سورہ المطففین
قرآن مجید کی 83 ویں سورت جس میں 36 آیات ہیں۔
المطففین | |
دور نزول | مکی |
---|---|
اعداد و شمار | |
عددِ سورت | 83 |
تعداد آیات | 36 |
الفاظ | 169 |
حروف | 740 |
گذشتہ | الانفطار |
آئندہ | الانشقاق |
نام
پہلی ہی آیت ویل للمطففین سے ماخوذ ہے۔
زمانۂ نزول
اس کے انداز بیاں اور مضامین سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ مکۂ معظمہ کے ابتدائی دور میں نازل ہوئی ہے جب اہل مکہ کے ذہن میں آخرت کا عقیدہ بٹھانے کے لیے پے در پے سورتیں نازل ہو رہی تھیں اور اس کا نزول اس زمانے میں ہوا ہے جب اہل مکہ نے سڑکوں پر، بازاروں میں اور مجلسوں میں مسلمانوں پر آوازے کسنے اور ان کی توہین و تذلیل کرنے کا سلسلہ شروع کر دیا تھا، مگر ظلم و ستم اور مار پیٹ کا دور ابھی شروع نہیں ہوا تھا۔ بعض مفسرین نے اس سورت کو مدنی قرار دیا ہے۔ اس غلط فہمی کی وجہ دراصل ابن عباس رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ کی یہ روایت ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مدینے تشریف لائے تو یہاں کے لوگوں میں کم ناپنے اور تولنے کام مرض بری طرح پھیلا ہوا تھا۔ پھر اللہ تعالٰی نے ویل للمطففین نازل کی اور لوگ بہت اچھی طرح ناپنے تولنے لگے (نسائی، ابن ماجہ، ابن مردویہ، ابن جریر، بیہقی فی شعب الایمان) لیکن، جیسا کہ سورۂ دہر میں بیان کیا جا چکا ہے، صحابہ اور تابعین کا عام طریقہ یہ تھا کہ ایک آیت جس معاملے پر چسپاں ہوتی ہے اس کے متعلق وہ یوں کہا کرتے تھے کہ یہ فلاں معاملے میں نازل ہوئی ہے۔ اس لیے ابن عباس کی روایت سے جو کچھ ثابت ہوتا ہے وہ صرف یہ ہے کہ جب ہجرت کے بعد نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مدینہ کے لوگوں میں یہ بری عادت پھیلی ہوئي پائی تو اللہ تعالٰی کے حکم سے آپ نے یہ سورت ان کو سنائی اور اس سے ان کے معاملات درست ہو گئے۔
موضوع اور مضامین
اس کا موضوع بھی آخرت ہے۔
پہلی چھ آیتوں میں اس عام بے ایمانی پر گرفت کی گئی ہے جو کاروباری لوگوں میں بکثرت پھیلی ہوئی تھی کہ دوسروں سے لینا ہوتا تھا تو پورا ناپ کر اور تول کر لیتے تھے، مگر جب دوسروں کو دینا ہوتا تو ناپ تول میں ہر ایک کو کچھ نہ کچھ گھاٹا دیتے تھے۔ معاشرے کی بے شمار خرابیوں میں سے اس ایک خرابی کو، جس کی قباحت سے کوئی انکار نہ کر سکتا تھا، بطورِ مثال لے کر یہ بتایا گیا ہے کہ یہ آخرت سے غفلت کا لازمی نتیجہ ہے۔ جب تک لوگوں کو یہ احساس نہ ہو کہ ایک روز خدا کے سامنے پیش ہونا ہے اور کوڑی کوڑی کا حساب دینا ہے اس وقت تک یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ وہ اپنے معاملات میں کامل راست بازی اختیار کر سکیں۔ کوئی شخص دیانت داری کو "اچھی پالیسی" سمجھ کر بعض چھوٹے چھوٹے معاملات میں دیانت برت بھی لے تو ایسے مواقع پر وہ کبھی دیانت نہیں برت سکتا جہاں بے ایمانی ایک "مفید پالیسی" ثابت ہوتی ہو۔ آدمی کے اندر سچی اور مستقل دیانت داری اگر پیدا ہو سکتی ہے تو صرف خدا کے خوف اور آخرت پر یقین ہی سے ہو سکتی ہے، کیونکہ اس صورت میں دیانت ایک "پالیسی" نہیں بلکہ "فریضہ" قرار پاتی ہے اور آدمی کے اس پر قائم رہنے یا نہ رہنے کا انحصار دنیا میں اس کے مفید یا غیر مفید ہونے پر نہیں رہتا۔
اس طرح اخلاق کے ساتھ عقیدۂ آخرت کا تعلق نہایت موثر اور دل نشین طریقہ سے واضح کرنے کے بعد آیت 7 سے 17 تک بتایا گیا ہے کہ بدکار لوگوں کے نامۂ اعمال پہلے ہی جرائم پیشہ لوگوں کے رجسٹر (black list) میں درج ہو رہے ہیں اور آخرت میں ان کو سخت تباہی سے دوچار ہونا ہے۔ پھر آیت 18 سے 28 تک نیک لوگوں کا بہترین انجام بیان کیا گیا ہے اور یہ بتایا گیا ہے کہ ان کے اعمال نامے بلند پایہ لوگوں کے رجسٹر میں درج ہو رہے ہیں جس پر مقرب فرشتے مامور ہیں۔
آخر میں اہل ایمان کو تسلی دی گئی ہے اور اس کے ساتھ کفار کو خبردار بھی کیا گیا ہے کہ آج جو لوگ ایمان لانے والوں کی تذلیل کر رہے ہیں، قیامت کے روز یہی مجرم لوگ اپنی اِس روش کا بہت برا انجام دیکھیں گے اور یہی ایمان لانے والے ان مجرموں کا برا انجام دیکھ کر اپنی آنکھیں ٹھنڈی کریں گے۔
خلاصہ
بہر حال اس سور کے مباحث پانچ محوروںکے گرد گھومتے ہیں ۔
1۔ کم تولنے والوں کے بارے میں شدید تنبیہ و تہدید۔
2۔ اس مفہوم کی طرف اشارہ کہ بڑے بڑے گناہوں کا سر چشمہ قیامت کے بارے میں پختہ یقین نہ ہونا ہے ۔
3۔ اس عظیم دن فجار کی سر نوشت کا ایک حصہ۔
4۔ جنت میں نیکوکاروں کو ملنے والی عظیم اور روح پرور نعمتوں کا ایک حصہ ۔
5۔ کفار کا مومنین سے جاہلانہ مذاق اور اس کے بر عکس قیامت کے ہونے کا بیان ۔