ادیب الحسن رضوی معروف بہ ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی پاکستان کے ایک طبیب ہیں جو سندھ انسٹیٹیوٹ آف یورالوجی اینڈ ٹرانسپلانٹیشن کے سربراہ ہیں۔ یہ ادارہ مفت گردوں کی پیوندکاری اور ڈائلیسس کرتا ہے۔ جبکہ 2003ء میں جگر کے ٹرانسپلانٹ کا کام بھی اس ادارے میں متعارف کیا گیا۔ اس ادارے میں ہر سال دس لاکھ سے زائد مریض ایس آئی یو ٹی کی سہولتوں سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔

ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی
پیدائش11 ستمبر 1938(1938-09-11)ء
کلن پور ، اتر پردیش، برطانوی ہند
قلمی نامادیب الحسن رضوی
پیشہماہر طب
زباناردو
شہریتپاکستان کا پرچمپاکستانی
اصنافطب
ویب سائٹ
http://www.siut.org/

حالاتِ زندگی ترمیم

ڈاکٹر ادیب نے 11 ستمبر 1938 میں کلن پور، اترپردیش، برطانوی ہند میں پیدا ہوئے[1] ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی نے ڈاؤ میڈیکل کالج سے ایم بی بی ایس کیا۔ وہ سرجری کی اعلیٰ تعلیم کے لیے برطانیہ گئے۔ ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی نے برطانیہ سے واپسی پر سول اسپتال کراچی میں ملازمت اختیار کی۔

ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی کی خدمات ترمیم

ڈاکٹر ادیب نے طب کے شعبے میں گردوں کے علاج کے لیے بہت گراں قدرخدمات انجام دی ہیں۔ ڈاکٹر ادیب الحسن نے سندھ انسٹیٹیوٹ آف یورالوجی اینڈ ٹرانسپلانٹیشن کی بنیاد رکھی۔ ڈاکٹر ادیب الحسن نے جب سول ہسپتال میں ملازمت اختیار کی تو گردے کے علاج کے لیے 8بستروں کے وارڈ سے ایک نئے مشن کا آغاز کیا۔ انھوں نے اپنے ساتھ اپنے نوجوان ڈاکٹروں کی ٹیم جمع کی جن کا مقصد ایک چھوٹے سے وارڈ کو عظیم الشان میڈیکل کمپلیکس میں تبدیل کرنا اور ہر مریض کا اس کی عزت نفس مجروح کیے بغیر علاج کرنا تھا۔ یوں آج سرکاری شعبے میں قائم سندھ انسٹی ٹیوٹ آف نیورولاجی اور ٹرانسپلانٹیشن کا شمار دنیا کے اعلیٰ میڈیکل انسٹی ٹیوٹس میں ہوتا ہے۔ ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی نے انسٹی ٹیوٹ کے قیام کے لیے محض سرکاری گرانٹ پر ہی تکیہ نہیں کیا بلکہ نجی شعبے کو بھی اپنے مشن میں شریک کیا۔ یوں سرکاری ادارے میں بغیر کسی فائدے کے نجی شعبے کے عطیات کا ایک ایسا سلسلہ شروع ہوا کہ پوری دنیا میں اپنی مثال آپ ہے۔ معروف سرمایہ کارگھرانے دیوان گروپ کی مالیاتی مدد سے دیوان فاروق میڈیکل کمپلیکس تعمیر ہوا۔ اس میڈیکل کمپلیکس کی زمین حکومت سندھ نے عطیہ کی۔ اس طرح 6 منزلہ جدید عمارت پر 300بیڈ پر مشتمل کمپلیکس کی تعمیر ہوئی۔ اس کمپلیکس میں متعدد جدید آپریشن تھیٹر، لیکچرز ہال، او پی ڈی وغیرہ کی سہولتوں کے ساتھ ساتھ ایک جدید آڈیٹوریم بھی تعمیر کیا گیا۔ نیز گردے کے کینسر کے علاج کے لیے حنیفہ بائی حاجیانی کمپلیکس تعمیر ہوا۔

سندھ اسمبلی نے 1991 میں سول اسپتال کے گردہ وارڈ کو انسٹی ٹیوٹ میں تبدیل کرنے کا قانون متفقہ طور پر منظور کیا۔ 2005 میں ایس آئی یو ٹی کو چیریٹل ٹرسٹ میں تبدیل کر دیا گیا۔ ڈاکٹر ادیب الحسن کی کوششوں سے بچوں اور بڑوں میں گردے سے متعلق مختلف بیماریوں کی تشخیص کے لیے الگ الگ او پی ڈی شروع ہوئیں اور الگ الگ آپریشن ہونے لگے۔ اس کے ساتھ ہی گردے کی پتھری کو کچلنے کے لیے لیپسو تھریپی کی مشین جو اپنے وقت کی مہنگی ترین مشین تھی ایس آئی یو ٹی میں لگ گئی۔ یہ وہ وقت تھا جب کراچی کے دو یا تین اسپتالوں میں یہ مشین لگائی گئی تھی جہاں مریضوں سے اس جدید طریقہ علاج کے لیے خطیر رقم وصول کی جاتی تھی مگر سیوٹ میں یہ سہولت بغیر کسی معاوضے کے فراہم کی جاتی تھی۔ اسی طرح گردوں کے کام نہ کرنے کی بنا پر مریضوں کی اموات کی شرح خاصی زیادہ تھی مگر ایس آئی یو ٹی میں ڈائیلیسز مشین لگادی گئی۔ یوں ناامید ہونے والے مریض اپنے ناکارہ گردوں کی بجائے ڈائیلیسزمشین کے ذریعے خون صاف کراکے عام زندگی گزارنے کے قابل ہوئے۔ ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی کی قیادت میں ڈاکٹروں کی ٹیم نے گردے کے ٹرانسپلانٹ کا کامیاب تجربہ کیا۔ انھوں نے ایک تندرست فرد کا گردہ ایک ایسے شخص کو لگایا جس کا گردہ ناکارہ ہو چکا تھا۔ ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی نے اعضاء کی پیوند کاری کے لیے راہ ہموار کرنے کے لیے ایک مہم منظم کی۔ انھوں نے مختلف مکاتب فکر کے علما سے اس بارے میں آراء جمع کیں۔ اعضاء کی پیوندکاری کے بارے میں آگہی پیدا کرنے کے لیے سیمینارز اور کانفرنس منعقد ہوئیں اور ذرایع ابلاغ پر بھرپور پروگرام منعقد کیے گئے۔ دستیاب اعداد و شمار کے مطابق ایس آئی یو ٹی میں ہر سال گردے کی پیوندکاری کے 544 آپریشن ہوتے ہیں، یہ شرح دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔ سیوٹ میں گذشتہ سال کے دوران 30 لاکھ مریضوں کا او پی ڈی میں علاج ہوا جب کہ 8 لاکھ 25 ہزار مریض مختلف شعبوں میں علاج کے لیے داخل کیے گئے۔ اسی طرح 7 لاکھ سے زیادہ مختلف نوعیت کے آپریشن ہوئے، اس طرح 22 ڈائیلاسز کے سیشن ہوئے اور ایس آئی یو ٹی کی لیب میں 4کروڑ ٹیسٹ کیے گئے۔ ایک زمانے میں سیوٹ کی پرانی عمارت کی چھت پر مختلف جانوروں کے لیور کے آپریشن کے تجربات ہوتے تھے مگر سیوٹ میں لیور ٹرانسپلانٹ کا کامیاب تجربہ ہوا، یوں مریضوں کے لیے مفت میں ایک نئی سہولت مہیا ہو گئی اور اب لیور ٹرانسپلانٹ کے لیے چین، بھارت اور یورپ جانے والے مریض بھی ایس آئی یو ٹی کا رخ کرنے لگے۔ جب 2005 میں آزاد کشمیر میں زلزلہ آیا تو ادیب صاحب اپنی ٹیم کے ہمراہ مظفرآباد اور متاثرہ علاقوں میں گئے جہاں سیکڑوں مریضوں کے آپریشن کیے گئے اور ایک جدید اسپتال حکومت آزاد کشمیر کے حوالے کیا گیا۔ ملک میں گذشتہ برسوں کے دوران آنے والے سیلابوں کے دوران پنجاب اور سندھ میں ایس آئی یو ٹی کی ٹیموں نے مریضوں کی جانیں بچانے کے لیے حیرت انگیز خدمات انجام دیں۔

ایس آئی یو ٹی کے دو سیٹلائٹ اسٹیشن ڈرگ روڈ کینٹ بازار اور اپوا اسپتال ناظم آباد میں کام کر رہے ہیں جہاں روزانہ مریضوں کاڈائیلاسز کیا جاتا ہے۔ ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی کا ایک اہم کارنامہ سکھر میں ایک مکمل اسپتال کا قیام ہے۔ ڈاکٹر ادیب الحسن اور ان کی ٹیم کے عزائم بلند ہیں مگر ان عزائم کی تکمیل کے لیے عوام کے تعاون کی ضرورت ہے[2]

حوالہ جات ترمیم

  1. "آرکائیو کاپی"۔ 21 مارچ 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 23 جنوری 2017 
  2. ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی کے خواب، ڈاکٹر توصیف احمد خان، ایکسپریس نیوز ٹی وی، پاکستان، 14 اگست 2012ء