تناسخ یا آواگون (روح کا ایک قالب سے دوسرے قالب میں جانا)، تناسخ کا لفظ اردو میں عربی زبان سے آیا ہے اور نسخ سے ماخوذ ہے، تناسخ سے بنیادی طور پرمراد دوبارہ پیدا ہونے کی ہوتی ہے اور اسی تصور کی وجہ سے نسخ (نقل کرنے) سے تناسخ کا لفظ اس مفہوم میں استعمال ہوتا ہے یعنی ایک بار موت کے بعد وہ مرنے والی شخصیت (انسان یا کوئی اور جاندار) ایک مرتبہ پھر تجسیم حاصل کرلیتی ہے۔ متعدد اوقات اس مفہوم کو ادا کرنے کے لیے اہتجار کا لفظ بھی اختیار کیا جاتا ہے؛ انگریزی میں اسے reincarnation کہتے ہیں۔ تناسخ کا لفظ حیات بعد الموت سے ایک الگ تصور ہے جو عام طور پر ابراہیمی ادیان میں پایا جاتا ہے۔ علامہ قرطبی نے رافضیہ کے فرقوں میں سے ایک فرقہ تناسخیہ شمار کیا جن کا عقیدہ ہے کہ

" ارواح میں تناسخ ہوتا رہتا ہے پس جو کوئی محسن اور نیکو کار ہو اس کی روح نکلتی ہے اور ایسی مخلوق میں داخل ہوجاتی ہے جو اپنی زندگی کے ساتھ سعادت اندوز ہو رہی ہوتی ہے"۔[1]

جنتی زیور میں صفحہ 189 پر برزخ کے عنوان سے عقیدہ :3 پر لکھا ہے

"یہ خیال کہ مرنے کے بعد روح کسی دوسرے بدن میں چلی جاتی ہے خواہ وہ کسی آدمی کا بدن ہو یا کسی جانور کا جس کو فلا سفر تناسخ اور ہندو آواگون کہتے ہیں یہ خیال بالکل ہی باطل اور اس کا ماننا کفر ہے"۔[2]

مزید دیکھیے ترمیم

حوالہ جات ترمیم

  1. تفسیر قرطبی،ابو عبد اللہ محمد بن احمد بن ابوبکر قرطبی،آل عمران،103
  2. الفتاوی الہندیۃ، کتاب السیر، الباب التاسع فی احکام المرتدین، جلد2،صفحہ264 / النبراس،باب والبعث حق،صفحہ213