ام ورقہ بنت عبد اﷲ یہ قبیلہ انصار کی ایک صحابیہ ہیں حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ان پربہت ہی مہربان تھے اور کبھی کبھی ان کے گھر بھی تشریف لے جاتے تھے اور ان کی زندگی ہی میں آپ نے ان کو شہادت کی بشارت دی اور ان کو شہیدہ کے لقب سے سرفراز فرمایا جنگ بدر کے موقع پر انھوں نے عرض کیا کہ یا رسول اﷲ! آپ مجھے بھی اس جنگ میں چلنے کی اجازت دے دیجئے میں زخمیوں کی مرہم پٹی اور ان کی تیمار داری کروں گی شاید اﷲ تعالیٰ مجھے شہادت نصیب فرمائے یہ سن کر حضورنے فرمایا کہ تم اپنے گھر میں بیٹھی رہو اﷲ تعالیٰ تمھیں شہادت سے سرفراز فرمائے گا یقیناً تم شہیدہ ہو چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ عمر بن خطاب کے دور خلافت میں ان کو ان کے گھر کے اندر ان کے ایک غلام اور لونڈی نے قتل کر دیا اور دونوں فرار ہو گئے، عمر بن خطاب کو بڑا رنج و قلق ہوا اور آپ نے ان دونوں قاتلوں کو گرفتار کرایا اور مدینہ منورہ میں ان دونوں کو پھانسی دی گئی تھی ام ورقہ کی شہادت کی خبر سن کر عمر بن خطاب نے فرمایا کہ بے شک رسول اﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سچے تھے کیونکہ آپ فرمایا کرتے تھے کہ چلو ام ورقہ شہیدہ کی ملاقات کر لیں چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ گھر بیٹھے ان کو شہادت نصیب ہو گئی ۔[1]

پہلی خاتون پیش نماز اور حافظہ قرآن

ترمیم

ام ورقہ حافظہ قرآن تھیں اور ان کو محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان کے محلے “اہل دا رہا” نہ کہ “اہل بیتھا” کی مسجد کا امام مامور فرمایا تھا جیسا کہ سنن ابی داؤد اور مسند احمد بن حنبل میں ہے اور یہ بھی کہ ان کے پیچھے مرد بھی نماز پڑھتے تھے اور یہ کہ ان کا مؤذن ایک مرد تھا۔[2]

حوالہ جات

ترمیم
  1. الاستیعاب، کتاب النساء، باب الواو3658، أم ورقۃ بنت عبد اللہ ج 4،ص 519
  2. ڈاکٹر حمید اللہ (1995ء)۔ خطبات بہاولپور۔ پاکستان: ادارہ تحقیقات اسلامی، اسلام آباد۔ صفحہ: ؟۔ 24 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 11 جنوری 2016