ایس-125 نیوا/پیچورا
ایس-125 نیوا (S-125 Neva) جسے ایس-125 پیچورا بھی کہا جاتا ہے، ایک روسی اینٹی ایئر کرافٹ میزائل سسٹم ہے جو فضائی حملوں کے خلاف مؤثر دفاع فراہم کرتا ہے۔ یہ میزائل سسٹم Almaz-Antey نے ڈیزائن کیا ہے اور 1960 کی دہائی میں روسی فوج میں شامل کیا گیا تھا۔[1]
ایس-125 نیوا | |
---|---|
فائل:S-125 Neva.jpg ایس-125 نیوا میزائل سسٹم | |
قسم | اینٹی ایئر کرافٹ میزائل |
مقام آغاز | روس |
تاریخ ا استعمال | |
استعمال میں | 1960–موجودہ |
استعمال از | روس, بیلاروس, سوریہ, مصر, ویت نام, بھارت |
تاریخ صنعت | |
ڈیزائنر | Almaz-Antey |
ڈیزائن | 1950s |
تیار | 1960–موجودہ |
ساختہ تعداد | نامعلوم |
تفصیلات | |
وزن | 2,000 kg (مکمل سسٹم) |
لمبائی | 9.2 m |
قطر | 0.65 m |
رفتار | Mach 3 |
گائیڈنس نظام | Inertial guidance, Command guidance |
درستگی | CEP 10 meters |
لانچ پلیٹ فارم | ٹرک ماؤنٹڈ لانچرز |
ترقی و ارتقاء
ترمیمایس-125 نیوا کی ترقی 1950 کی دہائی کے اوائل میں شروع ہوئی، اور یہ 1960 کی دہائی میں عملی طور پر متعارف کروایا گیا۔ اس کا مقصد جنگی ہوائی جہازوں کے خلاف مؤثر دفاع فراہم کرنا تھا۔ یہ سسٹم سرد جنگ کے دوران ایک اہم دفاعی اثاثہ تھا۔[2]
خصوصیات
ترمیمایس-125 نیوا ایک قابل اعتماد اینٹی ایئر کرافٹ میزائل سسٹم ہے جو تقریباً 25 کلومیٹر کی رینج فراہم کرتا ہے اور Mach 3 کی رفتار سے پرواز کر سکتا ہے۔ اس کی راہنمائی کے لیے انرشیل گائیڈنس اور کمانڈ گائیڈنس سسٹمز استعمال کیے جاتے ہیں، جو اسے ہوائی حملوں کے خلاف مؤثر بناتے ہیں۔[3]
ورژنز
ترمیمایس-125 نیوا کے مختلف ورژنز کی منصوبہ بندی کی گئی ہے، جن میں شامل ہیں:
- ایس-125 پیچورا: بنیادی ورژن، ابتدائی دفاعی صلاحیتوں کے ساتھ۔
- ایس-125 پیچورا-2: جدید خصوصیات اور بہتر رینج کے ساتھ ورژن۔
استعمال کنندگان
ترمیمایس-125 نیوا روس کے علاوہ دیگر ممالک کے زیر استعمال بھی ہے، جیسے:
جنگی استعمال
ترمیمتجربات
ترمیمایس-125 نیوا کے مختلف کامیاب تجربات کیے گئے ہیں، جن میں اس نے اپنی رینج اور درستگی کے ساتھ مؤثر کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ یہ میزائل سسٹم کئی بین الاقوامی تنازعات میں استعمال ہوا ہے اور اس کی کارکردگی پر مثبت رائے دی گئی ہے۔[4]
حالیہ تنازعات
ترمیمایس-125 نیوا کی ترقی اور استعمال نے اسے عالمی سطح پر ایک اہم دفاعی اثاثہ بنا دیا ہے۔ اس کی جدید گائیڈنس سسٹمز اور مؤثر رینج کی وجہ سے یہ دنیا کے کئی ممالک کی دفاعی حکمت عملی کا حصہ ہے۔