اسلام میں ملنساری
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ مضمون معتدل نقطہ نظر کے بجائے معتقدانہ اسلوب میں تحریر کیا گیا ہے اور اس میں القاب کا بے جا استعمال کیا گیا ہے۔ (جنوری 2019) (جانیں کہ اس سانچہ پیغام کو کیسے اور کب ختم کیا جائے) |
اسلام میں ملنساری ایک ایسا وصف ہے جسے پیغمبر اسلام نے اپنی زندگی میں عمدہ طریقہ سے برتا۔ چنانچہ عائشہ بنت ابی بکر نے ایک جملے میں اس کی عکاسی کرتے ہوئے کہا کہ "کَانَ خُلُقُہُ الْقُرْآنَ" یعنی تعلیمات قرآن پر پورا پورا عمل یہی رسول اللہ کے اخلاق تھے۔
حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم اپنی ازواجِ مطہرات رضی اللہ تعالیٰ عنھن اپنے احباب، اپنے اصحاب رضی اللہ تعالیٰ عنہم، اپنے رشتے داروں، اپنے پڑوسیوں ہر ایک کے ساتھ اتنی خوش اخلاقی اور ملنساری کا برتاؤ فرماتے تھے کہ ان میں سے ہر ایک آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے اخلاقِ حسنہ کا گرویدہ اور مداح تھا،خادم خاص حضرت انس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کابیان ہے کہ میں نے دس برس تک سفر و وطن میں حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی خدمت کا شرف حاصل کیا مگر کبھی حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے نہ مجھے ڈانٹا نہ جھڑکا اور نہ کبھی یہ فرمایا کہ تو نے فلاں کام کیوں کیا اور فلاں کام کیوں نہیں کیا۔ [1] عائشہ بنت ابی بکر کہتی ہیں کہ رسول اللہ سے زیادہ کوئی خوش اخلاق نہیں تھا۔ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے اصحاب رضی اللہ تعالیٰ عنہم یا آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے گھر والوں میں سے جو کوئی بھی آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو پکارتا تو آپ لبیک کہہ کر جواب دیتے۔ حضرت جریر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ ارشاد فرماتے ہیں کہ میں جب سے مسلمان ہوا کبھی حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے مجھے پاس آنے سے نہیں روکا اور جس وقت بھی مجھے دیکھتے تو مسکرا دیتے اور آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اپنے اصحاب رضی اللہ تعالیٰ عنہم سے خوش طبعی بھی فرماتے اور سب کے ساتھ مل جل کر رہتے اور ہر ایک سے گفتگو فرماتے اور صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے بچوں سے بھی خوش طبعی فرماتے اور ان بچوں کو اپنی مقدس گود میں بٹھا لیتے اور آزاد نیز لونڈی غلام اور مسکین سب کی دعوتیں قبول فرماتے اور مدینہ کے انتہائی حصہ میں رہنے والے مریضوں کی بیمار پرسی کے لیے تشریف لے جاتے۔[2]