استاد امیر خان (15 اگست 1912۔13 فروری 1974 )ایک ممتاز ہندوستانی کلاسیکی گائیک اور اندورگھرانہ کے بانی تھے۔

امیر خان (گلوکار)
 

معلومات شخصیت
پیدائش 15 اگست 1912ء[1]  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اندور  ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 13 فروری 1974ء (62 سال)[1]  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
کولکاتا  ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وجہ وفات ٹریفک حادثہ  ویکی ڈیٹا پر (P509) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت بھارت (26 جنوری 1950–)
برطانوی ہند (–14 اگست 1947)
ڈومنین بھارت (15 اگست 1947–26 جنوری 1950)  ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ گلو کار  ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اعزازات
سنگیت ناٹک اکادمی ایوارڈ 
 پدم بھوشن   ویکی ڈیٹا پر (P166) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

ابتدائی زندگی اور پسِ منظر ترمیم

امیر خان اندور،ہندوستان میں ایک موسیقار گھرانے میں پیدا ہوئے۔ان کے والد شاہ میر خان صاحب اندور دربار میں سارنگی اور وینا بجاتے تھے،ان کا تعلق بھنڈی بازار گھرانے سے تھا۔ ان کے دادا چھانگے خان بہادرشاہ ظفر کے درباری گائیک تھے۔ جب امیر خان صاحب نو برس کے تھے تو ان کی والدہ کا انتقال ہو گیا، ان کے چھوٹے بھائی بشیر نے آل انڈیا ریڈیو اندور اسٹیشن پر سارنگی نواز کی حیثیت سے کام کیا۔

امیر خان صاحب کو ان کے والد نے نے شروع میں سارنگی کی تربیت دی تاہم گائیکی میں ان کی دلچسپی دیکھ کر انھیں گلوکاری کے لیے ریاض کروانا شروع کر دیا اور میروکھنڈ طریقے پر زور دیا۔ اس طریقے میں ریاضیاتی طریقے سے سروں کی ترتیب بدل کر تانیں کہی جاتی ہیں۔ امیر خان صاحب چھوٹی عمر میں ہی بہت سے گائیکوں کی طرز سے آشنا ہو گئے تھے کیونکہ اندور میں ان کے گھر اکثر اوقات کئی گائیک آکر ٹھہرتے تھے اور موسیقی کی محفلیں سجتی تھیں۔

امیرخان صاحب 1934 میں بمبئی منتقل ہو گئے اور وہاں انھوں نے کچھ محفلیں اور اٹھتر آرپی ایم کے کچھ ریکارڈ گائے۔تاہم انھیں زیادہ مقبولیت نہ مل سکی۔ 1936 میں انھوں نے اپنے والد کے مشورے پر مدھیہ پردیش میں رائے گڑھ سانستھان کے مہاراج چکرادھر سنگھ کے دربار میں ملازمت کرلی ۔ انھوں نے راجا کی جانب سے مرزا پور میں ایک میوزک کانفرنس میں پرفارم کیا،جہاں بہت سے نامی گرامی گویے موجود تھے۔امیرخان صاحب کے صرف پندرہ منٹ گانے کے بعد ہی سامعین نے آوازیں نکالنی شروع کر دیں ، کانفرنس کے میزبان نے انھیں ٹھمری گانے کا کہا تاکہ سامعین شوق سے سنیں لیکن انھوں نے یہ کہہ کر ٹھمری گانے سے انکار کر دیا کہ ان کا دل نہیں مانتا۔

وہ صرف ایک سال رائے گڑھ ٹھہرے ،1937 میں والد کی وفات کے بعد پہلے دلی پھر کلکتہ چلے گئے، تقسیمِ ہند کے بعد وہ بمبئی واپس آگئے۔

گائیکی ترمیم

امیر خان صاحب نے زیادہ تر گائیکی بغیر استاد کے سیکھی۔ اس کا فائدہ یہ ہوا کہ انھوں نے اپنا انداز پیدا کیا جو استاد عبدالوحید خان صاحب کی بلمپت ، استاد رجب علی خان صاحب کی تان اور استاد امان علی خان صاحب کے میروکھنڈ طریقے سے تشکیل پایا تھا۔

امیر خان صاحب کی آواز خدا کا عظیم تحفہ تھی، ان کا گلا سریلا تھا اور وہ تین سپتکوں میں بغیر کسی دشواری کے گاسکتے تھے۔ مسلسل ریاض کے بعد ان کی آواز گائیکی کے ایک خاص انگ میں ڈھل گئی تھی۔

وہ خیال کو اتی بلمپت یعنی بہت آہستہ رفتار کے بول الاپ سے شروع کرتے تھے اور میروکھنڈ طریقے سے نقش بناتے ہوئے اوپر کی جانب جاتے تھے۔ آہستہ آہستہ سرگم سے لے بڑھاتے جاتے تھے ساتھ میں بول تانیں اور چھوٹ کی تانیں چلتی تھیں۔ ان کی چھوٹ کی تان بہت منفرد اور خاص تھی۔ وہ تیز لے میں بھی راگ کا بنیادی ڈھانچہ برقرار رکھتے تھے۔ پھر وہ مدھ لے یا درت لے میں چھوٹا خیال اور ترانہ گاتے تھے۔ انھوں نے فارسی بندشوں کے ساتھ ترانے کو مقبولیت بخشی۔ وہ گمک کو گائیکی کے لیے بہت اہم سمجھتے تھے۔

حوالہ جات ترمیم

  1. ^ ا ب بی این ایف - آئی ڈی: https://catalogue.bnf.fr/ark:/12148/cb155728198 — بنام: Amir Khan — مصنف: فرانس کا قومی کتب خانہ — عنوان : اوپن ڈیٹا پلیٹ فارم — اجازت نامہ: آزاد اجازت نامہ