الجھاؤ، الجھن یا کنفیوژن (انگریزی: Confusion) وہ کیفیت ہے جب آدمی کا دماغ دو باتوں کے درمیان یہ تصفیہ نہیں کر سکتا کہ کیا صحیح ہے۔ مثلًا کسی جرم کی پاداش میں ایک علاقائی عدالت کڑی سزا تجویز کرتی ہے جب کہ متوازی اہمیت کی حامل ایک اور عدالت اس جرم کو ہلکے میں لیتے ہوئے معمولی سزا دیتی ہے یا محض جرمانہ پر اکتفا کرتی ہے تو آگے چل کر یہ دونوں عدالتی فیصلے اپنے آپ میں نظیر بن سکتے ہیں اور ماہرین قانون کی رائے اپنے سے موافق فیصلے پر ہی مائل ہو سکتی ہے جب کہ دونوں فیصلوں کی موزونیت زیر نظر معاملے میں کس کا اطلاق راجح ہے، یہ جج صاحب کے لیے سر درد کا باعث ہو سکتا ہے۔

مثالیں

ترمیم

مذہبی معاملوں میں جدید مفکرین میں کافی الجھاؤ ہے۔ اس ضمن میں مولانا وحید الدین خان نے کا ایک تجزیاتی قول ہے: الہٰیات کے معاملے میں جدید ذہن سخت کنفیوژن (الجھاؤ) کا شکار ہے۔ اِس کا ایک اندازہ پروفیسر پال ڈیویز کے مذکورہ مضمون سے ہوتا ہے۔ملحد فلاسفہ اکثر یہ کہتے رہے ہیں کہ اگرمذہبی عقیدے کے مطابق، خدا نے کائنات کو بنایا تو خود خدا کو کس نے بنایا۔ مگر یہ سوال مکمل طورپر ایک غیر منطقی (illogical) سوال ہے۔ یہ منطق (logic) کی نفی ہے۔ مزید یہ کہ مذکورہ اعتراض ایک کھُلی تضاد فکری پر قائم ہے۔ یہ لوگ خود تو کائنات کو بغیر خالق کے مان رہے ہیں، مگر خالق کو ماننے کے لیے وہ ایک خالق کا مطالبہ کرتے ہیں۔ حالاں کہ کائنات کا وجود اگر بغیر خالق کے ممکن ہے تو خالق کا وجود بھی بغیر خالق کے ممکن ہونا چاہیے[1]۔

بھارت کی شمالی ریاست اتر پردیش میں 2011ء میں ایک تھانے کے اندر ایک نابالغ لڑکی کے مبینہ آبرو ریزی اور قتل کا معمہ گمبھیر ہو گیا تھا۔ لڑکی کی لاش کے دوسرے پوسٹ مارٹم کی رپورٹ میں کہا گیا کہ اسے لکھیم پور ضلع کے تھانے میں قتل کیا گیا تھا لیکن عصمت دری نہیں کی گئی۔ ریاست کے انسپکٹر جنرل پولیس سبیش کمار سنگھ کے مطابق دوسرے پوسٹ مارٹم کی رپورٹ میں موت کی وجہ گلا گھونٹ کر قتل بتائی گئی ہے جبکہ پہلے کہا گیا تھا کہ یہ خودکشی کا معاملہ ہے۔[2] اس طرح یہ معاملہ تحقیق کاروں ہی ایک لیے ایک لجھاؤ بھرا معاملہ بن گیا تھا۔

مزید دیکھیے

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم