ابو بکر بیہقی

(بیہقی سے رجوع مکرر)

امام ابوبکر احمد بن الحسین بیہقی (پیدائش: ستمبر 994ء— وفات: 9 اپریل 1066ء) مشہور ائمۃ الحدیث اور صاحب تصنیف ہیں۔

ابو بکر بیہقی
(عربی میں: أبو بكر البيهقي ویکی ڈیٹا پر (P1559) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

معلومات شخصیت
پیدائش 1 ستمبر 994ء [1][2][3][4]  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
خراسان   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 9 اپریل 1066ء (72 سال)[1][2][3][4]  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
نیشاپور [5]  ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مدفن سبزوار   ویکی ڈیٹا پر (P119) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت دولت عباسیہ   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مذہب اشعری [6]  ویکی ڈیٹا پر (P140) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
استاذ أبو منصور البغدادی ،  الحاکم نیشاپوری ،  ابوبکر محمد بن الحسن بن فراق ،  ابو محمد جوینی ،  ابو عبد الرحمن السلمی [6]  ویکی ڈیٹا پر (P1066) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تلمیذ خاص خواجہ عبد اللہ انصاری ،  امام الحرمین جوینی [7]  ویکی ڈیٹا پر (P802) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ محدث ،  فقیہ ،  عالم   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان عربی [8]  ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
کارہائے نمایاں السنن الکبریٰ بیہقی ،  الاسماء والصفات (کتاب) ،  شعب الایمان للبیہقی ،  دلائل النبوۃ للبیہقی   ویکی ڈیٹا پر (P800) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

آپ کا اسم گرامی ابو بکر احمد بن حسین بن علی بن عبد اللہ بن موسیٰ خسروجردی، بیہقی، خراسانی ہے۔ انھیں امام بیہقی بھی لکھا جاتا ہے

ولادت

ترمیم

آپ شعبان 384ھ 994ء میں خسرو جرد نامی بستی میں پیدا ہوئے جو بیہق(نیشاپور) کے نواح میں واقع ہے ۔

اساتذہ

ترمیم

اساتذہ کرام میں انتہائی شہرت کے حامل یہ حضرات ہیں : ابو الحسن محمد بن حسین العلوی، امام ابو عبد اللہ الحاکم، ابو اسحاق، اسفرائینی، عبد اللہ بن یوسف اصبھانی، ابو علی الروزباری، امام بزاز، ابو بکر ابن فورک وغیرہ۔

تلامذہ

ترمیم

کسی بھی عالم کے علمی مقام کا جہاں ان کی کتب سے اندازہ ہوتا ہے وہاں اس سے بھی بڑھ کر اس کا تعارف اس کے وہ ارشد تلامذہ ہوتے ہیں جنھیں وہ انتہائی محنت اور جانفشانی سے تیار کرتا ہے۔ بالکل ایسے ہی امام بیہقی اگر اپنی گراں قدر تصانیف نہ بھی عالمِ وجود میں چھوڑ کر جاتے تو ان کو زندہ رکھنے کے لیے ان کے تلامذہ ہی کافی تھے۔ جنھوں نے آپ کی کتب کو آئندہ نسلوں کی طرف منتقل کیا اور ہمیشہ آپ کی ملازمت اختیار کی ہے، ان میں ابو عبد اللہ محمد بن الفضل الفرادی، ابو عبد اللہ محمد عبد الجبار بن محمد بن احمد البیہقي الخواری، ابو نصر علی بن مسعود بن محمد الشجاعی، ابو عبد اللہ بن ابو مسعود الصاعدی، فرزندِ حضرت ِامام اسماعیل بن احمد البیہقي اور آپ کے پوتے ابو الحسن عبید اللہ بن محمد بن احمد شامل ہیں۔

سیرت وخصائص

ترمیم

امام بیہقی تمام اصنافِ علم کے امام، حدیث کے حافظ، بہت بڑے فقیہ اور اُصولی تھے۔ پھر متدین اور خدا سے ڈرنے والے بھی تھے۔ اپنے زمانے کے سب سے بڑے حافظِ حدیث اور معاصرین میں ضبط و اتقان میں انفرادیت کے حامل تھے۔ امام ابو عبد اللہ الحاکم سے کثرت سے روایت کرنے والے کبار اصحاب میں آپ کا شمار ہوتا تھا اور پھر اس پر اُنھوں نے اپنی محنت و کاوش سے دیگر علوم میں بھی مہارت پیدا کی۔ کتابت اور حفظِ حدیث بچپن سے شروع کیا اور اسی میں ہی پلے بڑھے اور تفقہ فی الدین کی منازل طے کرتے ہوئے ان میں نکھار پیدا کیا اور اُصولِ دین میں مہارت حاصل کی۔سلف و صالحین کا خصوصی امتیاز یہ تھا جس قدر ان کے پاس دولت علم ہوتی تھی اسی قدر ان کی زندگی عمل صالح سے بھی معمور ہوتی تھی اور عالم باعمل کی حقیقی تصویر ہوا کرتے تھے، بالکل ایسا ہی کچھ جناب امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ کا طرزِ زندگی تھا کہ آپ بڑے زاہد عن الدنیا، انتہائی قانع، بہت بڑے متقی اور پارسا شخص تھے۔ آپ کے ان اوصاف کی گواہی اہل تاریخ نے دی ہے۔ امام ابن عساکر رحمۃ اللہ علیہ رقم فرماتے ہیں:"مجھے شیخ ابو الحسن الفارسی نے جنابِ امام بیہقی کی بابت لکھا کہ آپ سیرتِ علما کا عملی نمونہ تھے، انتہائی تھوڑے پر قناعت فرمانے والے اور زہد و ورع کے اعلیٰ اوصاف سے مزین تھے اور حدیہ ہے کہ تادمِ زیست اسی طرزِ حیات پر کاربند رہے"۔آپ زاہد عن الدنیا، بہت تھوڑے پر راضی ہونے والے اور عبادت و ورع میں بہت آگے بڑھے ہوئے تھے۔آپ حفظ و اتقان میں اپنے زمانہ کے نادرہ روز گار تھے۔ ثقہ اور بااعتماد امام تھے اور پورے خراسان کے بالاتفاق شیخ تھے۔

تصنیفات

ترمیم
  • السنن الكبرى – 10 جلدوں میں ہے
  • السنن الصغرى
  • المعارف
  • الاسماء والصفات
  • دلائل النبوة
  • الآداب - حديث میں ہے
  • الترغيب والترہيب
  • المبسوط
  • الجامع المصنف في شعب الإيمان
  • مناقب الامام الشافعی
  • معرفة السنن والآثار
  • القراءة خلف الامام
  • البعث والنشور
  • الاعتقاد
  • فضائل الصحابہ 10 جلدوں میں ہے[9]

وفات

ترمیم

امام بیہقی کی وفات کے سلسلے میں امام ذہبی لکھتے ہیں کہ آخر عمر میں وہ نیشاپور اُٹھ گئے تھے اور وہاں اپنی کتب کے درس میں مشغول ہو گئے، لیکن جلد ہی وقتِ رحلت آن پہنچا اور 10 جمادی الاولیٰ 458ھ- 1066ء میں نیشاپور میں ہی داعیٔ اجل کو لبیک کہا اور بیہقی میں لاکر آپ کو سپرد خاک کیا گیا

حوالہ جات

ترمیم
  1. ^ ا ب مصنف: فرانس کا قومی کتب خانہ — عنوان : اوپن ڈیٹا پلیٹ فارم — بی این ایف - آئی ڈی: https://catalogue.bnf.fr/ark:/12148/cb12539447v — اخذ شدہ بتاریخ: 10 اکتوبر 2015 — اجازت نامہ: آزاد اجازت نامہ
  2. ^ ا ب ایس این اے سی آرک آئی ڈی: https://snaccooperative.org/ark:/99166/w6k97b4s — بنام: Al-Bayhaqi — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017
  3. ^ ا ب ایف اے ایس ٹی - آئی ڈی: https://id.worldcat.org/fast/147857 — بنام: Aḥmad ibn al-Ḥusayn Bayhaqī — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017
  4. ^ ا ب بنام: Abu Bakr Aḥmed al-Baihaqi — ایس ای ایل آئی بی آر: https://libris.kb.se/auth/174374 — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017
  5. مصنف: فرانس کا قومی کتب خانہ — عنوان : BnF catalogue général — ناشر: فرانس کا قومی کتب خانہ — ربط: بی این ایف - آئی ڈی
  6. ^ ا ب https://www.arrabita.ma/blog/الإمــام-البيـهــقي/
  7. صفحہ: 12 — https://www.degruyter.com/document/doi/10.1515/9783112401613-005/pdf
  8. مصنف: فرانس کا قومی کتب خانہhttp://data.bnf.fr/ark:/12148/cb12539447v — اخذ شدہ بتاریخ: 10 اکتوبر 2015 — اجازت نامہ: آزاد اجازت نامہ
  9. خیرالدین زرکلی، الاعلام، ج1، ص116.