اصطباغی کلیسیا
اصطباغی/بپتسماوی کلیسیا یا باپٹسٹ چرچ ان مسیحیوں کا فرقہ جو یہ مانتے ہیں کہ بپتسمہ ان کو دینا چاہیے جو خدا اور یسوع مسیح پر کامل ایمان رکھتے ہوں اور ان کی نظر میں بچوں کا بپتسمہ نہیں ہوتا۔ مسیحیوں کا یہ فرقہ بپتسمہ کے بارے میں خاص نقطہ نظر رکھتا ہے۔ 1644ء سے یہ لفظ ان لوگوں کے لیے استعمال ہونے لگا جن کا عقیدہ تھا کہ بپتسمہ صرف ان لوگوں کا ہونا چاہیے جو مسیحیت پر ایسا اعتقاد رکھتے ہوں، جیسا کہ نئے عہد نامے میں بتایا گیا ہے۔ اس تقریب کے وقت بپتسمہ لینے والے کو پوری طرح پانی میں ڈبونا چاہیے۔ اس قسم کے عقیدہ رکھنے والی جماعتیں اس سے پہلے بھی تھیں۔ 1609ء میں ایک انگریز جان اسمیتھ (John Smyth) اس عقیدے والوں کو ایمسٹرڈیم میں جمع کیا۔ یہ باپٹسٹوں کا پہلا اجتماع تھا۔[1] 1611ء میں باپٹسٹوں کے ایک فرقہ نے اپنا پہلا چرچ قائم کیا جو بعد میں جنرل باپٹسٹ چرچ (General Baptist Church) کے نام سے جانا گیا۔ یہ چرچ اس آرمینی عقیدے پر انحصار کرتا تھا کہ مسیح کی برکت کچھ خواص تک محدود نہیں ہے بلکہ سب کے لیے ہے۔ 1633ء میں خاص اصطباغی (Particular Baptists) کا احیا ہوا جن کا فلسفہ یہ تھا کہ مسیح کی برکت خصوصی اور انفرادی ہوتی ہے۔ اس تعلق سے مختلف قسم کے کچھ اور چرچ قائم ہوئے۔ ان سب کا اجتماع 1644ء میں ہوا اور عام و خواص کے مشترکہ عقاید پر اسے باپٹسٹ چرچ کا نام دیا گیا۔ 1891ء میں ایک اور اجتماع ہوا جس میں بپتسمہ کو ماننے والے مختلف گروہوں کو متحد کیا گیا۔ انگلستان کے علاوہ اس چرچ کے پیرو امریکا میں بھی کافی ہیں مگر اس عقیدے کے لوگ مختلف فرقوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ 1638ء میں روج ولیمز نامی شخص نے بپتسمہ کے ابتدائی نظریہ کو رد کر کے ذاتی عقیدے کی اساس پر ایک نئے چرچ کی بنیاد رکھی تھی اور نیو انگلینڈ میں اس نظریہ نے بہت زور پکڑا تھا لیکن جنوب مشرق میں جنرل باپٹسٹ نظریہ نے قبول عام پایا تھا۔[2] 1905ء میں عالمی سطح پر باپٹسٹوں کا اتحاد ہوا اور اب اس فرقہ کے 144 چرچ ہیں اور اس عقیدے کے ماننے والوں کی مشترکہ تعداد ساڑھے تین کروڑ سے زیادہ ہے۔