امام بی
امام بی بی شیخ نور محمد کی زوجہ اور حکیم الامت شاعر مشرق علامہ محمد اقبال کی والدہ ماجدہ ہیں۔
امام بی | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
وفات | 9 نومبر 1914ء سیالکوٹ (موجودہ پاکستان) |
قومیت | برطانوی ہند |
مذہب | اسلام |
شریک حیات | شیخ نور محمد |
اولاد | محمد اقبال اور شیخ عطا محمد |
درستی - ترمیم |
ابتدائی حالات
ترمیمآپ کا نام گرامی 'امام بی بی ہے۔ آپ کے والدین کا تعلق سمبڑیال ضلع سیالکوٹ ایک کشمیری گھرانے سے تھا۔ آپ کی مشہوری کی وجہ ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کی والدہ کی حثیت سے ہے۔ آپ کو آپ کی اولاد کے علاوہ رشتے دار اور چھوٹی عمر سب لوگ بے جی بلاتے تھے۔ بے جی کے زمانے میں خواتین (بالخصوص دیہات کی خواتین) میں لکھنے پڑھنے کا رواج بالکل نہ ہونے کے برابر تھا۔ اس لیے بے جی لکھنا پڑھنا نہیں جانتی تھی البتہ نماز ان کو ازبر تھی اور وہ اس کو پابندی سے ادا کیا کرتی تھی۔ ناخوند ہونے کے باوجود آپ حلم و وقار ، خوش خلقی ، سمجھ بوجھ ، معاملہ فہمی ، خانہ داری ، دریا دلی اور صالحیت یا تدین کے اعتبار سے ایک مثالی خاتون تھیں۔
شادی
ترمیمآپ کی شادی شیخ نور محمد سے ہوئی۔ آپ کی شادی کے کچھ عرصہ بعد آپ کے گھر والے (شیخ نور محمد کے سسرال والے) سیالکوٹ میں آ کر آباد ہو گئے۔
صفات
ترمیمبے جی برادری کے باہمی جگھڑے نہایت عمدگی سے سلجھا لیتی تھیں اور ایک دوسرے سے ناراض عناصر کو باہم گلے ملوا دیتی تھیں۔ اپنی خوش خلقی اور درد مندی کے باعث محلے کی خواتین میں بے حد ہر دلعزیز تھیں۔ ان کو بے جی پر اس قدر اعتماد تھا کہ جب کبھی ضرورت پڑتی وہ اپنے زیورات یا روپیہ پیسہ ان کے پاس امانت رکھوا دیتی تھیں۔ بے جی ایسی تمام امانتیں بڑی احتیاط کے ساتھ علاحدہ علاحدہ سرخ کپڑے کی پوٹلیوں میں باندھ کر اپنے پاس محفوظ کر لیتی تھیں۔ بے جی کی زندگی کا سب سے تابناک پہلو ان کا جذبہ خیر تھا۔ آپ غریبوں اور حاجت مندوں کی اس طرح مدد کرتی تھیں کہ کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوتی تھی۔ کئی حاجت مند خواتین کو ان کے دست فیض رساں سے پوشیدہ طور پر نقد رقوم ملتی رہتی تھیں۔ پوشیدہ طور پر اس لیے کہ وہ کام نام و نمود کے لیے نہیں بلکہ صرف اللہ کی رضا کی خاصر کرتی تھیں۔ آپ کے بڑے فرزند شیخ عطا محمد بے جی کی ایسی خیرات کو گپت دان کہا کرتے تھے۔ جب وہ رخصت پر سیالکوٹ آتے تو بے جی کو اس گپت دان کے لیے خصوصی رقم دیا کرتے تھے۔ اس طرح بے جی کا دریائے فیض برابر جاری رہتا تھا۔ وہ ایک اور اندازے سے بھی غریبوں کی مدد کیا کرتی تھیں۔ وہ یوں کہ نادار گھرانوں کی تین چار لڑکیاں اپنے پاس لے آتی اور ان کی کفالت اپنے ذمہ لے لیتی تھیں۔ ان بچیوں کو اپنی بیٹیوں کی طرح سمجھتی تھیں اور ان سے بہت پیار کرتی تھیں۔ یہ بچیاں گھر کے کام کاج میں ہاتھ بٹاتی تھیں لیکن ملازموں کی طرح نہیں بلکہ دوسرے اہل خانہ کی طرح وہ اس کو اپنے گھر کا کام سمجھ کر کرتی تھیں۔ بے جی کی بہو بیٹیاں ان بچیوں کو بے جی کی ہدایت کے مطابق قرآن مجید پڑھاتی ، نماز سکھاتی ، معمولی دینی تعلیم دیتیں اس کے علاوہ اردو لکھنا پڑھنا ، کھانا پکانا اور سینا پرونا بھی سکھاتی تھیں۔ کچھ مدت کے بعد مناسب رشتہ تلاش کر کے ان کی شادی کر دیتیں اور ان کی رخصتی اپنی بیٹیوں کی طرح کرتیں۔ یہ لڑکیاں عمر بھر بے جی کو اپنی حقیقی ماں کا درجہ دیتی تھیں اور ان کے پاس اپنے سسرال سے اس طرح آتیں جس طرح بیٹیاں اپنے میکے آتی ہیں۔ [1] [2] [3] بے جی کے جذبہ ایثار کا ایک واقعہ شیخ احمد کے بقول یہ ہے کہ
- میاں جی (شیخ نور محمد) کے چھوٹے بھائی شیخ غلام محمد کے لڑکیاں ہی ہوتیں تھیں۔ ان کی بیوی کو بیٹے کی خواہش تھی۔ دونوں بھائی اکھٹے رہتے تھے۔ ایک بار دونوں کی بیویاں امید سے تھیں۔ اس مرتبہ بے جی کو اللہ نے لڑکا دیا اور دیور کی بیوی کے ہاں پھر سے لڑکی ہوئی۔ ان کی افسردگی کو محسوس کرتے ہوئے بے جی نے ان سے کہا کہ لڑکا تم لے لو اور لڑکی مجھے دے دو۔ چنانچہ بچوں کا تبادلہ ہو گیا۔ بے جی نے لڑکی پالنا شروع کر دی اور ان کی دیورانی نے لڑکے کو۔ چند ماہ بعد ایک دن صبح کے وقت دونوں گھر کے کام کاج میں مصروف تھیں ، بے جی نے لڑکے کے متعلق پوچھا تو ان کی دیورانی نے کہا کہ دودھ پی کر سو گیا ہے۔ جب خاصی دیر ہو گئی اور بچہ بیدار نہ ہوا تو جا کر دیکھنے پر معلوم ہوا کہ بچہ مر چکا ہے۔ اس کے ہونٹوں پر دودھ لگا ہوا تھا۔ اس کے بعد بے جی نے لڑکی دیورانی کو واپس کر دی۔ [4] [5]
اولاد کی تربیت
ترمیمبے جی نہایت اعلی درجے کی منتظم تھیں۔ آپ اپنی اولاد کی تربیت پر خاص توجہ دیتی تھیں اور ہر وقت ان کو ادب و تمیز سکھانے میں کوشاں رہتی تھیں۔ علامہ محمد اقبال نے ان کے حسن تربیت اور حسن عمل کو ان الفاظ میں خراج تحسین ادا کیا:
- تربیت سے میں تری انجم کا ہم قسمت ہوا
گھر میرے اجداد کا سرمایہ عزت ہوا
- دفتر ہستی میں تھی زریں ورق تیری حیات
تھی سراپا دین دنیا کا سبق تیری حیات
اقبال اور بے جی کا انس و محبت
ترمیمعلامہ محمد اقبال بے جی سے بہت محبت کرتے تھے۔ جب تک بے جی حیات رہیں لاہور کے قیام کے دوران علامہ اقبال کا یہ معمول رہا کہ وہ گرمیوں کی تعطیلات میں یا جب بھی ان کو فرصت ملتی سیالکوٹ والدہ کی خدمت میں پہنچ جاتے۔ بے جی کو بھی اقبال سے والہانہ محبت تھی۔ جب وہ یورپ میں تعلیم حاصل کر رہے تھے تو دوپہر میں ان کے خطوط کے انتظار میں بیٹھی رہتی تھیں۔ اقبال جب گھر ہوتے بے جی کے پاس تو دوپہر کو کھانے سے پہلے یا کھانے کے بعد روزانہ زنان خانے میں محفل جمتی جس میں بے جی ، اقبال کی بہنیں اور بے جی کی بہوئیں شریک ہوتیں۔ اس محفل میں برادری اور محلے کے واقعات اور تنازعات کا ذکر ہوتا تھا جن کو اقبال بڑی دلچسپی سے سنتے تھے۔ اس وقت مسکراہٹ ان کے لبوں پر کھیل رہی ہوتی اور بعض اوقات وہ تفننِ طبع کے طور پر بے جی سے پوچھتے اچھا "بے جی فلاں بہو اور ساس کے جھگڑے کا فیصلہ کس طرح ہوا اور آپ نے ان کے درمیان آپ نے کیسے صلح کرائی؟" [6] شیخ عطا محمد کی دوسری شادی کے وقت اقبال پانچویں جماعت میں پڑھتے تھے۔ آپ کی بھاوج بیان کرتی ہے کہ اقبال کو شعروں سے بڑی مناسبت تھی۔ ان کی آواز بھی نہایت شیریں تھی۔ وہ بازار سے منظوم قصے خرید لاتے تھے اور گھر کی عورتوں کو خوش الحانی سے پڑھ کر سناتے۔ اسی طرح ان کا بیان ہے کہ اقبال چھوٹی عمر ہی سے بے حد ذہین تھے ، پڑھائی کا بڑا شوق تھا اور سخت محنت کرتے تھے ، یہاں تک کہ رات گئے تک پڑھتے رہتے۔
- ایک دفعہ نصف شب کے قریب بے جی کی آنکھ کھل گئی اور دیکھا کہ اقبال لیمپ کے پاس بیٹھے اسکول کا کام کر رہے ہیں۔ بے جی نے انھیں دو تین مرتبہ پکارا لیکن کوئی جواب نہ آیا۔ پھر انھوں نے بیٹے کو جھنجھوڑتے ہوئے کہا کہ اس وقت آدھی رات کو کیا پڑھ رہے ہو؟ اقبال نے اونگھتے ہوئے جواب دیا: بے جی! سویا ہوا ہی تو ہوں۔ وہ پڑھتے پڑھتے سو گئے تھے۔
اقبال کے لڑکپن کے زمانے میں ان کے بڑے بھائی شیخ عطا محمد سیالکوٹ سے باہر تعینات تھے اور ان کی اہلیہ سیالکوٹ میں ہی رہتی تھی۔ گھر میں زیادہ تعداد عورتوں کی تھی۔ اقبال اس دور میں اپنے والدین کی توجہ کا مرکز تھے۔ وہ ماں سے بے حد محبت کرتے تھے اور باپ سے انھیں جس قسم کی تربیت ملی اس کے متعلق علامہ اقبال خود بیان کرتے ہیں کہ
- جب میری عمر کوئی گیارہ سال تھی ، ایک رات اپنے گھر میں کسی آہٹ کے باعث سوتے سے بیدار ہو گیا۔ میں نے دیکھا کہ میری والدہ کمرے کی سیڑھیوں سے نیچے اتر رہی ہیں۔ میں فوراً اپنے بستر سے اٹھا اور اپنی والدہ کے پیچھے چلتے چلتے سامنے کے دروازے کے پاس پہنچا ، جو آدھا کھلا تھا اور اس میں سے روشنی اندر آ رہی تھی۔ والدہ اس دروازے سے باہر جھانک رہی تھیں۔ میں نے آگے بڑھ کر دیکھا کہ والد کھلے صحن میں بیٹھے ہیں اور ایک نور کا حلقہ ان کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ میں نے والد کے پاس جانا چاہا لیکن والدہ نے مجھے روکا اور سمجھا بجھا کر سلا دیا۔ صبح ہوئی تو میں سب سے پہلے اپنے والد کے پاس پہنچا تا کہ ان سے رات کا ماجرا دریافت کروں۔ والدہ صاحبہ پہلے ہی وہاں موجود تھیں اور والد صاحب انھیں اپنا ایک رویا سنا رہے تھے جو رات انھوں نے بحالت بیداری دیکھا تھا۔ والد صاحب نے بتایا کہ کابل سے ایک قافلہ آیا ہے جو مجبوراً ہمارے شہر سے پچیس میل کے فاصلے پر مقیم ہوا ہے۔ اس قافلے میں ایک شخص بے حد بیمار ہے اور اس کی نازک حالت کی وجہ سے قافلہ ٹھہر گیا ہے لہذا مجھے ان لوگوں کی مدد کے لیے فوراً پہنچنا چاہیے۔ والد نے کچھ ضروری چیزیں فراہم کر کے تانگہ منگایا۔ مجھے بھی ساتھ بٹھایا اور چل دیے۔ چند گھنٹوں میں تانگہ اس مقام پر پہنچ گیا جہاں قافلہ ٹھہرا ہوا تھا۔ ہم نے دیکھا کہ وہ قافلہ ایک دولت مند اور بااثر خاندان پر مشتمل ہے جس کے افراد اپنے ایک فرد کے علاج کے لیے پنجاب آئے تھے۔ والد نے تانگے سے اترتے ہی دریافت کیا کہ اس قافلے کا سالار کون ہے؟ جب وہ صاحب سامنے آئے تو والد نے کہا مجھے فوراً مریض کے پاس لے چلو۔ سالار بے حد متعجب ہوا کہ یہ کون شخص ہے جو ہمارے مریض کی بیماری سے مطلع ہے اور فوراً اس کے پاس بھی پہنچنا چاہتا ہے ، تا ہم وہ مرعونیت کے عالم میں انھیں اپنے ساتھ لے گیا۔ جب والد صاحب مریض کے بستر کے پاس پہنچے تو دیکھا کہ اس کی حالت بہت خراب ہے اور اس کے بعض اعضا اس مرض کی وجہ سے ہولناک طور پر متاثرہو چکے ہیں۔ والد صاحب نے ایک چیز نکالی جو بظاہر راکھ نظر آتی تھی۔ وہ راکھ مریض کے گلے سڑے اعضا پر مل دی اور کہا اللہ کے فضل سے اسے شفا حاصل ہو گی۔ اس وقت نہ مجھے یقین آیا اور نہ مریض کے لواحقین نے اس پیش گوئی کو اہمیت دی لیکن چوبیس ہی گھنٹے گذرے تھے کہ مریض کو نمایاں افاقہ ہو گیا اور لواحقین کو یقین ہونے لگا کہ یہ صحیت یاب ہو جائے گا۔ ان لوگوں نے والد صاحب کی خدمت میں ایک اچھی خاصی رقم پیش کی جسے والد صاحب نے قبول نہ کیا اور ہم لوگ سیالکوٹ آ گئے۔ چند روز بعد وہ قافلہ سیالکوٹ میں وارد ہو گیا اور معلوم ہوا کہ وہ مایوس العلاج مریض شفایاب ہو چکا ہے۔ [7]
وصال
ترمیمآپ کی وفات پر علامہ اقبال نے ایک نظم ’’والدۂ مرحومہ کی یاد میں‘‘ لکھی جو بعد ازاں بانگِ درا کی زینت بنی۔ آپ کا انتقال 9 نومبر 1914ء کو سیالکوٹ میں ہوا اور آپ کو درگاہ امام علی الحق سے ملحقہ قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔ اس نظم کا آخری شعر اس قدر مقبولِ عام ہے کہ پاکستان میں قبور کے کتبوں پر سب سے زیادہ جو شعر لکھوایا جاتا ہے وہ یہی ہے:
آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
سبزۂ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے
اقبال پر شدت غم کا اثر
ترمیماقبال کو بے جی کی وفات سے شدید صدمہ پہنچا اور بہت دنوں تک ان پر یاس کی کفیت طاری رہی۔
- مولانا عبد المجید سالک کا بیان ہے کہ میں تعزیت کے علامہ اقبال کی خدمت میں حاضر ہوا تو وہ دیر تک والدہ مرحومہ کے اوصاف و محاسن بیان کر کے آبدیدہ ہوتے رہے۔ کہتے تھے کہ جب سیالکوٹ جاتا تھا تو والدہ مرحومہ شگفتہ ہو کر فرماتیں میرا بالی آ گیا اس وقت میں اپنے آپ کو ایک ننھا سا بچہ سمجھنے لگتا۔
علامہ اقبال نے (آنجہانی) مہاراجا سرکشن پرشاد (صدراعظم حید آباد دکن) کے نام ایک خط میں اپنی والدہ مرحومہ کے حوالے سے ان جذبات کا ذکر کیا
- انسان اپنی کمزوری کو چھپانے میں کس قدر تاک ہے ، بے بسی کا نام صبر رکھتا ہے اور پھر اس صبر کو ہمت و استقلال کی طرف منسوب کرتا ہے ، مگر اس حادثے نے میرے دل و دماغ میں ایک شدید تغیر پیدا کر دیا ہے۔ میرے لیے دنیا کے معاملات میں دلچسپی لینا اور دنیا میں آگے بڑھنے کی خواہش کرنا صرف مرحومہ کے دم سے وابستہ تھا۔ اب یہ حالت ہے کہ موت کا انتظار ہے۔ دنیا میں موت سب انسانوں تک پہنچتی ہے اور کبھی انسان بھی موت تک پہنچ جاتا ہے۔ میرے قلب کی موجودہ کفیت یہ ہے کہ وہ تو مجھ تک پہنچتی نہیں کسی طرح میں ان تک پہنچ جاؤں۔
بے جی کی وفات پر علامہ محمد اقبال نے اپنے دلی جذبات کا اظہار اپنی بے مثل نظم والدہ مرحومہ کی یاد میں میں کیا۔ [9] [10]
شیخ نور محمد کی کفیت
ترمیمبے جی کی وفات کا صدمہ شیخ نور محمد کی قوت برداشت سے باہر تھا۔ وہ شاعر نہ تھے مگر صدمے کے زیر اثر انھوں نے ایک دن اعجاز احمد سے کاغذ اور قلم دوات لانے کے لیے کہا۔ اعجاز احمد سمجھے کہ شاید اقبال کو خط لکھوائیں گے ، فرمایا کہ جو کچھ بولتا ہوں لکھتا جاؤ اور پھر اس کاغذ کو اپنے چچا کے پاس بھیج دو۔ میاں جی سوچ سوچ کر شعر لکھواتے جاتے تھے اور دو تین نشستوں میں دس بارہ اشعار قلم بند کرائے۔ ان اشعار میں سے ایک شعر شیخ اعجاز احمد نے نقل کرایا ہے۔
- یہ تنہا زندگی پیری میں نصف الموت ہوتی ہے
- نہ کوئی ہم سخن اپنا ، نہ کوئی راز داں اپنا
اشعار اقبال کو بھیج دیے گئے جنھوں نے کچھ عرصہ بعد اپنی نظم والدہ مرحومہ کی یاد میں کاتب سے خوش خط لکھوا کر میاں جی کو ارسال کر دی۔
مرثیہ
ترمیماکبر الہ آبادی نے تعزیت کرتے ہوئے فرمایا
- حضرت اقبال میں جو خوبیاں پیدا ہوئیں
قوم کی نظریں جو ان کے طرز کی شیدا ہوئیں
- یہ حق آگاہی ، یہ خوشی گوئی ، یہ ذوق معرفت
یہ طریق دوستی ، خود داری با تمکنت
- اس کی شاہد ہیں کہ ان کے والدین ابرار تھے
با خدا تھے ، اہل دل تھے ، صاحب اسرار تھے
- جلوہ گر ان میں انھیں کا ہے یہ فیض تربیت
ہے ثمر اس باغ کا یہ طبع عالی منزلت
- مادر مرحومہ اقبال جنت کو گئیں !
چشم تر ہے آنسوؤں سے قلب ہے اندوہ گیں
- رکنا مشکل ہے آہ و زاری و فریاد کو
نعمت عظمی ہے ماں کی زندگی اولاد کو
- اکبر اس غم میں شریک حضرت اقبال
سال رحلت کا یہاں منظور اسے فی الحال
- واقعی مخدومہ ملت تھیں وہ نیکو صفات
رحلت مخدومہ سے پیدا ہے تاریخ وفات
- 1333ھ
اکبر الہ آبادی نے مندرجہ ذیل قطعہ تاریخ وفات لکھا جو آج بھی بے جی کی لوح مزار پر کندہ ہے
- مادر مرحومہ اقبال حضرت
سوئے جنت زیں جہاں بے ثبات
- گفت اکبر با دل پر درد و غم
رحلت مخدومہ تاریخ وفات [10]
اولاد
ترمیمشیخ نور محمد اور امام بی کی اولاد کی کل تعداد سات تھی۔
- شیخ عطا محمد
- فاطمہ بی
- طالع بی
- ایک لڑکا جو چند ماہ کی عمر میں وفات پاگیا
- محمد اقبال
- کریم بی
- زینب بی [11]
حوالہ جات
ترمیم- ↑ زندہ رود علامہ اقبال کی مکمل سوانح حیات از ڈاکٹر جاوید اقبال جلد اول صفحہ 44 اور 45
- ↑ مشہور لوگوں کی عظیم مائیں مولف مقبول ارشد صفحہ 45 اور46
- ↑ تذکار صالحات مولف طالب ہاشمی صفحہ 209 اور 210
- ↑ زندہ رود علامہ اقبال کی مکمل سوانح حیات از ڈاکٹر جاوید اقبال جلد اول صفحہ 45 اور 46
- ↑ مشہور لوگوں کی عظیم مائیں مولف مقبول ارشد صفحہ 46
- ↑ تذکار صالحات مولف طالب ہاشمی صفحہ 210
- ↑ مشہور لوگوں کی عظیم مائیں مولف مقبول ارشد صفحہ 47 تا 49
- ↑ تحریر و تحقیق: میاں ساجد علی‘ علامہ اقبال سٹمپ سوسائٹی)
- ↑ تذکار صالحات مولف طالب ہاشمی صفحہ 210 اور 211
- ^ ا ب مشہور لوگوں کی عظیم مائیں مولف مقبول ارشد صفحہ 50 اور 51
- ↑ مشہور لوگوں کی عظیم مائیں مولف مقبول ارشد صفحہ 47