العنود بنت دحام (پیدائش 1957ء) اردن میں بنی صخر سے تعلق رکھنے والے الفیض قبیلہ کے شیخوں میں سے ایک شیخ دحام بن دردہ البخیت الفائز کی بیٹی ہیں۔ وہ 1972 ءسے 2003ء کے درمیان میں شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز آل سعود کی بیوی تھیں پھر ان کی طلاق ہو گئی۔ وہ چار بیٹیوں کی ماں ہیں: جواہر، ہالہ، ماہا اور سحر۔ [1]سنڈے ٹائمز اخبار نے ان دونوں بہنوں اور ان کی والدہ کے الزامات کی مکمل تفصیلات لندن میں سعودی سفارت خانے کو بھیجی اور ان کی طرف سے کوئی جواب نہیں دیا گیا اور اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق کو بھی والدہ العنود کا خط پہنچایا۔ خواتین کے خلاف تشدد کے بارے میں اقوام متحدہ کی خصوصی نمائندے راشدہ منگو نے ضروری اقدامات کرنے کی ہدایت کی۔ وہ 2003ء میں اپنی طلاق کے بعد سے لندن میں مقیم ہیں۔

العنود بنت دحام
معلومات شخصیت
پیدائش سنہ 1957ء (عمر 66–67 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت اردن   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شریک حیات عبداللہ بن عبدالعزیز (1972–2003)  ویکی ڈیٹا پر (P26) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تعداد اولاد 4   ویکی ڈیٹا پر (P1971) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان عربی   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

العنود اور ان کی بیٹیوں کا معاملہ

ترمیم

العنود الفائز نے اپنے دورہ سعودی عرب کے دوران میں امریکی صدر براک اوباما سے اپیل کی کہ وہ جدہ کے ایک محل میں ان کی خواہش کے برعکس ان کی چار بیٹیوں کی رہائی کے لیے مداخلت کریں جنہیں ان کے والد نے 14 سال سے نظر بند رکھا ہوا ہے۔ ابھی تک ان کا شناختی کارڈ یا پاسپورٹ نہیں بنا اور وہ دن میں ایک وقت کھانا کھاتی ہیں۔ [2]

العنود الفائز نے ٹائمز کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ ان کی چار بیٹیوں کو زبردستی پکڑ کر باہر کی دنیا سے الگ کر دیا گیا ہے۔ بادشاہ نے بیٹیوں کے سوتیلے بھائی کو ان کی نگرانی کے لیے مقرر کیا اور ان کے لیے محل سے نکلنے کی کوئی صورت موجود نہیں ہے۔ [3]

سنڈے ٹائمز اخبار نے ان دونوں بہنوں اور ان کی والدہ کے الزامات کی مکمل تفصیلات لندن میں سعودی سفارت خانے کو بھیجی اور ان کی طرف سے کوئی جواب نہیں دیا گیا اور اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق کو بھی والدہ العنود کا خط پہنچایا۔ خواتین کے خلاف تشدد کے بارے میں اقوام متحدہ کی خصوصی نمائندے راشدہ منگو نے ضروری اقدامات کرنے کی ہدایت کی۔ وہ 2003ء میں اپنی طلاق کے بعد سے لندن میں مقیم ہیں۔ [4]

حوالہ جات

ترمیم
  1. Rosa Meneses (2014)۔ "Las princesas encerradas en palacio"۔ El Mundo 
  2. Phyllis Chesler (27 جنوری 2015)۔ "The four Saudi princesses: Obama mum on plight of Muslim women"۔ New York Post 
  3. Hugh Tomlison (2014)۔ "Obama asked to help Saudi princesses 'held by King"۔ The Times 
  4. Ishaan Tharoor (25 جنوری 2015)۔ "King Abdullah dead: The late Saudi monarch's 'jailed' princesses"۔ The Sydney Morning Herald