلیقی شراکت روشن کے ساتھ تھی اور ان دونوں نے "چترلیکھا"، "بہو بیگم"، "دل ہی تو ہے"، "برسات کی رات"، "تاج محل"، "بابر"اور "بھیگی رات" جیسی فلموں میں جادو جگایا۔ روشن اور ایس ڈی برمن کے علاوہ ساحر نے او پی نیر، این دتا، خیام، روی، مدن موہن، جے دیو اور کئی دوسرے موسیقاروں کے ساتھ بھی کام کیا ہے۔

ترقی پسند سوچ

ترمیم

ساحر کے علاوہ بھی کئی اچھے شاعروں نے فلمی دنیا میں اپنے فن کا جادو جگایا، لیکن ساحر کے علاوہ کسی اور کو اتنی مقبولیت حاصل نہیں ہوئی۔ اور اس کی بنیادی وجہ وہی ہے جو ان کی ادبی شاعری کی مقبولیت کی ہے، یعنی شاعری عوامی لیکن ادبی تقاضوں کو مدِنظر رکھتے ہوئے۔ ایک زمانے میں اردو ادب میں بڑے لیکن ترقی پسند شاعر اس بات کے قائل نہیں تھے بلکہ وہ شاعری کے ذریعے معاشرے میں انقلاب بپا کرنا چاہتے تھے۔ ترقی پسند شعرا کی جوق در جوق فلمی دنیا سے وابستگی ان کی عوام تک پہنچنے کی اسی خواہش کی آئینہ دار تھی۔ یہی وجہ تھی کہ ساحر فلمی دنیا میں اپنی آئیڈیالوجی ساتھ لے کر آئے اور دوسرے ترقی پسندنغمہ نگاروں کے مقابلے میں انھیں اپنی آئیڈیالوجی کو عوام تک پہنچانے کے مواقع بھی زیادہ ملے، جس کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ انھوں نے جن فلم سازوں کے ساتھ زیادہ کام کیا وہ خود ترقی پسندانہ خیالات کے مالک تھے۔ اس سلسلے میں گرودت، بی آر چوپڑا اور یش راج چوپڑا کی مثالیں دی جا سکتی ہیں۔ میں صرف ایک مثال دوں گا۔

مقبول شاعر

ترمیم

ساحر کتنے بااثر فلمی شاعر تھے، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ انھوں نے کم از کم دو ایسی انتہائی مشہور فلموں کے گانے لکھے جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کی کہانی ساحر کی اپنی زندگی سے ماخوذ تھی۔ ان میں گرودت کی پیاسا اور یش راج کی کبھی کبھی شامل ہیں۔ پیاسا کے گانے تو درجہ اول کی شاعری کے زمرے میں آتے ہیں:
یہ محلوں یہ تختوں یہ تاجوں کی دنیا
یہ انساں کے دشمن سماجوں کی دنیا
یہ دنیا اگر مل بھی جائے تو کیا ہے
اور یہ گانا
جانے وہ کیسے لوگ تھے جن کے پیار کو پیار ملا
اسی طرح کبھی کبھی میں "کبھی کبھی میرے دل میں یہ خیال آتا ہے" کے علاوہ "میں پل دو پل کا شاعر ہوں" ایسے گانے ہیں جو صرف ساحر ہی لکھ سکتے تھے۔ ظاہر ہے کہ کسی اور فلمی شاعر کو یہ چھوٹ نہیں ملی کہ وہ اپنے حالاتِ زندگی پر مبنی نغمے لکھے۔

تصانیف

ترمیم
  1. تلخیاں
  2. تنہائیاں

بی گریڈ موسیقار

ترمیم

بعد میں انھوں نے کئی بی گریڈ موسیقاروں کے ساتھ کام کیا، جن میں ٰخیام کے علاوہ روی، این دتا اور جے دیو شامل ہیں۔ اور ان درجہ دوم کے موسیقاروں کے ساتھ بھی ساحر نے کئی لافانی نغمے تخلیق کیے، جیسے روی کے ساتھ "ملتی ہے زندگی میں محبت کبھی کبھی"، "نیلے گگن کے تلے"، "چھو لینے دو نازک ہونٹوں کو"وغیرہ، این دتا کے ساتھ "میں نے چاند اور ستاروں کی تمنا کی تھی"، "میں جب بھی اکیلی ہوتی ہوں" اور "دامن میں داغ لگا بیٹھے"، وغیرہ اور جے دیو کے ساتھ "ابھی نہ جاؤ چھوڑ کر کہ دل ابھی بھرا نہیں"،"میں زندگی کا ساتھ نبھاتا چلا گیا"، "رات بھی ہے کچھ بھیگی بھیگی" وغیرہ شامل ہیں۔

مجروح شکیل بدایونی اور ساحر

ترمیم

ساحر اور مجروح سلطان پوری کا نام اکثر ساتھ ساتھ لیا جاتا ہے، لیکن میرے خیال سے دونوں شعرا کا پس منظر ایک جیسا ہونے کے باوجود ساحر مجروح سے کہیں بہتر فلمی شاعر تھے۔ مجروح کی فلمی نغمہ نگاری اکثر کھوکھلی نظر آتی ہے، وہ شاعری کے ادبی پہلو سے مکمل انصاف نہیں کر پاتے۔ جو کام ساحر بہت سہولت سے کر گزرتے ہیں، وہاں اکثر اکثر مجروح کی سانس قدم اکھڑنے لگتی ہے۔ مجروح کی فلمی بولوں کی ایک نمایاں بات یہ ہے کہ وہ سننے میں بہت بھلے لگتے ہیں لیکن جوں ہی کاغذ پر لکھے جائیں، ان میں عیب نظر آنے لگتے ہیں۔ اس کے مقابلے پر ساحر کی فلمی شاعری کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ نک سک سے درست اور عام طور پر ادبی لحاظ سے بے عیب ہوتی ہے۔ حتیٰ کہ کاغذ پر لکھنے کے معیار پر بھی پورا اترتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کسی اور فلمی گیت نگار کے گیتوں کے اتنے ایڈیشن نہیں چھپے جتنے ساحر کے "گاتا جائے بنجارا" اور "گیت گاتا چل" کے ۔

ایک اور فلمی شاعر شکیل بدایونی ہیں جن کا نام ساحر کے ساتھ لیا جاتا ہے۔ لیکن دونوں کا کوئی مقابلہ نہیں۔ شکیل کے ہاں بعض جگہ عروض کی غلطیاں بھی نظر آتی ہیں، مثال کے طور پر وہ لفظ "نہ" کو بر وزنِ "نا" بھی باندھ جاتے ہیں، جو عروض کے اعتبار سے غلط ہے۔ اس کے علاوہ شکیل کے ہاں زبان و بیان کی کوئی تازگی نظر نہیں آتی، وہی لگی بندھی تشبیہات، پامال استعارات اور استعمال شدہ ترکیبوں کی بھرمار شکیل کا خاصہ ہے۔

حوالہ جات

ترمیم
  1. عنوان : Identifiants et Référentiels — ایس یو ڈی او سی اتھارٹیز: https://www.idref.fr/061084778 — اخذ شدہ بتاریخ: 11 مئی 2020
  2. میوزک برینز آرٹسٹ آئی ڈی: https://musicbrainz.org/artist/5e73f6d4-766f-4ab6-9a42-f660ea831432 — اخذ شدہ بتاریخ: 6 ستمبر 2021

بیرونی روابط

ترمیم