طوفان
اقسام
ترمیم- ہریکین
- سائیکلون
- ٹائی فون
- ٹورنیڈو
ٹورنیڈو
ترمیمٹورنیڈو ایک تباہ کن طوفان جو چکر کھاتی ہوئی بڑھتے دھنوارے کی طرح کے کالے بادل سے زمین کی طرف اترتی دکھائی دیتی ہے جس میں ہوا کی رفتار 300 میل فی گھنٹہ تک پہنچ جاتی ہے- ٹورنیڈو کا موسم عموماً مارچ سے اگست کے مہینوں کے دوران میں رہتا ہے، لیکن وہ کسی بھی وقت آ سکتے ہیں-
یہ کسی بھی ریاست میں آ سکتا ہے لیکن زیادہ تر ایسا علاقہ جسے عام طور پر "ٹورنیڈو کا گلیارا" کہا جاتا ہے، وہان آ تا ہے- یہ لفظ چودھویں صدی کے ایک جہازراں کا ہے جس نے، شدید طوفانی برق وباراں کو "ٹورنیڈو" کا نام دیا تھا- یہ ہسپانوی لفظ ٹروناڈا سے مشتق ہے، جس کے معنی "طوفان برق وباراں" ہے۔
ا گر موسم کی اطلاع یا خبروں میں یہ بتایا جاتا ہے کہ آپ کے علاقے میں ٹورنیڈو ہے تو، سب سے زیادہ ضروری چیز یہ ہے کہ کسی ایسی جگہ میں پناہ لیں جہاں کھڑکیاں نہ ہوں، جیسے غسل خانہ یا تہ خانہ۔
ہیریکن
ترمیمایک استوائی طوفان جس کا ایک "مرکز" ہوتا ہے- ہیریکن کے درجے میں آنے والے موسم کے لیے ہوا کی رفتار لازمی طور پر 74 میل فی گھنٹہ یا زیادہ ہونی چاہیے- "ہیریکن" ہسپانوی زبان کے لفظ ہراکن سے مشتق ہے۔
جب ہیریکن زمین آتا ہے تو، شدید بارش، تند ہوائیں اور بڑی بڑی لہریں عمارتوں، درختوں اور گاڑیوں کو تباہ کر سکتی ہیں- ہیریکن میں کسی پناہ گاہ میں چھپ جانا اور ٹیلی ویژن دیکھتے یا ریڈیو سنتے رہنا بہت ضروری ہے۔
کترینہ
ترمیماگست کے اواخر میں امریکا میں آنے والا طوفان ”کترینہ“ اپنے پیچھے تباہی و بربادی کے المناک نقوش چھوڑ گیا۔ گذشتہ سال 25 دسمبر کو جنوب مشرقی ایشیا میں آنے والے سمندری زلزلے سونامی کے زخم ابھی مندمل نہیں ہوئے تھے کہ امریکا کی دس ریاستیں ”کترینہ“ طوفان کی زد میں آ گئیں۔ صرف ایک مہینہ کے دوران میں آنے والی قدرتی آفات سے لاکھوں انسان متاثر ہوئے ہیں۔
28 اگست کی صبح، ریاست ہائے متحدہ امریکا کی جنوبی ریاستوں پر قیامت بن کر ٹوٹی جب 169 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے چلنے والی ہواؤں نے سمندر میں 28فٹ بلند لہریں پیدا کر دیں جو طوفان کی صورت اختیار کر گئیں۔ کترینہ نامی اس سمندری طوفان نے ساحلی کناروں کوعبور کیا اور شہر کے شہر روند ڈالے۔ یہقیامت خیز طوفان امریکا کی جنوبی ریاست لوزیانہ کے بڑے میٹروپولیٹن شہر نیواورلینز کے ساحلوں سے داخل ہوا اور دیکھتے ہی دیکھتے مزید دس امریکی ریاستوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ اس طوفان نے مِسی سپّی، لوزیانا اور البامہ میں بھی قیامت برپا کردی اور یہاں بے پناہ جانی اور مالی نقصان ہوا۔ طوفانی لہریں پلوں اور ڈیم کو بہا کر لے گئیں، نیواورلینز کا حفاظتی پشتہ ٹوٹ گیا۔ بندرگاہ پر واقع شہر بلوکسی مکمل طور پر متاثر ہوا۔ خلیج میکسیکو میں واقع پٹرولیم کی تنصیبات کو شدید نقصان پہنچا۔ سڑکیں بہہ گئیں، مکانات مسمار ہو گئے اور بے شمار مکانات و درخت کا تو نام و نشان تک باقی نہ رہا۔ کترینہ کے بعد امریکی ریاست کیرولینا بھی ایک نسبتاً کم شدید طوفان ”اوفلیا“ سے متاثر ہوئی۔ اس طوفان کی شدت امریکا تک پہنچتے پہنچتے بہت کم ہو چکی تھی۔ لیکن امریکا کی صنعتی پیداوار متاثر ہوئی اور کئی علاقوں میں بجلی کی فراہمی منقطع ہو گئی۔ دوسری طرف چین میں زی جیاننگ، فیوجیان اور جیانگ زی صوبوں میں تالم نامی طوفان نے 4 لاکھ افراد کو بے گھر کر دیا۔ سینکڑوں افراد ہلاک ہوئے۔ اسی دوران میں جاپان میں بھی ناپی نامی طوفان نے تباہی پھیلائی اور ایک لاکھ افراد گھر چھوڑنے پر مجبور ہو گئے۔ اگلا طوفان ”ریٹا“ امریکا کے جنوبی ساحلوں سے ٹکرایا۔ دنیا ابھی ان طوفانوں کی تباہی کا اندازہ بھی نہیں لگاسکی تھی کہ تائیوان اور چین کی طرف بڑھنے والے سمندری طوفان (ٹائی فون) ”خانون“ کی خبر نے دل دہلا دیا۔ آخری خبر آنے تک 22 ستمبر کو بنگلہ دیش اور بھارت میں خلیج بنگال سے اُٹھنے والے سمندری طوفان سے زبردست تباہی ہو چکی ہے، سمندر کی سطح تین میٹر بلند ہو گئی، جس سے ایک ہزار مچھیرے لاپتہ اور 300 دیہات زیرِ آب آ گئے۔ پے درپے آنے والے سمندری طوفانوں اور بعض خطوں میں شدید بارشوں سے پیدا ہونے والی خطرناک سیلابی صورت حال نے دنیا بھر کے انسانوں کو شدید خوف ہراس میں مبتلا کر دیا ہے بہت سے لوگ یہ سوچنے پر مجبور ہوتے جا رہے ہیں کہ آخر ان طوفانوں کے اسباب کیا ہیں اور تواتر سے یہ طوفان کیوں برپا ہو رہے ہیں؟ اس کاواضح جواب خودخالقِ کائنات اللہ رب العزۃ نے دیاہے کہ یہ میری نشانیاں ہیں،۔ تاکہ تم اس سے ڈرواوراس کی اطاعت کرو
سائیکلون اور ہریکین
ترمیماخبارات و رسائل میں امریکی طوفانوں کی خبروں کے ساتھ ہریکین اور سائیکلون کی اصطلاحات بھی سامنے آئیں۔ تائیوان کی طرف بڑھنے والے ”خانون“ نامی طوفان کو ٹائی فون لکھا گیا۔ آئیے پہلے آپ کو ان اصطلاحات کے معنی بتاتے ہیں:
اردو میں استعمال ہونے والا لفظ ”طوفان“ کئی زبانوں میں تلفظ کی معمولی تبدیلی سے اسی معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ طوفان کا لفظ عربی، فارسی اور اردو میں ایک ہی معنی اور تلفظ رکھتا ہے۔ یونانی زبان میں اسے Tuphon(طوفون)، چینی میں Tai feng (تائی فینگ)، جاپانی میں Taifu (تائی فو) اور پرتگالی زبان میں Tufao (طوفاؤ) کہا جاتا ہے اور ان الفاظ کے معنی تیز ہوا، سیلاب یا طغیانی کے ہیں۔اسپینی زبان کے لفظ Cyclone کا مطلب دائرہ یا Circle ہے۔ جبکہ ہریکین Hurricane کی وجہ تسمیہ ایک دلچسپ روایت ہے جس کے مطابق قدیم جزائر ہند (ویسٹ انڈیز وغیرہ) میں طوفان برپا کرنے والے دیوتا کو Huracan کہا جاتا تھا۔ چنانچہ تباہ کن طوفان کو ہریکین کہا جانے لگا۔موجودہ سائنسی زبان میں ہریکین ایک خاص درجہ کے طوفان کو کہتے ہیں۔ ہر طوفان ہریکین نہیں ہوتا۔ طوفان کو سائیکلون بھی کہا جاتا ہے۔ سائیکلون کی شدید شکل ہریکین ہے۔ سائیکلون کی کئی اقسام ہوتی ہیں۔ ان میں سے ہریکین کا سبب بننے والے طوفان کو ٹراپیکل سائیکلون کہتے ہیں۔ جس طرح شدت کی کمی بیشی کی وجہ سے اس طرز کے سمندری طوفان کو ہریکین، سائیکلون یا ٹائی فون کا نام دیا جاتا ہے اسی طرح خطّے اور سال کی مناسبت سے بھی ان کے نام رکھے جاتے ہیں۔ کترینہ، اوفیایا اور ریٹا جیسے کُل 21 نام صرف بحراوقیانوس میں سال 2005ءمیں آنے والے ہریکین کے لیے مخصوص ہیں جو ہر پانچ سال بعد دُہرائے جاتے ہیں۔ اسی طرح ہر سمندر اور ساحلی خطّے میں آنے والے طوفان کا الگ نام رکھا جاتا ہے، اگر بحیرہ عرب میں 2004ءسے 2009ءکے درمیان کوئی ہریکین یا سائیکلون وجود میں آئے کا تو اُن کے لیے فانوس، نرگس، لیلیٰ، نیلم، وردہ، نیلوفر، تتلی اور بلبل کے نام مخصوص ہیں۔
طوفانوں کی شدّت
ترمیمبحر اوقیانوس
ترمیمبحر اوقیانوس (اٹلانٹک اوشین) یورپ و افریقہ اور براعظم شمالی و جنوبی امریکا کے درمیان واقع ہے۔ اس سمندر میں بننے والے اکثر طوفان ٹراپیکل سائیکلون ہوتے ہیں۔ یہ طوفان افریقہ سے خط استواء کی جانب بڑھنے والی گرم ہواؤں سے بنتے ہیں۔ سائنسدانوں نے گرم ہوائی طوفان یا ٹراپیکل سائیکلون کی شدّت کو سات درجوں میں تقسیم کیا ہے۔ پہلے درجے میں طوفان کی شدت 74 سے 95 کلومیٹر فی گھنٹہ تک ہوتی ہے جو عام سی گرج چمک پر مشتمل سائیکلون ہے۔ اگر سائیکلون میں ہوا کی شدت 96 سے 110 کلومیٹر فی گھنٹہ ہوجاتی ہے تو اسے دوسرے درجہ کا طوفان کہا جاتا ہے۔ اس طوفان میں عموماً ماہی گیروں کو کشتیاں ساحلوں پر لگا دینے کی تاکید کی جاتی ہے اور پانی خشکی پرنہیں چڑھتا۔ تیسرے درجے کے سائیکلون کو ٹراپیکل ڈپریشن کہا جاتا ہے جو معتدل درجہ کا طوفان ہے۔ اس کی شدت 111 سے 130 کلومیٹر فی گھنٹہ تک ہے۔ اس طوفان میں ہوا کی شدت سے بعض درخت زمین سے اُکھڑسکتے ہیں۔ چوتھے درجے کا سائیکلون ہریکین میں شمار کیا جاتا ہے۔ اس میں گرج چمک کے ساتھ 131 سے 155 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے ہواؤں کے جھکڑ چلتے ہیں۔ یہ طوفان کچے مکانات، درختوں اور کمزور مکانوں کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔ امریکا میں آنے والے کترینہ ہریکین کی شدت ابتدا میں پانچویں درجہ کی تھی۔ ایسے طوفان میں ہواؤں کی شدت 155 سے 200 کلومیٹر سے زائد تک ہو سکتی ہے۔ یہ سائیکلون پورے پورے شہر ملیا میٹ کردینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اِسے امریکا کی خوش قسمتی کہئے کہ کترینہ اپنی پوری قوت کے ساتھ امریکی ریاستوں سے نہیں ٹکرایا، بلکہ جنوب سے محض چُہوتا ہوا گذرا۔ 1970ءمیں سابق مشرقی پاکستان (موجودہ بنگلہ دیش) میں اِسی شدت کا ایک طوفان (190 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سی) آیا تھا جس میں ایک اندازے کے مطابق تقریباً دس لاکھ افراد جاں بحق ہو گئے تھے۔ گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ کے مطابق یہ اب تک معلوم تاریخ کا سب سے جان لیوا طوفان ہے۔ سائنسدانوں نے درجہ 6 اور 7 کے ہریکین کی شدّت کا اندازہ بھی لگایا ہے۔ اﷲ نہ کرے کہ کبھی نوعِ انسانی کو ان درجوں کے طوفانوں سے گذرنا پڑے۔ ایسے ہولناک طوفانوں کا تصور کرکے ہی روح تک کانپ اُٹھتی ہے۔
ہریکین کیسے بنتا ہی؟
جس طرح دریا کی سطح پر اگر کوئی اونچ نیچ ہو جائے تو پانی کی روانی میں خلل پڑ جاتا ہے اور اس جگہ بھنور یا گردباد پیدا ہو جاتے ہیں، اس طرح کرہ ہوائی میں جب ہوائیں چلتی ہیں تو فضا میں مختلف مقامات پر درجۂ حرارت میں فرق آجانے کے باعث وہاں پر ہوا کے دباؤ میں فرق پڑجاتا ہے۔ چنانچہ مختلف مقامات پر ہوا کے دباؤ میں کمی و بیشی سے ہوا کی روانی میں رکاوٹ واقع ہوکر فضا میں بھنور سے پیدا ہونے لگتے ہیں، اس کے نتیجہ میں ہر سمت کی ہوائیں اپنا رُخ بدل لیتی ہیں اور چاروں طرف سے کم دباؤ کے مرکز کی طرف بھنور کی شکل میں چلنا شروع کردیتی ہیں۔ ہواؤں کے اس بھنور کو ہی سائیکلون یا ہریکین کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ سائنس دان بتاتے ہیں کہ جب ہوا گرم ہو تو یہ زمین سے اوپر کی جانب اُٹھتی ہے اور خالی جگہ پر فوراً ٹھنڈی ہوا آجاتی ہے تاکہ خلاء پورا ہو سکے۔ اس ہوائی چکر سے موسموں میں توازن پیدا ہوتا ہے۔ افریقہ کے جنوبی علاقوں سے ہوا بحراوقیانوس کی طرف بڑھتی ہے تو افریقی موسم کی وجہ سے یہ ہوا گرم ہوتی ہے۔ سمندر کے ساتھ چلنے والی یہ ہوا بڑی مقدار میں سمندری بخارات کی تبخیر Evaporation کا سبب بنتی ہے۔ اس سے سمندر کا درجہ حرارت بھی بڑھ جاتا ہے۔ گرم ہواؤں میں آبی بخارات اور سمندری پانی کی رگڑ سے اشتعال پیدا ہوجاتا ہے۔ ہوا کی رگڑ سے سمندر کی سطح پر ایک بھنور پیدا ہوتا ہے۔ مزید رگڑ اس بھنور کو ایک بڑے ہیٹ انجن Heat Engine میں تبدیل کردیتی ہے۔ جتنی رگڑ بڑھتی جاتی ہے بھنور کی تیزی میں بھی اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ اس بھنور کا انتہائی بالائی حصّہ پچاس ہزار فٹ تک چوڑا ہو سکتا ہے۔ بھنور میں تبدیل ہونے کے بعد یہ ہیٹ انجن ہریکین کی شکل اختیار کرلیتا ہے۔ یہ ہریکین شدید اور تیز ہوائیں بننے کا سبب بنتا ہے، اِسی کی بدولت شدید عملِ تبخیر Evaporation ہوتا ہے جس سے بادل بنتے ہیں۔ یہ طوفانی بھنور یا ہریکین شدید ہواؤں کے جھکڑ اور وسیع بادل بناتا ہے اور ان کی وجہ سے شدید گرج چمک کے ساتھ بارش ہوتی ہے۔ جس خطّے کی طرف اس ہریکین کا رُخ ہوجاتا ہے وہاں تاریکی چھا جاتی ہے اور شدید گھن گرج کے ساتھ بارش ہوتی ہے۔ سمندر میں یہ بھنور بھونچال لے آتا ہے اور یوں اگر کوئی بدقسمت ساحلی علاقہ یا خشکی اِس کی راہ میں آجائے تو پھر سمندری لہریں خشکی پر چڑھ دوڑتی ہیں۔ اس طرز کے سائیکلون بڑے سمندروں مثلاً بحراوقیانوس اور بحر الکاہل (پیسفک اوشین) میں اکثر بنتے رہتے ہیں۔ یہ سائیکلون کرئہ ہوائی کے لیے مفید ثابت ہوتے ہیں۔ اگر یہ سائیکلون صرف سمندروں تک محدود رہیں اور خشکی کی طرف نہ بڑھیں تو زمین کے کرئہ ہوائی کو توازن میں رکھتے ہیں لیکن جب کبھی ان کا رُخ خشکی کی طرف ہو جائے تو اپنی شدت کے لحاظ سے یہ وہاں بعض اوقات خوفناک تباہی پھیلاتے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق لوزیانہ اور اس کی قریبی ریاستوں پر قیامت برپا کردینے والا طوفان کترینہ پوری قوت سے نہیں ٹکرایا تا بلکہ ان ریاستوں کو محض چُہوتا ہوا گذرا تھا، لیکن پھر بھی اس نے امریکا کی معیشت کو زبردست نقصان پہنچایا اور امریکا نے کسی بھی قدرتی آفت کے موقع پر پہلی مرتبہ دوسرے ممالک سے مدد کی اپیل کی۔ اس طوفان میں بعض مقامات پر 230 کلومیٹر فیگھنٹہ کی رفتار سے ہوا چلی۔ اس شدت کی وجہ سے بہت سے لوگ ہوا میں اُڑگئے۔
سمندروں میں طوفان
ترمیمبحیرہ عرب
ترمیمپاکستان اور جنوب مغربی بھارت بحیرہ عرب کے ساحل پر واقع ہے۔ یہ سمندر قدرت کا عظیم تحفہ ہے جس میں بہت کم ہی کوئی شدید طوفان بنتے ہیں۔ بحیرہ عرب میں جنوری، فروری، مارچ، اپریل، جولائی، اگست اور ستمبر میں سائیکلون نہیں بنتے۔ جنوب مشرقی اور مرکزی بحیرۂ عرب میں سائیکلون عموماً مئی، جون، اکتوبر، نومبر اور دسمبر میں تشکیل پاتے ہیں۔ پاکستان بحیرہ عرب کے شمال میں واقع ہے۔ عام طور پر یہ سائیکلون شمال کی طرف نہیں بڑھتے یا شمال مغرب میں بھارتی گجرات کی طرف بڑھتے ہیں لیکن راستے میں ہی اکثر اپنی زیادہ تر قوت کھودیتے ہیں۔ خلیج بنگال: بحیرہ عرب کے برعکس خلیج بنگال کو سرکش سمندر کہا جا سکتا ہے۔ اس میں جنوری سے مارچ تک شاذ و نادر ہی سائیکلون تشکیل پاتا ہے لیکن باقی مہینوں میں طوفانوں کی امکانات زیادہ رہتے ہیں۔ جنوبی خلیج بنگال میں بننے والے سائیکلون مغربی یا مشرقی حصہ کی طرف بڑھتے ہیں۔ اس کے مشرق میں بنگلہ دیش واقع ہے جو اکثر و بیشتر طوفانوں سے نبرد آزما ہوتا رہتا ہے۔ مغرب میں سری لنکا واقع ہے۔ خلیج بنگال سے اُٹھنے والا سائیکلون مغرب میں چلے تو سری لنکا میں تمل ناڈو کے ساحل سے ٹکراتا ہے۔ خلیج بنگال کے سرکش طوفان بحیرہ عرب کے امن پسند سمندر کی طرف بھی بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن اس سمندر تک پہنچتے پہنچتے کمزور اور تقریباً بے اثر ہوجاتے ہیں۔ اس لیے بحیرہ عرب کے ساحلی شہروں کے لیے خطرہ نہیں بنتے۔ البتہ اپریل سے مئی تک خلیج بنگال میں تشکیل پانے والے سائیکلون بھارتی ریاستوں آندھرا پردیش اور اڑیسہ کے لیے ضرور چیلنج بن سکتے ہیں۔
بحرِ اوقیانوس
ترمیمبحر اوقیانوس کے آس پاس دنیا کے کئی اہم ممالک واقع ہیں۔ اس کے شمال مشرق میں یورپ کے کئی ممالک اور جنوب مشرق میں کئی افریقی ممالک واقع ہیں۔ جبکہ جنوب مغرب میں ویسٹ انڈیز، برازیل اور کئی دیگر ممالک ہیں۔ٹراپیکل بیلٹ پر ہونے کی وجہ سے امریکا کے جنوب میں، میکسیکو اور کیربین ممالک میں آنے والے سائیکلون کی تعداد زیادہ ہے۔ بحر اوقیانوس میں سائیکلون عموماً جون سے نومبر تک اُٹھتے ہیں۔ اگست سے ستمبر تک طاقتور سائیکلون بنتے ہیں جنہیں بجا طور پر ہریکین کہا جا سکتا ہے۔ شمال مشرق میں واقع یورپ کی طرف اُٹھنے والے سائیکلون عموماً زیادہ طاقتور نہیں ہوتے۔ اسی طرح کینیڈا اور امریکا کے شمالی علاقوں میں بھی طوفانوں کی زیادہ شدت نظر نہیں آتی۔ جیسا کہ پہلے بھی ہم نے بیان کیا تھا کہ عموماً امریکا کی جنوبی ریاستوں، میکسیکو اور کیریبین ممالک میں اُٹھنے والے طوفان زیادہ شدید ہوتے ہیں۔ حال ہی میں امریکا میں تباہی پھیلانے والا کترینہ نامی طوفان بھی اسی حصّہ سے اُٹھا تھا۔
بہرحال! کس علاقہ میں سائیکلون کتنا شدید یا کمزور ہے اس بارے میں تمام جائزے اندازوں پر قائم ہیں۔ کس وقت کس جگہ سائیکلون ہریکین میں تبدیل ہو جائے یہ کوئی نہیں کہہ سکتا۔ امریکا کی طرف بڑھنے والے کترینہ کی شدت کو سمجھنے میں بھی ناسا کو مشکلات ہوئیں۔ ایک اطلاع کے مطابق جاپان کے سائنسدانوں نے کترینہ کی ہولناکی سے ناسا ک پیشگی خبردار کر دیا تھا لیکن امریکی حکام کترینہ کی شدت کوپوری طرح نہ سمجھ سکے اور اسے درمیانے درجہ کا طوفان خیال کرتے رہے۔
طوفانوں میں اضافہ اور ماحولیاتی تبدیلیاں
ترمیمطوفانوں میں اضافہ کو دیکھتے ہوئے ان کی وجوہات کے حوالے سے سوالات اُٹھ رہے ہیں۔ بعض ماحولیاتی سائنسدانوں کا خیال ہے کہ صنعتی آلودگی، گرین ہاؤس ایفیکٹس اور زمین کا درجہ حرارت بڑھ جانے کی وجہ سے طوفانوں اور قدرتی آفات میں اضافہ ہو گیا ہے۔ ایمبسٹر MBister اور کے اے عما نویل نامی سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ ٹراپیکل اور سب ٹراپیکل سمندروں کی سطح پر درجہ حرارت میں پچھلے پچاس سالوں کے دوران میں 0.2 ڈگری سینٹی گریڈ کا اضافہ ہو گیا ہے۔ اس وقت یورپ، امریکا اور چین ماحولیاتی آلودگی پھیلانے والے سب سے بڑے خطے ہیں۔ آلودگی کنٹرول کرنے کے لیے ایک معاہدہ ”کیوٹو پروٹوکول“ تیار کیا گیا جس میں امریکا نے شرکت ہی نہیں کی۔ جبکہ کئی یورپی ممالک نے اس پر دستخط کیے اور ماحولیاتی آلودگی کنٹرول کرنے کے لیے چند اقدامات بھی کیے۔ لیکن دنیا کے لیے خطرہ بننے والے مسائل کا اجتماعی حل تلاش کرنا ضروری ہے ورنہ توازن بگڑنے کا تمام تر نقصان پوری نوعِ انسانی کو مجموعی طور پر بھگتنا پڑے گا۔
ہریکین یا سائیکلون دراصل ایک دیوقامت بگولے سے مشابہ ہوتا ہے جس میں ہوا ایک بے حد کم دباؤ کے مرکزے کے گرد بڑے حجم میں قوت کے ساتھ گھومتی ہے اور اس کی رفتار اپنی انتہا کو پہنچ جاتی ہے جو بیرونی اطراف میں بڑھتا جاتا ہے اور جس کو طوالت مرکز سے 20 یا 30 میل تک ہو سکتی ہے۔ مرکز کے گرد گھومنے والی ہوا کا قطر اوسطا 40 کلومیٹر ہوتا ہے، مگر یہ بعض اوقات بڑھ کر 80 کلومیٹر تک بھی پہنچ جاتا ہے۔ طوفان کا سب سے خطرناک حصّہ Surge ہوتا ہے۔ یہ پانی کے ایک عظیم گنبد کی مانند ہوتا ہے جس کی چوڑائی بعض مرتبہ 80 کلومیٹر تک ہوتی ہے اور اس کی راہ میں آنے والی ساحلی آبادی بُری طرح متاثر ہوتی ہے۔ سرج کے ساتھ طوفانی لہروں کے باعث ہرچیز ٹوٹ پھوٹ جاتی ہے اور سیلابی پانی میں بہہ جاتی ہے، یوں طوفان ہر شے کو اپنی راہ سے ہٹاتا اور آبادیوں کو روندتا چلا جاتا ہے۔ میامی میں نیشنل ہریکین سینٹر کے مطابق طوفان، فضا کی Dynamics کا ایک لازمی جزو ہیں۔ اپنی بے پناہ طاقت کے ساتھ بل کھاتا طوفان 3600 ملین ٹن ہوا کو آخری درجے میں 322 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چلانے اور 7.6 میٹر اونچی موجیں پیدا کرنے کی طاقت رکھتا ہے اور ایسی طوفانی بارش لانے کا موجب ہو سکتا ہے جو کثیر انسانی جانوں اور اثاثوں کی تلفی کا باعث ہو اور فضائی نظام کی یہ عظیم طاقت دیکھتے ہی دیکھتے 520,000 مربع کلومیٹر علاقے کو متاثر کرسکتی ہے۔
گذشتہ صدی کے تباہ کن طوفان
ترمیم1بھولا سائیکلون (1970ء): یہ طوفان 13 نومبر کی رات کو مشرقی پاکستان (موجودہ بنگلہ دیش) پر موت کی چادر لے کر بڑھا اور تقریباً دس لاکھ افراد کی زندگی کا چراغ گُل کر گیا۔ صرف بھولا نامی ایک علاقے میں ایک لاکھ سے زیادہ افراد جاں بحق ہوئے، اِسی لیے طوفان کو بھولا سائیکلون کہا جاتا ہے۔ یہ اب تک آنے والے طوفانوں میں سب سے ہولناک طوفان ہے۔ 1ہیزل سائیکلون (1954ء): تقریباً 1200 افراد ہلاک ہوئے۔ 1گیلوسٹون Galvaston (1900ء): اس ہریکین میں آٹھ سے بارہ ہزار افراد لقمۂ اجل بن گئے۔1میکسیکو ہریکین (1909ء): پندرہ سو افرادموت کی نیند سو گئے۔1Lake Okeechobee Hurricane (1932ء): ڈھائی ہزار سے 3107 اموات ہوئیں۔ 1ڈومینکن ری پبلک ہریکین (1930ء): دو سے آٹھ ہزار افراد ہلاک ہوئے۔ 1فی فی Fifi ہریکین (1974ء): آٹھ سے دس ہزار افراد جاں بحق ہو گئے۔ 1فلورا ہریکین (1963ء): 7200 افراد طوفان کی نذر ہوئے۔1کیوبا ہریکین (1932ء): 2500 سے 3107 افراد جان کی بازی ہارگئے۔ 1Hurricane Jeanne(2004ء): 3037 جان سے ہاتھ دھوبیٹھے۔ 1Yukatan ہریکین (1934ء): 3000 افراد اس طوفان کے شکار بنے۔ 1کیربیئن ہریکین (1935ء): 2150 افراد موت سے ہمکنار ہوئے۔ 1Hurricane David (1979ء): 2060 لوگوں کی موت واقع ہوئی۔ 1Hurricane Mitch(1998ء): 18277افراد زندگی کی جنگ ہارگئے۔
ہریکین کی ہیئت
ترمیمA: عام سمندری ہوائیں گرم خطوں سے آنے والی ہواؤں کی گرمی اور بخارات جذب کر لیتی ہیں۔
B: یہ گرم مرطوب ہوائیں درجہ حرارت میں تبدیلی کی وجہ سے اوپر کی طرف بڑھتی ہیں اور اس کے بخارات طوفانی بادلوں میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔
C: یہ ایک بڑے بھنور کی شکل میں گردش کرتے ہیں اور تجارتی ہوائیں انھیں آگے بڑھا دیتی ہیں۔