اسلام میں بیوی کے حقوق
اسلام میں بیوی کے حقوق: اسلام، شادی شدہ زندگی چاہتا ہے اور اس میں بیوی اور شوہر کے حقوق متعین کرتا ہے۔ ازدواجی تعلق خدائی منصوبہ اور فطری عمل ہے، ازدواجی تعلقات میں اصل پیار اور محبت ہے جو میاں بیوی کے مابین خوشگوار ذہنی حالت اور کیفیت کا باعث ہوتا ہے۔ لیکن اگر میاں بیوی کے درمیان ناچاقی، نفرت اور ناخوشگوار کیفیت ہو جائے تو اس کا حل بھی پیش کرتا ہے۔
حقوق
ترمیمازدواجی زندگی ایک اہم زندگی ہوتی ہے، اس میں زوجین، خاندان، گھر اور سماج کے تئیں بے شمار ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔ میاں بیوی کے درمیان تعلقات خوشگوار رکھنے کی ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے، ان کی علیحدگی سے بے شمار مسائل میدا ہوتے ہیں، خصوصا اولاد پر برا اثر پڑتا ہے۔ پیغمبر اسلام محمد اس پر بہت توجہ دیتے تھے۔ شوہر کے بیوی پر حقوق درج ذیل ہیں:
مالی حقوق
ترمیم- مہر
- نفقہ
- رہائش
غیر مالی حقوق
ترمیم- عدل و انصاف
- حسن سلوک
- ایذا رسانی سے بچنا
حقوق کی تفصیلات
ترمیم1۔ مالی حقوق
ترمیم- الف۔ مہر:
ایک اسلامی اصطلاح ہے جو شادی کے وقت مرد کی طرف سے عورت کے لیے مخصوص کی جاتی ہے۔ مہر شادی کا ایک لازمی جزو ہے۔ حق مہر ادا نہ کرنے کی نیت سے نکاح کرنے پر حدیث میں سخت وعید ہے کہ ایسے مرد و عورت قیامت کے روز زانی و زانیہ اُٹھیں گے۔ یہ عورت کو بطور اکرام اور واجب حق کے دی جاتی ہے۔ اگر مہر کی مقدار کو نکاح کے عقد میں متعین نہیں کی گیا تو بھی مہر مثل یعنی عورت کی خاندانی مہر واجب ہوگی۔[1]
- ب۔ نفقہ:
یعنی بیوی کے اخراجات۔ علمائے اسلام کا اتفاق ہے کہ بیویوں کے اخراجات ان کے شوہروں پر واجب ہیں جب تک بیویاں ان کے حق میں ہیں، اگر بیوی شوہر سے جدا ہو جائے تو شوہر پر نفقہ ضروری نہیں ہوگا۔ نفقہ کی حکمت یہ ہے کہ بیوی، نکاح کے عقد کے ذریعہ شوہر کی ملکیت اور اختیار میں ہو جاتی ہے، حتی کہ بیوی کا کمانے کی غرض سے شوہر کی اجازت کے بغیر باہر نکلنا بھی درست نہیں ہے۔ لہذا شوہر پر اس کی استطاعت کے مطابق بیوی کے اخراجات واجب ہیں گرچہ بیوی بذات خود دولت مند ہو۔[1]
بیوی اگر شوہر کی اجازت سے کچھ کماتی ہے تو بیوی پر لازم نہیں ہوگا کہ وہ گھر کے اخراجات میں خرچ کرے، البتہ وہ اپنی جانب سے تبرعاً کر سکتی ہے۔[1]
- ج۔ رہائش:
یہ بھی بہت اہم حق ہے۔ یعنی شوہر پر اپنی استطاعت اور قدرت کے اعتبار سے رہائش کا انتظام کرنا واجب ہے۔[3]
1۔ غیر مالی حقوق
ترمیم- الف۔ عدل وانصاف:
شوہر پر اپنی بیویوں کے درمیان نفقہ، رہائش اور لباس وغیرہ میں انصاف کرنا ضروری ہے۔[4]
- ب۔ حسن سلوک:
بیوی کے ساتھ حسن سلوک کرنا، اس کے حقوق کو ادا کرنا اور اس کی جائز خواہشات کی رعایت کرنا، شوہر پر ضروری ہے۔ اسلام نے عورتوں کے ساتھ حسن سلوک کی جابجا تعلیم اور تاکید کی ہے۔ سورہ نسا میں تفصیل سے حسن سلوک اور رعایات کا بیان ہے۔
اسی طرح صحابی عمرو بن اخوص سے روایت ہے کہ حجۃ الوداع کے موقع پر رسول اللہ نے حمد وثنا کے بعد وعظ فرمایا، اس میں فرمایا کہ:
” | کہ عورتوں کے ساتھ ضرور حسن سلوک کا معاملہ کیا کرو، کیونکہ وہ تمھارے مقابلہ میں کمزور ہیں، تمھیں کوئی حق نہیں کہ ان کے ساتھ سختی کرو سوائے اس کے کہ وہ کھل کر فحش کام کریں، اگر وہ ایسا کرتی ہیں تو ان کے بستر کو الگ کر دو، اور ان پر ظلم نہ کرتے ہوئے کچھ مارو۔ اور اگر وہ تمھاری فرمانبرداری کرتی ہیں تو تمھیں ان پر سختی کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ | “ |
- ج۔ ایذا رسانی سے بچنا:
یہ تو اسلام کی بنیادی تعلیم ہے، اسلام نے دوسروں کو ایذا رسانی سے منع کیا ہے، تو بیوی پر ایذا رسانی بدرجہ اولی حرام ہے۔ عبادہ بن صامت نے فرمایا کہ رسول اللہ نے فیصلہ فرمایا کہ نقصان اٹھانا اور پہنچانا دونوں منع ہے۔
حوالہ جات
ترمیم- ^ ا ب پ ت موسوعة النابلسي - لتربية الإسلامية : الحقوق - حق الزوجة على الزوج - الدرس ( 1 - 2 ) : حق الإنفاق عليها وحقها بعدم الإساءة لها وحسن المعاشرة- فضيلۃ الدكتور محمد راتب النابلسي بتاريخ: 1989-10-08 آرکائیو شدہ 9 جولائی 2017 بذریعہ وے بیک مشین
- ↑ معجم قاموس المعاني - معنى كلمة (حق) آرکائیو شدہ 17 جنوری 2015 بذریعہ وے بیک مشین
- ↑
- ↑ الإسلام سؤال وجواب آرکائیو شدہ 10 اکتوبر 2016 بذریعہ وے بیک مشین