ہم جنس پرست اردو شاعر۔ صحافی۔ کالم نگار اصل نام افتخار نسیم۔ پاکستان کے شہر فیصل آباد میں پیدا ہوئے۔ ان کا بچپن فیصل آباد میں گذرا اس کے بعد کچھ بڑے ہوئے تو ہیجڑوں کی سنگت میں ان کی مڑھی ( ہیجڑوں کا مرکز) میں ان کے لڑکپن کا اچھا خاصا حصہ گزرنے لگا۔ ہیجڑوں کی پوری دنیا اور وہاں استعمال ہونے والے پیچیدہ الفاظ انھوں نے اپنے ایک افسانے میں بھی بیان کیے۔ اس کے بعد افتخار امریکا چلے گئے جہاں پر افتی نے امریکا میں کالج جوائن کیا، کلب میں ناچے اور طرح طرح کے کاموں کے ساتھ ساتھ مرسیڈیز کاروں کے سیلز مین بھی رہے۔ افتی وہ پہلے شاعر ہیں جنھوں نے اردو شاعری میں گے یا ہم جنس احساسات اور شناخت کی بات ببانگ دہل کی ہے۔ افتی صرف خود ہی گے نہیں بلکہ ہمعصر امریکا میں گے حقوق کی تحریک کا ایک مشہور نام بھی ہیں۔ وہ شکاگو سٹی کے ایک بڑے اعزاز ’شکاگو گے اینڈ لزبین ہال آف فیم‘ کو حاصل کرنے والے پہلے پاکستانی ہیں۔ اردو کے نقاد احمد سہیل نے نے افتی پر ایک مضمون بعنواں"۔ ۔افتخار نسیم اردو کی " گے " شاعری کا ابو نواس :معاشرتی تناو،احتجاج اورتیسری جنس کی مزاحمتی آواز":: لکھا۔

"افتخار نسیم عرف " افتی" نے اپنی انگریزی نظموں کا مجموعہ MYRMECOPHILE{ معنئی: عضویات} آٹھ دسمبر 2007 کو مجھے بھجوائی تھی، اس کتاب میں اکیاون/ 51 نظمیں شامل ہیں۔ افتی نسیم 15 ستمبر 1946 میں پاکستانی پنجاب کے شہر لائل پور { اب فیصل آباد} میں پیدا ہوئے۔ ان کا انتقال 22جوالائی 2011 مین امریکا کے شہر شکا گو میں دل کا شدید دورہ پڑنے کے بعد وہ دو دن کومے میں رہ کر ہوا۔ ان کی موت کیا ایک بڑی وجہ کثرت مئے نوشی بھی تھی وہ اردو کے پہلے " گے"/ امرد پرست/ اور ہم جنس پرست شاعر، ادیب، افسانہ نگار، صحافی، نشر کار اور عوامی مقرر تھے۔ وہ فیصل آباد میں ہینجڑوں کی سنگت "مٹرھی" میں بھی رہے۔ جب انھوں نے محسوس کیا کہ وہ پاکستان میں " گے" ہونے کے سبب غیر محفوظ ہیں تو وہ امریکا نقل مکانی کرگئے۔ اور شکاگو میں آباد ہوئے۔ انھون نے اپنی ہم جنسیت کو کو بڑی دلیری کے ساتھ پیش ہی نہیں کیا۔ بلکہ مخصوص احساسات کوببانگ دہل اپنے مخصوص احساسات، حسیّت کو ااہنی معاشرتی اور ادبی شناخت کونئی جمالیاتی رنگوں میں اپنی تحریروں میں پیش کیا۔ ایک دن افتی نسیم نے مجھ سے سوال کیا ۔۔"میری شناخت کیا ہے، میں مرد ہوں یا عورت"؟۔۔۔ بھر خود ہی کہنے لگے " شاید میں عورت ہی ہوں"۔۔۔۔ تو میں نے ان سے مذاق میں کہا تم " بہن نما بھائی ہو" تو بہت ہنسے۔ انھوں نے اردو ادب میں فرسودہ قدامت اور اقدار سے اغماض پرتا اور اس فرسودگی پر علم بغاوت بلند کیا۔ ان کے ادبی اظہار میں ابہام بھی ہے اس کی وجہ ان کا وہ ذہنی اور اعصابی تناو ہے جو تشکیک ، وجودی بحران ،لایعنیت اور مزاحمت تک انھیں لے جاتا ہے اور غیر مانوس لفظیات ان کی تحریروں میں جگہ پالیتی ہیں۔ وہ محفل پسند انسان تھے۔ فقری بازی اور لطیفہ گوئی میں ان کا کوجواب نہیں تھا۔اپنی مہمان نوازی کے لیے بھی بہت مشہور تھے۔ افتی غزل کے بھی اچھے شاعر تھے۔ ان کی یہ غزل ملاخطہ ہو:

بارشوں کے بعد ست رنگی دھنک آ جائے گی

کُھل کے رَو لو گے تو چہرے پر چمک آجائے گی

پنکھڑی جتنا بچائے چور جھونکوں سے اُسے

پُھول تو جب بھی کِھلا ، اُس کی مہک آ جائے گی

آج بھی مجھ کو یہ لگتا ہے کہ اگلے موڑ پر !

جس پہ اِک پِیلا مکاں تھا، وہ سڑک آ جائے گی

کچھ نہیں سمجھے گا کوئی، لاکھ تم کوشش کرو!

جب دِلوں کے درمیاں دیوارِ شک آ جائے گی

روز مِلنا بھی نہیں اچھّا نَسِیؔم اُس شخص سے !

ورنہ اِک دِن تجھ میں بھی اُس کی جَھلک آ جائے گی

افتی نسیم کا "گے ازم اور شاعری" پر اکثر گیان چند جین، خشونت سنگھ، ، کیرن ہاکنگ، کارا جوسن، سارا سیلری عذرا رضا سے مکالمہ اور خط کتابت رھتی تھی۔ وہ اردو کے علاوہ انگریزی اور ہنحابی { شاہ مکھی} میں لکھا کرتے تھے۔ ان کی پانچ کتابیں ۔۔" نرمان ۔۔۔ غزال ۔۔۔۔ آبدوز ۔۔۔ شبری ۔۔۔ افتی نامہ ۔۔۔ کے ناموں شائع ہو چکی ہیں۔ وہ شکاگو میں ایک " گے" انجمن " سنگت" کے روح روان بھی رہے ہیں۔ افتخار نسیم اپنے ہندوستانی جیوں ساتھی " پریم " کے ساتھ رہا کرتے تھے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

" کنڈوم"۔۔۔۔۔  CONDOM

*** افتخار نسیم ***

۔۔۔۔۔۔۔ ترجمہ: احمد سہیل ۔۔۔۔۔۔

ہم خلانوردوں کی طرح ملتے ہیں

خلا میں خلا کے ہمراہی

جو ہمارے جسموں کا حصہ نہیں ہیں

ایک دوسری کو چھو

یہ کس قسم کا ملاپ ہے

اس طرح تم سے جدا ہو جاو

یہی بہتر ہے

ہمارے جسموں کی تپش

ہمارے جسموں کو جلاتی ہے

" لے ٹیکس "{ کنڈوم} میں لپٹا ہوا

او۔۔۔ جو یہ راز جانا چاھتا ہے

میرا جسم ٹھیک ہے، جیسا ہونا چاہیے

میں اس کے گرم جسم کا متمنی ہوں

تمھاری جلد

میری بقیہ زندگی کے لیے ہے۔ { احمد سہیل}1

بیرونی روابط

ترمیم