ابو محمد حکم بن عتیبہ العجلی (پیدائش :47ھ - وفات:115ھ / 668 ):آپ کوفہ کے تابعی ، محدث اور حدیث نبوی کے راویوں میں سے ہیں۔بعض صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم سے آپ نے سماع کیا، جن میں: زید بن ارقم رضی اللہ عنہ، انس بن حذیفہ البحرانی، ابو جحیفہ السوائی رضی اللہ عنہما وغیرہ شامل ہیں۔

الحکم بن عتیبہ
معلومات شخصیت
پیدائشی نام الحكم بن عتيبة
تاریخ پیدائش 670ء کی دہائی  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 730ء کی دہائی  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
کوفہ   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت سلطنت امویہ   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
کنیت أبو محمد
عملی زندگی
نسب الكندي
پیشہ محدث   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

نام ونسب

ترمیم

حکم نام ابو عبد اللہ کنیت، کندہ کے غلام تھے۔

سیرت

ترمیم

ابو محمد الحکم بن عتیبہ کا شمار اہل کوفہ کے ممتاز تابعین میں ہوتا ہے،آپ کندہ کے غلام تھے۔ اسی لیے آپ کو عدی بن عدی الکندی کہا جاتا ہے۔ اور کہا جاتا ہے کہ ان کا تعلق کندہ قبیلہ سے تھا۔ ۔ سفیان بن عیینہ نے ان کے بارے میں کہا: "کوفہ میں الحکم اور حماد بن ابی سلیمان جیسا کوئی نہیں تھا۔" عباس الدوری نے کہا: "الحکم عبادت اور نیک آدمی تھے" اور احمد بن حنبل نے کہا: "وہ عمرو بن مرہ اور ابو حصین کے بغیر نہیں ہے۔" اور مسروق بن نے کہا۔ سب سے زیادہ مناسب حدیث ہے: "الحکم بن عتیبہ کی وفات 115 ہجری میں کوفہ میں ہشام بن عبد الملک کی جانشینی کے دوران ہوئی۔[2]:[3] ،[4]

روایت حدیث

ترمیم

ابو جحیفہ السوعی، شریح بن حارث القدی، عبد الرحمٰن بن ابی لیلیٰ، ابو وائل شقیق بن سلمہ، ابراہیم بن یزید النخعی، صاع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے۔ عد بن جبیر، مصعب بن سعد بن ابی وقاص، طاؤس بن کیسان، عکرمہ، ابن عباس کے مؤکل، مجاہد بن جبر، ابو الدوحہ مسلم بن صبیح اور علی زین العابدین، ابو الشاہ عطاء المحربی، امیر الشعبی، عطاء بن ابی رباح، الحسن بن مسلم، عمرو بن میمون، مقاصم، ابن عباس کے مؤکل، ابی عمر السنی، عرق بن مالک، یحییٰ بن آلجزار، خیثمہ بن عبد الرحمن، سالم بن ابی الجعد، قیس بن ابی حازم، عمرو بن نافع، ابو صالح السمان اور ابراہیم التیمی۔ حاجیہ بن عدی الکندی، الحسن العرنی، حنش الکنانی، زر بن عبد اللہ الحمدانی، راجا بن حیوہ، سعد بن عبیدہ، سعید بن عبد الرحمٰن بن ابزی، شہر بن حوشب، عبد اللہ بن ابی اوفی، عبد اللہ بن شداد بن الحد، عبد اللہ بن نافع، بنی ہاشم کے مؤکل اور عبد الحمید بن عبد الرحمن بن زید بن الخطاب، عبید اللہ بن ابی رافع، عروہ بن النزل التمیمی۔ ، عمارہ بن غازیہ، ابو میسرہ، عمرو بن شرہبیل، عمرو بن شعیب، القاسم بن مخیمرہ، محمد الباقر، محمد بن کعب القرازی، موسیٰ بن طلحہ بن عبید اللہ، میمون بن ابی شبیب، میمون بن مہران۔ اور نافع، ابن عمر کے موکل، یزید بن شریک التیمی، یزید بن صہیب الفقیر، ابوبکر بن عبدالرحمٰن بن الحارث بن ہشام، عائشہ بنت سعد بن ابی وقاص اور شبیب بن غرقدہ البرقی۔

جراح و تعدیل

ترمیم

ابن سعد نے کہا: "الحکم بن عتیبہ ثقہ، فقیہ، علم والا، بلند پایہ، بزرگ اور بہت سے احادیث کے حامل تھے۔" احمد بن حنبل کہتے ہیں: "لوگوں نے الحکم بن عتیبہ اور پھر منصور کو ابراہیم میں قائم کیا۔" اور عجلی نے کہا: "الحکم ثقہ، ثابت، فقیہ، ابراہیم کے عظیم اصحاب میں سے تھے اور سنت کے پیروکار تھے۔" عبدالرحمٰن بن مہدی نے کہا: "یہ ثابت، ثقہ ہے، لیکن مختلف۔" یحییٰ بن معین، ابو حاتم اور نسائی نے اس کی توثیق کی، جیسا کہ محدثین کے گروہ نے ان سے روایت کی ہے۔ [5] [6][7]

فضل وکمال

ترمیم

علمی اعتبار سے کوفہ کے ممتاز ترین علما میں تھے،علامہ ابن سعد لکھتے ہیں: کان الحکم بن عتیبۃ ثقۃ فقیھا عالما وفیعاکثیر الحدیث [8] اکابر علما ان کے کمالات کے معترف تھے، ابن عیینہ کا بیان ہے کہ کوفہ میں حکم کا مثل نہ تھا۔ اس عہد کے تمام علما ان کی دولتِ علم کے سامنے دامنِ احتیاط پھیلاتے تھے، مجاہدین رومی کہتے تھے کہ مجھ کو حکم کے حقیقی کمال کا پورا اندازہ اس وقت ہوتا تھا جب بڑے بڑے علما مسجد منی میں جمع ہوتے تھے اور وہ سب ان کی دولتِ علم کے دستِ نگر معلوم ہوتے تھے۔ [9]

ابراہیم نخعی ائمہ فقہ میں تھے، حکم ان کے خاص اصحاب میں تھے [10] ان کے فیض صحبت نے ان کو کوفہ کا بہت بڑا فقیہ بنادیا تھا۔ عبدہ بن ابی لبانہ کہتے تھے کہ میں نے دونوں کناروں کے درمیان حکم سے بڑا فقیہ نہیں دیکھا، لیث بن سلیم کہتے تھے کہ حکم ، امام شعبی سے بھی بڑے فقیہ تھے۔ [11]

شعبی کی جانشینی

ترمیم

شعبی کے بعد کوفہ کی مسند علم انہی کے حصہ میں آئی، اسرائیل بیان کرتے ہیں،کہ حکم کو میں نے سب سے پہلے شعبی کی موت کے دن جانا، ان کی موت کے بعد ایک شخص کوئی مسئلہ پوچھنے آیا، لوگوں نے اس سے کہا حکم بن عتیبہ کے پاس جاؤ۔ [12]

عبادت وریاضت

ترمیم

اس علم کے ساتھ وہ بڑے عبادت گزار بھی تھے، عباس زوزی کا بیان ہے کہ وہ صاحب عبادۃ و فضل تھے، پابندی سنت میں خاص اہتمام تھا۔

عظمت واحترام

ترمیم

ان کے علمی واخلاقی کمالات کی وجہ سے لوگوں کے دلوں میں ان کی بڑی عظمت تھی،مغیرہ بیان کرتے ہیں کہ جب وہ مدینہ آتے تھے تو لوگ ان کے لیے رسول اللہ ﷺ کا ساریہ خالی کردیتے تھے،اس میں وہ نماز پڑھتے۔ [13]

وفات

ترمیم

آپ نے 115ھ میں وفات پائی ۔

حوالہ جات

ترمیم