انگلستان (انگریزی: England) نامی ملک مملکت متحدہ کا حصہ ہے۔ اس کی سرحدیں شمال میں اسکاٹ لینڈ اور مغرب میں ویلز سے ملتی ہیں۔ شمال مغرب میں آئرش سمندر جبکہ سیلٹک سمندر جنوب مغرب میں ملتا ہے۔ شمالی سمندر مشرق میں جبکہ انگلش چینل جنوب میں اسے یورپ کے براعظم سے طبعی طور پر الگ کرتا ہے۔ زیادہ تر انگلستان وسطی اور جنوبی حصے سے مل کر بنا ہے جہاں برطانیہ کا جزیرہ واقع ہے۔ یہ علاقہ شمالی بحرِ اوقیانوس کہلاتا ہے۔ اس کے علاوہ اس ملک میں 100 سے زیادہ چھوٹے چھوٹے جزائر بھی شامل ہیں۔

انگلستان
پرچم انگلستان
ترانہ: 
محل وقوع انگلستان (dark green) – Europe (green & dark grey) – the مملکت متحدہ (green)
محل وقوع انگلستان (dark green)

– Europe (green & dark grey)
– the مملکت متحدہ (green)

حیثیتملک
دارالحکومت
and largest city
لندن
انگریزی زبان
کورنش
نسلی گروہ
(2011)
مذہب
کلیسائے انگلستان
آبادی کا نامانگریز
مملکت متحدہ
حکومتحصہ آئینی بادشاہت
چارلس سوم
قیام
پانچویں-چھٹی صدی
10th century
1 مئی 1707
• 
{{{established_date5}}}
رقبہ
• زمین
130,279 کلومیٹر2 (50,301 مربع میل)[2]
آبادی
• 2014 تخمینہ
54,316,600
• 2011 مردم شماری
53,012,456
• کثافت
406.9/کلو میٹر2 (1,053.9/مربع میل)
جی ڈی پی (برائے نام)2009 تخمینہ
• کل
$2.68 trillion
• فی کس
$50,566
کرنسیپاؤنڈ اسٹرلنگ (GBP)
منطقۂ وقتیو ٹی سی (گرینچ معیاری وقت)
• گرمائی (ڈی ایس ٹی)
یو ٹی سی+1 (برطانوی موسم گرما وقت)
تاریخ فارمیٹdd/mm/yyyy (قبل مسیح)
ڈرائیونگ سائیڈleft
کالنگ کوڈ+44

آج کے انگلستان کا علاقہ پہلے پہل جدید انسانوں نے پتھر کے زمانے کے آخر میں آباد کیا تھا۔ تاہم اس علاقے کو انگلستان کا نام دینے کی وجہ پانچویں اور چھٹی صدی عیسوی میں یہاں آنے والے جرمینک قبائل تھے۔ 927 عیسوی میں انگلستان ایک متحدہ ریاست بن گیا۔ 15 ویں صدی میں شروع ہونے والے “ایج آف ڈسکوری” کے دوران دنیا بھر میں انگلستان کو ثقافت اور قانون کے لحاظ سے مرکزی حیثیت حاصل ہو گئی۔ انگریزی زبان،انجلیکن چرچ، انگریزی قوانین بہت سارے دیگر ممالک کے قانونی نظام کی بنیاد بن گئے۔ یہاں کے پارلیمانی جمہوری نظام کو بھی بہت سارے ممالک نے اپنا لیا۔ 18ویں صدی کے صنعتی انقلاب کی ابتدا انگلستان سے ہوئی اور انگریز قوم دنیا کی پہلی صنعتی قوم بنی۔ انگلستان کی رائل سوسائٹی نے جدید تجرباتی سائنس کی بنیاد رکھی۔

انگلستان بالخصوص وسطی اور جنوبی حصوں کی سرزمین زیادہ تر کم بلندی والی پہاڑیوں اور میدانوں پر مشتمل ہے۔ تاہم شمال اور جنوب مغرب میں زیادہ بلند علاقے بھی موجود ہیں۔ انگلستان کا دار الحکومت لندن نہ صرف ملک کا سب سے بڑا شہر ہے بلکہ کئی حوالوں سے یورپی یونین کی سب سے بڑی بلدیہ کا درجہ رکھتا ہے۔ انگلستان کی کل آبادی 5 کروڑ 10 لاکھ ہے جو برطانیہ کی کل آبادی کا 84 فیصد بنتی ہے۔ تاہم آبادی کا بڑ احصہ لندن، جنوب مشرق اور وسطی علاقوں کے ساتھ ساتھ شمال مغرب میں آباد ہے۔ یہی تمام علاقے 19ویں صدی کے صنعتی انقلاب کے دوران آباد ہوئے تھے۔ بڑے شہروں سے ہٹ کر زیادہ تر علاقے چراگاہوں اور سرسبز میدانوں پر مشتمل ہے۔

1284 کے بعد سے انگلستان کی سلطنت بشمول ویلز کے یکم مئی 1707 تک آزاد ریاست تھا۔ تاہم اس تاریخ کو معاہدے کے تحت سکاٹ لینڈ اور انگلستان کی سلطنتیں ملا دی گئیں۔ 1800 عیسوی میں آئرلینڈ کو بھی ملا کر عظیم برطانیہ اور آئر لینڈ کی مملکتِ متحدہ بنائی گئی۔ 1922 میں آئرلینڈ کو الگ خود مختار ریاست کا درجہ دے دیا گیا۔ تاہم 1927 میں ایک اور پارلیمانی قانون کے تحت آئرلینڈ کی چھ کاؤنٹیوں کو واپس لے کر عظیم برطانیہ اور شمالی آئر لینڈ کی مملکتِ متحدہ بنا دی گئی۔

وجہ تسمیہ ترمیم

انگلستان قدیم انگریزی زبان کے لفظ انگلا سے لیا گیا ہے جس کے معنی ہیں “انگلیز کی زمین”۔ انگلیز قدیم جرمانی قبائل تھے جو ابتدائی قرونِ وسطٰی میں یہاں آن آباد ہوئے۔

تاریخ ترمیم

قدیم تاریخ ترمیم

اس علاقے میں سب سے پہلے انسانی موجودگی ہومو انٹیسسر کو کہا جاتا ہے جو 7,80,000 سال قبل سے تعلق رکھتا ہے۔ انسان نما مخلوق کی ہڈیاں تقریباً 5,00,000 سال پرانی ملی ہیں۔ موجودہ دور کے انسان کے بارے پتھر کے دور سے تعلق رکھنے والے آثار ملتے ہیں۔ تاہم مستقل آبادیاں تقریباً 6,000 سال قبل ہی قائم ہونے لگی تھیں۔ آخری برفانی دور کے بعد صرف بڑے ممالیہ جیسا کہ میمتھ، بھینسے اور اون والے گینڈے ہی باقی بچے تھے۔ 11,000 سال قبل جب برفانی تہیں ہٹنے لگیں تو انسان اس علاقے میں آن آباد ہوئے۔ جینیاتی تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ یہ انسان آئیبیریا کے جزیرہ نما کے شمالی علاقے سے یہاں آئے تھے۔ اس وقت سمندر کی سطح آج سے نیچے تھی۔ برطانیہ آئرلینڈ اور یورشیا سے زمینی رابطے سے جڑا ہوا تھا۔ جوں جوں سمندر کی سطح بلند ہوتی گئی، یہ علاقہ 10,000 سال قبل آئرلینڈ سے الگ ہو گیا اور 2,000 سال بعد یورشیا سے بھی زمینی رابطہ ٹوٹ گیا۔

بیکر تہذیب یہاں 2500 ق م میں آئی اور مٹی سے بنے کھانے پینے کے برتن متعارف کرائے۔ اس کے علاوہ خام تانبہ پگھلانے کے لیے بھی برتن بنائے۔ اسی دور میں سٹون ہنج بنایا گیا۔ ٹن اور تانبے کو ایک ساتھ گرم کرنے سے بیکر تہذیب کے لوگ کانسی اور بعد ازاں لوہے کے ذخائر سے لوہا الگ کرنے کے قابل ہو گئے تھے۔

لوہے کے دور میں سیلٹک تہذیب کے لوگ یہاں وسطی یورپ سے آئے۔ لوہے پگھلانے کی بھٹی کی ایجاد سے یہ لوگ بہتر ہل بنانے اور زراعت کے میدان میں ترقی کرنے کے قابل ہو گئے۔ اس کے علاوہ ان کے ہتھیار بھی بہتر بننے لگے۔ قبائل کی صورت میں یہ لوگ رہتے تھے اور اس وقت اس علاقے میں کم از کم 20 مختلف قبائل آباد تھے۔ دیگر علاقوں کی طرح برطانیہ کے روم کے ساتھ تجارتی تعلقات تھے۔ 55 ق م میں جولیس سیزر نے دو بار برطانیہ پر قبضے کے لیے حملے کیے لیکن ناکام رہا۔

تاہم 43 عیسوی میں رومن یہاں قابض ہو گئے اور اپنی سلطنت میں برطانیہ کو بطور صوبہ ضم کر دیا۔ تاہم 410 عیسوی میں رومن سلطنت کے کمزور ہونے کی وجہ سے برطانیہ کو آزاد کر دیا گیا۔

قرونِ وسطٰی ترمیم

رومن افواج کے انخلاء کے بعد برطانیہ دیگر ممالک کی فوجوں کے حملوں کا نشانہ بن گیا۔ ابتدا میں یہ حملے کچھ عرصے کے لیے رک گئے لیکن پھر دوبارہ جاری ہو گئے اور زیادہ تر علاقے پر غیر ملکی افواج کا قبضہ ہو گیا۔ اس دورانیے سے متعلق بہت کم تحریری مواد موجود ہے۔ اسی وجہ سے اس دور کو تاریک دور کہا جاتا ہے۔ مفتوحہ علاقوں سے مسیحیت یکسر غائب ہو گئی تھی لیکن دوبارہ رومن مشنریوں نے متعارف کرائی۔ فاتحین اپنی آمد کے بعد مختلف قبائل میں ضم ہو گئے تھے لیکن بعد ازاں ساتویں صدی عیسوی میں انھوں نے مختلف جگہوں پر جمع ہو کر تقریباً 12 مختلف سلطنتیں بنا دیں۔

تاریخ ترمیم

ماضی قریب کی تاریخ ترمیم

ہنری ہشتم نے کیتھولک چرچ سے تعلقات ختم کر دیے کیونکہ ان کے مابین طلاق کے مسئلے پر اختلافات تھے۔ تاہم اس وقت بادشاہ کو چرچ آف انگلینڈ کے سربراہ کی حیثیت حاصل تھی۔ تاہم یہ اختلافات مذہبی سے زیادہ سیاسی نوعیت کے تھے۔

الزبتھ دور میں برطانوی بحری بیڑے نے حملہ آور ہسپانوی ارماڈا کو شکست دی۔ سپین کے ساتھ انگلستان کے تعلقات امریکا کی نوآبادی سے متعلق پہلے ہی کشیدہ تھے۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کے ذریعے انگلستان نے مشرق میں ولندیزیوں اور فرانسیسیوں سے معرکہ آرائی جاری رکھی۔ اسی دوران سکاٹ لینڈ کے بادشاہ نے اپنی سلطنت کا الحاق انگلستان سے کر دیا۔

سیاسی، مذہبی اور سماجی عہدوں کے اختلافات کی وجہ سے انگلستان میں خانہ جنگی شروع ہو گئی۔ ایک طرف پارلیمان کے حامی اور دوسری طرف بادشاہ چارلس اول کے حامی تھے۔ یہ جنگ نسبتاً بڑے پیمانے پر تھی کیونکہ اس میں انگلستان کے علاوہ آئر لینڈ اور سکاٹ لینڈ بھی شامل تھے۔ اس جنگ میں پارلیمان کے حامی جیتے اور چارلس اول کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا اور ریاست کو دولتِ مشترکہ میں بدل دیا گیا۔ 1653 میں پارلیمانی دستوں کے سربراہ اولیور کرامویل نے خود کو لارڈ پروٹیکٹرقرار دے د یا۔ کرامویل کی موت کے بعد اس کے بیٹے رچرڈ نے خود کو لارڈ پروٹیکٹر کے عہدے سے الگ کر دیا۔ چارلس دوم کو 1660 میں دوبارہ شاہی تخت سنبھالنے کی دعوت دی گئی۔ آئین کے تحت یہ واضح کر دیا گیا تھا کہ پارلیمان اور بادشاہ بیک وقت حکمران ہوں گے لیکن اصل طاقت پارلیمان کے پاس ہی رہے گی۔ 1689 میں بل آف رائٹس کے مطابق یہ واضح کر دیا گیا کہ قانون سازی پارلیمان کرے گی اور بادشاہ اس میں مداخلت نہیں کر سکے گا۔ اس کے علاوہ پارلیمان کی منظوری کے بغیر بادشاہ نہ تو اپنی فوج بنا سکے گا اور نہ ہی کوئی ٹیکس لگا سکے گا۔ 1660 میں رائل سوسائٹی کے قیام سے سائنس کو بہت ترویج ملی۔

1666 میں ہونے والے لندن کی عظیم آتشزدگی سے شہر تباہ ہوا لیکن جلد ہی دوبارہ تعمیر کر لیا گیا۔ پارلیمان میں اب دو اہم طاقتیں سامنے آ گئی تھیں جو ٹوری اور وگ تھیں۔ ٹوری بادشاہ کے وفادار اور وگ حقیقی معنوں میں لبرل تھے۔ ٹوریوں نے ابتدا میں بادشاہ جیمز دوم کا ساتھ دیا لیکن پھر ان میں کچھ افراد وگوں سے مل گئے اور 1688 کا انقلاب برپا ہوا۔ انھوں نے ہالینڈ کے بادشاہ ولیم سوم کو دعوت دی کہ وہ انگلستان کے بادشاہ بن جائیں۔ تاہم ملک کے شمالی باشندے ابھی بھی بادشاہ جیمز دوم اور ان کے بیٹوں کے حق میں تھے۔ آخر کار 1707 میں انگلستان اور سکاٹ لینڈ نے سیاسی الحاق کر کے گریٹ برٹین کا ملک بنایا۔ تاہم چرچ اور قانون وغیرہ الگ الگ رہے۔

حالیہ تاریخ ترمیم

گریٹ برٹین کی نئی سلطنت کے ماتحت رائل سوسائٹی اور دیگر اداروں کی مدد سے سائنس اور انجینئری کو ترویج دی گئی۔ اس سے برطانوی سلطنت کے قیام کی داغ بیل پڑی۔ ملکی سطح پر اس سے صنعتی انقلاب برپا ہوا جس میں سوشیو اکنامک اور ثقافتی اقدار بدلیں جس سے صنعتی بنیادوں پر زراعت، مینوفیکچر، انجینئری اور کان کنی کے علاوہ سڑک، ریل اور پانی کی منتقلی وغیرہ کے نظاموں کو جدید بنایا گیا۔ 1825 میں دنیا میں پہلی بار بھاپ سے چلنے والی ٹرینوں کو مستقل طور پر عوام کے لیے کھول دیا گیا۔

صنعتی انقلاب کے دوران بہت سارے صنعتی کارکن دیہاتوں سے نئے بننے والے صنعتی علاقوں جیسا کہ مانچسٹر اور برمنگھم منتقل ہونے لگے۔ اس دور میں مانچسٹر کو وئیر ہاؤس سٹی یعنی گوداموں کا شہر اور برمنگھم کو ورک شاپ آف دی ورلڈ کہا جاتا تھا۔ فرانسیسی انقلاب کے دوران انگلستان میں نسبتاً استحکام رہا۔ نپولن کی جنگوں کے دوران نپولن نے جنوب مشرق سے حملے کا سوچا لیکن ناکام رہا۔ اس کا ایک فائدہ یہ بھی ہوا کہ سکاٹ اور ویلش لوگ بھی ایک قومی دھارے میں ڈھل گئے۔

وکٹورین دور میں لندن دنیا کا سب سے بڑا اور سب سے زیادہ آبادی والا شہر بن گیا۔ انگلستان کی تجارت اور اس کی بری اور بحری افواج قابلِ فخر تھیں۔ اسی دوران ووٹ کا حق تمام شہریوں کو دے دیا گیا۔ وسطی مشرقی یورپ میں حکومتوں کی تبدیلی سے پہلی جنگِ عظیم شروع ہوئی اور لاکھوں برطانوی فوجی جنگ میں اتحادی افواج کی طرف سے حصہ لیتے ہوئے مارے گئے۔ دو دہائیوں کے بعد دوسری جنگِ عظیم میں انگلستان پھر سے اتحادی افواج کا حصہ بنا۔ فونی جنگ کے بعد ونسٹسن چرچل جنگ کے د وران کے لیے وزیر اعظم بن گئے۔ جنگی ٹیکنالوجی میں ترقی سے بہت سارے شہروں کو فضائی حملوں کا سامنا کرنا پڑا۔ تاہم اس جنگ کے بعد انگلستان کے ہاتھ سے زیادہ تر نوآبادیاں نکلتی چلی گئیں۔ اس کے علاوہ بہت ساری نت نئی ایجادات جیسا کہ گاڑیاں وغیرہ سفر کے لیے عام استعمال ہونے لگیں۔ فرینک ویٹل کے ایجاد کردہ جیٹ انجن سے لمبے فاصلوں تک سفر آسان ہو گیا۔ لوگوں نے کاریں رکھنا شروع کر دیں اور 1948 میں صحت کے قومی ادارے یعنی نیشنل ہیلتھ سروس کا قیام عمل میں آیا۔ اس سروس کے تحت انگلستان کے تمام مستقل رہائشیوں کو بوقتِ ضرورت ہر طرح کی طبی امداد مفت دی جانے لگی اورحکومت عام ٹیکسوں سے اس ادارے کو چلانے لگی۔

20ویں صدی میں آبادی میں تبدیلی آنے لگی۔ یہ تبدیلی نہ صرف برطانوی جزائر بلکہ دولتِ مشترکہ اور خصوصاً برصغیر سے تھی۔ 1970 کی دہائی سے مینوفیکچرنگ کی جگہ خدمات کے شعبے نے لینا شروع کر دی۔ اسی دوران انگلستان نے یورپین اکنامک کمیونٹی میں شمولیت اختیار کر لی جو بعد میں یورپی یونین بنا۔ 20ویں صدی کے اختتام پر انتظامی اختیارات کو بتدریج سکاٹ لینڈ، ویلز اور شمالی آئرلینڈ کو کافی حد تک منتقل کر دیے گئے۔ انگلینڈ اور ویلز بدستور انگلستان کا حصہ رہے۔

حکومت ترمیم

سیاست ترمیم

انگلستان کا حصہ ہونے کی وجہ سے انگلینڈ کا بنیادی سیاسی نظام آئینی بادشاہت اور پارلیمان پر مشتمل ہے۔ اس وقت حکومت براہ راست یونائٹڈ کنگڈم کی پارلیمان کے پاس ہے۔ ایوانِ زیریں یعنی ہاؤس آف کامنز کے لیے ویسٹ منسٹر کا محل وقف ہے اور یہاں 532 اراکین پارلیمان کام کرتے ہیں۔

2010 کے عام انتخابات میں کنزرویٹو پارٹی نے مطلق اکثریت حاصل کی۔ انھوں نے 532 میں سے دیگر تمام جماعتوں کی جیتی ہوئی نشستوں سے 61 نشستیں زیادہ حاصل کی تھیں۔ تاہم سکاٹ لینڈ، شمالی آئرلینڈ اور ویلز کو اگر ساتھ ملایا جائے تو یہ مطلق اکثریت نہیں رہتی۔ نتیجتاً معلق پارلیمان وجود میں آئی ہے۔ حکومت بنانے کے لیے پارٹی نے ڈیوڈ کیمرون کی سربراہی میں تیسری بڑی سیاسی جماعت لبرل ڈیموکریٹس کے ساتھ سیاسی اتحاد کا فیصلہ کیا۔ لبرل ڈیموکریٹ کے سربراہ نک کلیگ ہیں۔ اسی دوران گورڈن براؤن نے وزیرِ اعظم اور لیبر پارٹی کے سربراہ کے عہدوں کو چھوڑ دیا اور لیبر پارٹی اب ایڈ ملی بینڈ کی سربراہی میں کام کر رہی ہے۔

یورپی یونین کا رکن ہونے کی وجہ سے برطانیہ میں انتخابات سے یورپی یونین کے لیے نمائندے چنے جاتے ہیں۔

قانون ترمیم

انگریزی قانونی نظام کے موجودہ شکل تک پہنچنے میں صدیاں لگیں اور اس سے بہت سے دیگر انگریزی بولنے والے ممالک نے اپنے قوانین وضع کیے ہیں۔ عام طور پر عدالت میں تمام واقعات اور شہادتیں جج کے سامنے پیش کی جاتی ہیں جو اپنے علم اور فہم کے مطابق حقائق کا جائزہ لے کر فیصلہ کرتا ہے۔ سپریم کورٹ سب سے اعلٰی عدالت ہے۔ اس کے بعد کورٹ آف اپیل، ہائی کورٹ آف جسٹس اور کراؤن کورٹ ہیں۔ یہ تمام عدالتیں سپریم کورٹ کے زیر اثر کام کرتی ہیں۔

1981 سے 1995 تک جرائم کی شرح بڑھی لیکن پھر 1995 سے 2006 کے دوران یہ شرح 42 فیصد کم ہوئی۔ اسی عرصے میں جیلوں کے اسیران کی تعداد دگنی ہو گئی۔ یہ شرح ہر ایک لاکھ میں 147 ہے۔

انتظامی تقسیم ترمیم

انگلستان کو انتظامی اعتبار سے چار سطحوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ سب سے اوپری سطح پر نو علاقے ہیں جو نارتھ ایسٹ، نارتھ ویسٹ، یارکشائر اینڈ ہمبر، ایسٹ مڈلینڈز، ویسٹ مڈلینڈز، ایسٹ، ساؤتھ ایسٹ، ساؤتھ ویسٹ اور لندن ہیں۔

علاقائی تقسیم کے بعد کی سطح میں پورے انگلستان کو 48 کاؤنٹیوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔

جغرافیہ ترمیم

لینڈ سکیپ اور دریا ترمیم

جغرافیائی اعتبار سے انگلستان وسطی اور جنوبی دو تہائی جزیرے پر مشتمل ہے۔ اس کے علاوہ آئل آف وائٹ اور آئل آف سلی بھی اس کا حصہ ہیں۔ اس کے دو ہمسائے ممالک ہیں جو شمال میں سکاٹ لینڈ جبکہ مغرب میں ویلز ہیں۔ فرانس اور انگلستان کے درمیان 34 کلومیٹر چوڑی سمندری پٹی ہے۔ تاہم فوک سٹون کے پاس موجود چینل ٹنل سے دونوں ملک ملے ہوئے ہیں۔ جزیرہ ہونے کی وجہ سے اس کے ایک طرف آئرش سمندر، ایک طرف شمالی سمندر ارو ایک طرف بحرِ اوقیانوس ہے۔

اس کی اہم بندرگاہیں لندن، لیور پول اور نیو کیسل ہیں جو دریائے تھیمز، مرسی اور ٹائن پر واقع ہیں۔ انگلستان کا سب سے لمبا دریا سورن ہے جو 354 کلومیٹر طویل ہے۔ تاہم سب سے لمبا دریا جو پوری طرح انگلستان میں واقع ہے، تھیمز ہے جو 346 کلومیٹر طویل ہے۔ سب سے بڑی جھیل ونڈر میئر ہے۔

جغرافیائی اعتبار سے پینینز نامی پہاڑی سلسلہ انگلستان کی ریڑھ کی ہڈی کہلاتا ہے۔ یہ سلسلہ اس ملک میں قدیم ترین ہے جو تقریباً 30 کروڑ سال قبل وجود میں آیا تھا۔ یہ سلسلہ 400 کلومیٹر طویل ہے۔ یہ سلسلہ زیادہ تر ریتلے پتھر اور چونے کے پتھر سے بنا ہے تاہم کہیں کہٰں کوئلہ بھی موجود ہے۔ انگلستان کا بلند ترین مقام 978 میٹر بلند ہے۔

موسم ترمیم

انگلستان کا درجہ حرارت نسبتاً معتدل رہتا ہے اور سردیوں میں درجہ حرارت صفر سے زیادہ نیچے اور گرمیوں میں 32 ڈگری سے زیادہ کم ہی جاتا ہے۔ زیادہ تر موسم مرطوب اور بدلتا رہتا ہے۔ سرد ترین مہینے جنوری اور فروری ہیں جبکہ جولائی عموماً گرم ترین مہینہ ہوتا ہے۔ مئی، جون، ستمبر اور اکتوبر نسبتاً گرم اور زیادہ تر خشک رہتے ہیں۔

انگلستان میں سب سے زیادہ درجہ حرارت 10 اگست 2003 کو 38.5 ڈگری جبکہ کم سے کم درجہ حرارت 10 جنوری 1982 کو منفی 26.1 ڈگری ریکارڈ کیا گیا تھا۔

معیشت ترمیم

انگلستان کی معیشت دنیا کی بڑی معیشتوں میں سے ایک ہے۔ اوسط فی کس آمدنی 22,907 پاؤنڈ ہے۔ انگلستان کی معیشت کو مخلوط مارکیٹ کی معیشت کہا جاتا ہے تاہم اس نے آزادانہ تجارت کے بہت سارے اصولوں کو اپنایا ہوا ہے تاہم اس کے ساتھ ساتھ عوامی بہبود کے ڈھانچے پر بہت توجہ دی جاتی ہے۔ سرکاری پیسہ پاؤنڈ سٹرلنگ ہے۔ ٹیکس کی شرح دیگر ممالک جیسی ہے۔ 37,400 پاؤنڈ سالانہ یا اس سے کم آمدنی پر 20 فیصد جبکہ اس سے زیادہ آمدنی پر 40 فیصد ٹیکس عائد ہوتا ہے۔

انگلستان کیمیکل اور ادویہ سازی میں انتہائی بلند مقام رکھتا ہے۔ اس کے علاوہ ٹیکنالوجی کے حوالے سے جیسا کہ فضائی صنعت، اسلحہ سازی اور کمپیوٹر کے سافٹ وئیر کے حوالے سے بھی انتہائی اہم مقام رکھتا ہے۔ لندن میں لندن سٹاک ایکسچینج واقع ہے جو یورپ بھر میں سب سے بڑی سٹاک مارکیٹ ہے۔ اس کے علاوہ لندن میں یورپ کی 500 بڑی کمپنیوں میں سے کم از کم 100 واقع ہیں۔

بینک آف انگلینڈ کو 1694 میں ولیم پیٹرسن نے قائم کیا۔ اسے انگلستان کا مرکزی بینک کہا جاتا ہے۔ ابتدا میں اس کی حیثیت پرائیوت بینک کی تھی جو بعد 1946 سے حکومتی ملکیت میں آنے کے بعد سے اب تک انگلستان کے سرکاری بینک کا کردار ادا کر رہا ہے۔ انگلینڈ اور ویلز میں کرنسی نوٹ چھاپنے پر اس بینک کی اجارہ داری ہے۔ تاہم دیگر حصوں میں دیگر بینک یہ کام کرتے ہیں۔

انگلستان کی معیشت ماضی میں زیادہ تر صنعتی رہی ہے تاہم 1970 کی دہائی سے خدمات کے شعبے کا رحجان بڑھتا جا رہا ہے۔ سیاحت سے بھی کافی آمدنی ہوتی ہے۔ برآمدی شعبے میں زیادہ تر ادویہ سازی اور گاڑیاں وغیرہ اہم ہیں۔ تاہم کئی انگریزی نام جیسا کہ رولز رائس، لوٹس، جیگوار اور بینٹلے وغیرہ کے مالکان اب برطانوی نہیں رہے۔ خام تیل، ہوائی جہازوں کے انجن اور شراب وغیرہ بھی اہم برآمدات ہیں۔ زراعت کا زیادہ تر انحصار مشینوں پر ہے اور محض دو فیصد لیبر فورس کی مدد سے کل ملکی خوراک کا 60 فیصد پیدا کرتا ہے۔ زراعت میں دو تہائی حصہ لائیو سٹاک جبکہ دیگر حصہ مختلف فصلوں کے لیے مختص ہے۔

بنیادی ڈھانچہ ترمیم

مواصلات کا محکمہ حکومتی ادارہ ہے جو انگلستان میں ٹرانسپورٹ کی دیکھ بھال کرتا ہے۔ انگلستان میں کئی موٹر ویز ہیں جن میں سے سب سے اہم شاہراہ اے 1 گریٹ نارتھ روڈ ہے جو لندن سے نیو کیسل تک پھیلی ہوئی ہے۔ انگلستان کی سب سے لمبی شاہراہ ایم 6 ہے جو رگبی سے نارتھ ویسٹ کو سکاٹ لینڈ کی سرحد تک جاتی ہے۔

ملک کے طول و عرض میں بسوں کا استعمال عام ہے۔ اہم کمپنیوں میں نیشنل ایکسپریس، ارائیول اور گو اہیڈ گروپ قابلِ ذکر ہیں۔ لندن میں چلنے والی ڈبل ڈیکر بسیں انگلستان کی نشانی بن گئی ہیں۔ انگلستان کے دو بڑے شہروں میں تیز ٹرین کی سروس بھی موجود ہے جو ان شہروں کے اندر ہی کام کرتی ہے۔ یہ ٹرینیں لندن میں لندن انڈر گراؤنڈ اور نیو کیسل میں ٹائن اینڈ وئیر میٹرو کہلاتی ہیں۔ اس کے علاوہ بلیک پول، مانچسٹر میٹرو لنک، شیفلڈ سپرٹرام اور مڈلینڈ میٹرو جیسی ٹرامیں بھی کام کرتی ہیں۔

انگلستان کا ریل کا نیٹ ورک دنیا کا سب سے اولین نیٹ ورک ہے جس کی ابتدا 1825 میں ہوئی تھی۔ انگلستان کا 16,116 کلومیٹر طویل ریل کا نظام پورے ملک میں پھیلا ہوا ہے۔ یہ لائنیں زیادہ تر سنگل، ڈبل یا چار رویہ ہیں۔ کہیں کہیں نیرو گیج کی لائنیں بھی ملتی ہیں۔ زیرِ سمندر چینل ٹنل سے ریل کا رابطہ اب فرانس اور بیلجئم تک پھیل گیا ہے۔ یہ ٹنل 1994 میں مکمل ہوئی تھی۔

انگلستان میں اندرون اور بیرون ملک کے لیے فضائی سروس کا وسیع نیٹ ورک موجود ہے۔ لندن کا ہیتھرو ائیرپورٹ ملک کا سب سے بڑا ہوائی اڈا ہے جو مسافروں کی تعداد کے اعتبار سے یورپ کا مصروف ترین ہوائی اڈا ہے۔ دیگر بڑے ہوائی اڈوں میں مانچسٹر ائیرپورٹ، لندن سٹین سٹیڈ ائیرپورٹ، برمنگھم انٹرنیشنل ائیرپورٹ اہم ہیں۔ سمندر کے حوالے سے فیری چلتی ہے جو اندرون ملک اور بیرون ملک کے لیے کام کرتی ہے۔ سب سے زیادہ یہ سروسیں آئرلینڈ، ہالینڈ اور بیلجئم کے لیے چلتی ہیں۔ اس کے علاوہ آبی ذرائع سے مثلاً دریا، نہریں اور بندرگاہیں وغیرہ سے بھی تقریباً 7,100 کلومیٹر جتنا سفر کیا جا سکتا ہے۔ انگلستان کے اندر دریائے تھیمز اہم ترین آبی گذرگاہ ہے اور اس دریا پر بنائی گئی بندرگاہ ملک کی تین بڑی بندرگاہوں میں سے ایک شمار ہوتی ہے۔

نیشنل ہیلتھ سروس عوامی ٹیکسوں سے چلنے والا صحتِ عامہ کا نظام ہے جو ملک بھر میں صحت کی سہولیات مہیا کرتا ہے۔ یہ نظام 5 جولائی 1948 کو شروع ہوا۔ اس نظام کو عام ٹیکس بشمول نیشنل انشورنس کے چلایا جاتا ہے۔ تاہم آنکھوں کے ٹیسٹ، ڈینٹل کیئر، ڈاکٹری نسخے اور ذاتی دیکھ بھال وغیرہ کے لیے الگ سے رقم ادا کرنی پڑتی ہے۔

یہ سروس حکومتی ادارہ برائے صحت کے ماتحت کام کرتی ہے جو برطانوی کابینہ کا حصہ ہے۔ 2008 تا 2009 اٹھانوے ارب پاؤنڈ سے زیادہ رقم ڈاکٹروں اور ٹریڈ یونینوں کو ادا کی گئی تھی۔ حالیہ برسوں میں پرائیوٹ ڈاکٹروں کا رحجان چل پڑا ہے۔ انگلستان کے باشندوں کی زیادہ سے زیادہ عمر کی اوسط 77.5 سال مردوں کے لیے جبکہ 81.7 سال عورتوں کے لیے مانی جاتی ہے۔

آبادی کی خصوصیات ترمیم

آبادی ترمیم

5 کروڑ 10 لاکھ آبادی کے ساتھ انگلستان یونائٹڈ کنگڈم کا سب سے بڑا ملک ہے۔ یورپی یونین میں انگلستان کی آبادی چوتھے نمبر پر سب سے زیادہ ہے اور دنیا بھر میں 25ویں نمبر پر آتی ہے۔ فی مربع کلومیٹر آبادی کی گنجانیت 395 افراد ہے جو یورپی یونین میں مالٹا کے بعد دوسرے نمبر پر ہے۔

زبان ترمیم

جیسا کہ انگریزی زبان کے نام سے ہی ظاہر ہے، انگلستان کی زبان کے طور پر شروع ہوئی۔ اب یہ زبان دنیا بھر کے کروڑوں لوگ بولتے ہیں۔ یہ زبان انڈو یورپئین زبانوں کے خاندان سے تعلق رکھتی ہے۔ تاہم نورمین کے قبضے کے بعد سے یہ زبان محض نچلے طبقے تک محدود کر دی گئی تھی۔ طبقہ اشرافیہ کے استعمال میں لاطینی زبان آ گئی۔

تاہم 17ویں صدی تک یہ زبان دوبارہ عام استعمال میں آ گئی تھی۔ اگرچہ اس زبان میں بہت ساری تبدیلیاں آ گئی تھیں جس میں املا اور فرہنگ، دونوں میں فرانسیسی اثر غالب تھا۔ برطانوی سلطنت کی وجہ سے اس وقت غیر سرکاری طور پر اسے دنیا کی رسمی زبان مانا جاتا ہے۔

اس وقت انگریزی زبان کا پڑھنا اور پڑھانا ایک اہم معاشی سرگرمی بن چکا ہے۔ آئینی طور پر انگلستان کی کوئی سرکاری زبان نہیں لیکن سرکاری طور پر صرف انگریزی ہی استعمال کی جاتی ہے۔ ملک کے چھوٹے رقبے کے باوجود مختلف جگہوں پر مختلف لہجے پائے جاتے ہیں اور ضروری نہیں کہ ہر لہجہ ملک بھر میں سمجھا جائے۔

کورنش زبان جو 18ویں صدی میں ختم ہو چکی تھی، کے احیاء کی کوششیں جاری ہیں۔ سرکاری تعلیمی اداروں میں ثانوی زبان بھی پڑھائی جاتی ہے جو عموماً فرانسیسی، جرمن یا ہسپانوی ہوتی ہے۔ تارکین وطن کی وجہ سے تقریباً 8 لاکھ طلبہ و طالبات گھروں میں غیر ملکی زبان بولتے ہیں جن میں پنجابی اور اردو سب سے زیادہ عام ہیں۔

مذہب ترمیم

انگلستان میں مسیحیت اکثریتی مذہب ہے جو قرونِ وسطٰی سے چلا آ رہا ہے۔ اس وقت انگلستان میں 71.6 فیصد افراد کا مذہب مسیحیت ہے۔

انگلستان کے پیٹرن سینٹ سینٹ جارج ہیں جو قومی جھنڈے پر اپنی صلیب کے نشان سے ظاہر کیے گئے ہیں۔

1950 کی دہائی سے تارکینِ وطن کی آمد کی وجہ سے دیگر مشرقی مذاہب بھی متعارف ہوئے ہیں جن میں اسلام سب سے زیادہ عام ہے اور اس کے پیروکار 3.1 فیصد ہیں۔ اس کے علاوہ ہندو مت، سکھ مت اور بدھ مت مل کر 2 فیصد بناتے ہیں۔ 14 فیصد سے زیادہ افراد خود کو لادین گردانتے ہیں۔

تعلیم ترمیم

یونیورسٹیاں اور تعلیمی ادارے ترمیم

19 سال تک تعلیم کے امور کی دیکھ بھال حکومت کرتی ہے۔ ٹیکسوں کی مدد سے چلنے والے اسکولوں میں 93 فیصد طلبہ پڑھتے ہیں۔ محدود مقدار میں طلبہ مذہبی اسکولوں کو بھی جاتے ہیں۔ تین سے چار سال کی عمر کے بچوں کے لیے نرسری اسکول ہوتا ہے۔ چار سے گیارہ سال تک کی عمر کے بچوں کے لیے پرائمری اسکول ہے۔ گیارہ سے سولہ سال تک کے نوجوانوں کے لیے ثانوی اسکول ہے جبکہ اختیاری دو سال مزید لگا کر چھ سال کا کالج بھی ہوتا ہے۔

لازمی تعلیم کے اختتام پر طلبہ کو لازمی جنرل سرٹیفیکٹ آف سیکنڈری ایجوکیشن کا امتحان دینا ہوتا ہے۔ اس کے بعد ان کی مرضی ہوتی ہے کہ وہ مزید تعلیم کے لیے کسی کالج جا سکتے ہیں۔ انگلستان میں عموماً 18 سال یا اس سے بڑی عمر کے طلبہ یونیورسٹی میں داخلہ لیتے ہیں۔ انگلستان میں حکومتی خرچے پر چلنے والی 90 سے زیادہ جامعات یعنی یونیورسٹیاں ہیں۔ طلبہ کو گزارے کے لیے سٹوڈنٹ لون یعنی تعلیمی قرضہ دیا جاتا ہے۔ یونیورسٹی میں تین سال تعلیم کے بعد گریجوائٹ ڈگری دی جاتی ہے۔ ایک سال مزید تعلیم کے بعد طلبہ کو ماسٹرز کی ڈگری یا تین سال اضافی تعلیم کے بعد پی ایچ ڈی کی ڈگری دی جاتی ہے۔

انگلستان کی جامعات کو دنیا کی بہترین جامعات میں شمار کیا جاتا ہے۔ ان میں کیمبرج یونیورسٹی، امپریل کالج، آکسفورڈ یونیورسٹی، یونیورسٹی کالج لندن وغیرہ دنیا کی دس بہترین جامعات میں سے ہیں۔ لندن اسکول آف اکنامکس کو معاشیات کی تعلیم اور تحقیق کے حوالے سے دنیا کا بہترین ادارہ گردانا جاتا ہے۔ یونیورسٹی کی ڈگری کی کئی اقسام ہوتی ہیں جو فرسٹ کلاس، اپر سیکنڈ کلاس اور لوئر سیکنڈ کلاس، تھرڈ کلاس اور ان کلاسی فائیڈ یعنی تھرڈ کلاس سے بھی نیچے ہوتی ہیں۔

سائنس اور ٹیکنالوجی ترمیم

سائنس اور ریاضی کے شعبے میں اہم انگریز سائنس دانوں میں سر آئزک نیوٹن، مائیکل فیراڈے، رابرٹ ہک، رابرٹ بوائل، جوزف پریسٹلے، جے جے تھامپسن، چارلس ببیج، چارلس ڈارون، سٹیفن ہاکنگ، کرسٹوفر رن، ایلن ٹرنگ، فراسز کرک، جوزف لسٹر، ٹم برنرز لی، اینڈریو ویلز اور رچرڈ ڈاکنز اہم ہیں۔ صنعتی انقلاب چونکہ انگلستان سے ہی شروع ہوا تھا، اس لیے یہاں بہت ساری نئی ایجادات ہوئی تھیں جن میں ریلوے انجن، دخانی جہاز، ڈھیروں پل وغیرہ اہم ہیں۔ ایڈورڈ جینر کی دریافت کردہ چیچک کی ویکسین کے بارے کہا جاتا ہے کہ اس کی مدد سے جتنی جانیں بچائی گئی ہیں، وہ آج تک ہونے والی تمام جنگوں کی اموات کی کل تعداد سے زیادہ ہیں۔

انگریزی ایجادات میں جیٹ انجن، پہلی صنعتی سپننگ مشین، پہلا کمپیوٹر، پہلا جدید کمپیوٹر، انٹر نیٹ اور ایچ ٹی ٹی پی اور ایچ ٹی ایم ایل، پہلا کامیاب انتقالِ خون، میکانکی ویکیووم کلینر، لان موور، سیٹ بیلٹ، ہور کرافٹ، برقی موٹر، دخانی انجن جبکہ نظریات میں ڈارون کا نظریہ ارتقا، اٹامک تھیوری اہم ہیں۔ نیوٹن نے بے شمار ایجادات کے ساتھ ساتھ بہت سارے نظریے بھی پیش کیے۔

قومی علامات ترمیم

انگلستان کے جھنڈے پر سینٹ جارج کی صلیب بنائی ہوئی ہے۔ یہ جھنڈا تیرہویں صدی عیسوی سے چلا آ رہا ہے۔

دیگر سرکاری اور غیر سرکاری علامات اور نشانات میں گلاب، سفید ڈریگن اور تین شیر سرکاری علامت ہیں۔ تین شیر رچرڈ شیردل نے سب سے پہلے استعمال کیے تھے۔ انگلستان کا قومی ترانہ کوئی نہیں لیکن گاڈ سیو دی کوئین کو استعمال کیا جاتا ہے۔

حوالہ جات ترمیم

  1. "2011 Census: KS201EW Ethnic group: local authorities in England and Wales"۔ Office for National Statistics۔ اخذ شدہ بتاریخ 18 اپریل 2014 
  2. Region and Country Profiles, Key Statistics and Profiles, October 2013, ONS. Retrieved 9 August 2015.