امابائی کنڈاپور
اُمابائی کُنڈاپور (1892-1992) منگلور سے تعلق رکھنے والی خاتون مجاہد آزادی تھیں۔ان کی پیدائش بھوانی گولی کیری کے طور پر گولی کیری کرشنا راؤ اور جنگا بائی کے یہاں 1892ء میں منگلور میں ہوئی۔ ان کی شادی 13 سال کی عمر میں سنجیو راؤ کُنڈاپور سے ہوئی۔ ان کے سسر آنند راؤ کُنڈاپور کے روشن خیال شخص تھے جو عورتوں کی ترقی کے حامی تھے۔ انھوں نے اما کو میٹرک اور گریجویٹ امتجانات پاس کروائے۔ تاہم 25 سال کی عمر میں شوہر کا سانحہ ارتحال کی وجہ سے اما نے سماج اور تحریک آزادی کے لیے خود کو وقف کر دیا۔[1]
کار ہائے نمایاں
ترمیماُمابائی کُنڈاپور ہندوستان سیوا دل سے جڑی رہیں جو نو جوان بے داری کی تنظیم تھی۔ انھوں نے بھارت کی استعماری برطانوی حکومت کے خلاف نوجوانوں کو ابھارا تھا، جس کی وجہ سے وہ 1932ء میں چار مہینے کے لیے ییراواڑا جیل میں سروجنی نائیڈو کے ساتھ قید رہیں۔ وہ اپنے گھر کو مجاہدین آزادی کے لیے پناہ گاہ میں بدل دیا۔ وہ ہبلی میں لڑکیوں کے لیے ’تلک کنیا شالا’ کے نام سے ایک اسکول قائم کیے۔ یہ اسکول لڑکیوں کی تعلیم پر مرکوز تھا، جو اس دور میں عام نہیں تھی۔ انھوں نے ایک پریس بھی قائم کیا تھا، جس کا نام کرناٹک پریس تھا، یہ پریس اور اسکول حکومت مخالف اقدامات کی وجہ سے بند کر دیے گئے۔ خواتین کی رفاہی ضروریات کی تکمیل کے لیے موہن داس گاندھی نے اُمابائی کُنڈاپور کو کرناٹک کی شاخ کے کستوربا ٹرسٹ کی ذمے داری دی۔ ٹرسٹ کے کچھ بھی پیسے نہیں تھے تو اما نے بھیک مانگ کر چندے جمع کیے اور دست یاب مالیے سے مفلوک الحال خواتین کی امداد کی۔ بھارت کی آزادی کے بعد وہ قومی قائدین سے شناسائی کے سبب اعلٰی عہدوں پر فائز ہو سکتی تھیں۔ تاہم اما نے گم نامی اور خدمت کو ترجیح دی۔ انھوں نے اعزازی تامر پتر (سرکردہ مجاہدین آزادی کو دیا جانے والا توصیفی تمغا) بھی لینے سے انکار کر دیا۔ اسی طرح سے انھوں نے کسی قسم کے وظیفے کو بھی لینا منظور نہیں کیا۔ وہ ایک چھوٹے سے گھر "آنند سمرتی" میں رہتی تھیں، جو ان کے سسر کی یاد میں تعمیر ہوا تھا اور اسی رہائش میں وہ 1992ء میں انتقال کر گئیں۔[2]