اختر شیرانی
اختر شیرانی اردو شاعر، محمد داود خان نام ٹونک (راجپوتانہ) میں پیدا ہوئے۔ تمام عمر لاہور میں گذری۔ والد پروفیسر حافظ محمود خان شیرانی اورینٹل کالج لاہور میں فارسی کے استاد تھے۔ اختر کو بچپن سے ہی شاعری کا شوق تھا۔ منشی فاضل کا امتحان پاس کیا لیکن والد کی کوشش کے باوجود کوئی اور امتحان پاس نہ کر سکے اور شعروشاعری کو مستقل مشغلہ بنا لیا۔ ہمایون اور سہیلی کی ادارت کے بعد رسالہ انقلاب پھر خیالستان نکالا اور پھر رومان جاری کیا۔ شاہکار کی ادارت بھی کی۔ اردو شاعری میں اختر پہلا رومانی شاعر ہے جس نے اپنی شاعری میں عورت سے خطاب کیا۔ عالم جوانی میں ہی اختر کو شراب نوشی کی لت پڑ چکی تھی، جو آخر کار جان لیوا ثابت ہوئی۔ لاہور میں انتقال ہوا اور میانی صاحب میں دفن ہوئے۔
اختر شیرانی | |
---|---|
فائل:Aktarshirani.JPG | |
پیدائش | محمد داؤاد خان 4 مئی 1905[1] ٹونک، راجستھان، برطانوی ہند |
وفات | 9 ستمبر 1948[1] لاہور، پاکستان | (عمر 43 سال)
قلمی نام | اختر شیرانی |
پیشہ | شاعری |
قومیت | افغان |
شہریت | پاکستان |
دور | 1905–1948 |
اصناف | نظم اور غزل |
ادبی تحریک | شاعری میں نئی جہت کی بنیاد رکھی |
اولاد | پروفیسر مظہر محمود شیرانی، مینا شیرانی |
رشتہ دار | حافظ محمود شیرانی (والد) |
غزل گوئی
ترمیماختر شیرانی کو رومانی نظم نگار کی حیثیت سے شہرت حاصل ہوئی لیکن ان کے شعری مجموعوں میں غزلوں کی کمی نہیں۔ اگر چند رباعیوں اور کچھ ماہییوں کو نظر انداز کر دیا جائے تو ان کا شعری مجموعہ "طیور آوارہ" صرف غزلوں پر مشتمل ہے۔ "شہناز" اور "شہزدو" میں بھی قابل ذکر تعداد میں غزلیات موجود ہیں۔ اختر شیرانی کی غزلوں میں روایتی مضامین جابجا دکھائی دیتے ہیں اور بیشتر نظموں میں باندھے گئے مضامین بھی غزلوں میں در آتے ہیں۔ ان کی غزلوں کا نمایاں حصہ خمریات سے ملمز ہے۔ اس نوعیت کے دو شعر ملاحظہ ہوں۔
” | دو چاند ہیں پہلو میں ، اب چاند کہیں کس کو
ساقی کو اگر کہیے ، پیمانے کو کیا کہیے |
“ |
” | میکدہ میں اب بھی ذکر آتاہے مے نوشی کے وقت
کیا خبر تھی ، اخترؔ اتنا پارسا ہوجائے گا |
“ |
مزید دیکھیے
ترمیمحوالہ جات
ترمیمبیرونی روابط
ترمیم- اختر شیرانی: شاعر محبت
- اختر شیرانی: اردو تعارف، اخذ کردہ بتاریخ 19 اکتوبر 2016ء
- شہاب نامہ از قدرت اللہ شہاب